وزیراعظم نے فوج کو بھارت کی کسی بھی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دینے کا اختیار دیدیا

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم نے فوج کو بھارت کی کسی بھی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دینے کا اختیار دیدیا

آصف علی بھٹی

197264_8842430_updates.jpg

وزیراعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس: فائل فوٹو

اسلام آباد: وزیراعظم نے پاک فوج کو بھارت کی کسی مہم جوئی یا جارحیت کا فیصلہ کن جواب دینے کا اختیار دے دیا۔

وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وزیراعظم ہاؤس میں قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا جو 3 گھنٹے سے زائد جاری رہا، اجلاس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان، حساس اداروں کے سربراہان اور سیکیورٹی حکام سمیت خزانہ، دفاع، خارجہ کے وفاقی وزرا اور وزیر مملکت برائے داخلہ بھی شریک ہوئے۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی اندرونی و سرحدی سیکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

اس کے علاوہ کمیٹی کو خارجہ حکام کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں زیر سماعت بھارتی جاسوس کلبھوشن کے کیس پر بریفنگ دی گئی۔

حکام نے پاکستان کی افغان مصالحتی امن عمل کی کوششوں پر بھی بریفنگ دی جب کہ اس دوران افغان امن عمل اور پاکستان کی کوششوں کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس کا اعلامیہ

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق اجلاس میں اہم فیصلے کیے گئے۔

اعلامیے کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے پاک فوج کو بھارت کی کسی مہم جوئی یا جارحیت کا فیصلہ کن جواب دینے کا اختیار دیتے ہوئے ہدایت کی کہ کسی بھی بھارتی جارحیت کا پوری طاقت سے بھرپور جواب دیا جائے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کی ریاست کو انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دیں گے، وزارتِ داخلہ اور سیکیورٹی ادارے انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کی کارروائی تیز کریں۔

اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کی اور پلوامہ حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے بھارتی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہےکہ پاکستان کسی بھی طور پلوامہ حملے کے واقعے میں ملوث نہیں، پلوامہ حملہ بھارت کے اندر مقامی سطح پر پلان ہوا اور کرایا گیا۔

کمیٹی نے مزید کہا کہ پاکستان نے مخلصانہ طور پر بھارت کو واقعے کی تحقیقات میں مدد کی پیش کش کی جب کہ پاکستان نے دہشت گردی سمیت دیگر متنازع امور پر مذاکرات کی بھی پیش کش کی ہے، امید ہے بھارت پاکستان کی جانب سے تحقیقات کے حوالے سے پیش کش کا مثبت جواب دے گا۔

کمیٹی کا کہنا تھاکہ بھارت کو سوچنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں تشدد کی کارروائیوں سے یہ ردعمل آرہا ہے۔

اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے عزم کیا ہےکہ پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے میں کوئی ملوث پایاگیا تو سخت ترین ایکشن لیں گے۔
وزیراعظم نے فوج کو بھارت کی کسی بھی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دینے کا اختیار دیدیا
 

جاسم محمد

محفلین
بلآخر قائد عمران خان کی عظیم قیادت میں ملک بدل چکا ہے۔ آئندہ سے فوج کسی بیرونی طاقت سے ڈکٹیٹشن لے کر یا سول حکومت سے بغاوت کر کے کوئی کاروائی نہیں کرے گی۔ جو بھی اہم فیصلے ہوں گے وہ کابینہ اور فوج مل کر کرے گی
 

وجی

لائبریرین
وزیراعظم نے فوج کو بھارت کی کسی بھی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دینے کا اختیار دیدیا

آصف علی بھٹی

197264_8842430_updates.jpg

وزیراعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس: فائل فوٹو

اسلام آباد: وزیراعظم نے پاک فوج کو بھارت کی کسی مہم جوئی یا جارحیت کا فیصلہ کن جواب دینے کا اختیار دے دیا۔

ا

:laughing::laughing::laughing::laughing::laughing::laughing::laughing::laughing::laughing::laughing:
 
وزیراعظم نے فوج کو بھارت کی کسی بھی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دینے کا اختیار دیدیا

آصف علی بھٹی

197264_8842430_updates.jpg

وزیراعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس: فائل فوٹو

اسلام آباد: وزیراعظم نے پاک فوج کو بھارت کی کسی مہم جوئی یا جارحیت کا فیصلہ کن جواب دینے کا اختیار دے دیا۔

وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وزیراعظم ہاؤس میں قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا جو 3 گھنٹے سے زائد جاری رہا، اجلاس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان، حساس اداروں کے سربراہان اور سیکیورٹی حکام سمیت خزانہ، دفاع، خارجہ کے وفاقی وزرا اور وزیر مملکت برائے داخلہ بھی شریک ہوئے۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی اندرونی و سرحدی سیکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

اس کے علاوہ کمیٹی کو خارجہ حکام کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں زیر سماعت بھارتی جاسوس کلبھوشن کے کیس پر بریفنگ دی گئی۔

حکام نے پاکستان کی افغان مصالحتی امن عمل کی کوششوں پر بھی بریفنگ دی جب کہ اس دوران افغان امن عمل اور پاکستان کی کوششوں کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس کا اعلامیہ

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق اجلاس میں اہم فیصلے کیے گئے۔

اعلامیے کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے پاک فوج کو بھارت کی کسی مہم جوئی یا جارحیت کا فیصلہ کن جواب دینے کا اختیار دیتے ہوئے ہدایت کی کہ کسی بھی بھارتی جارحیت کا پوری طاقت سے بھرپور جواب دیا جائے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کی ریاست کو انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دیں گے، وزارتِ داخلہ اور سیکیورٹی ادارے انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کی کارروائی تیز کریں۔

اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کی اور پلوامہ حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے بھارتی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہےکہ پاکستان کسی بھی طور پلوامہ حملے کے واقعے میں ملوث نہیں، پلوامہ حملہ بھارت کے اندر مقامی سطح پر پلان ہوا اور کرایا گیا۔

کمیٹی نے مزید کہا کہ پاکستان نے مخلصانہ طور پر بھارت کو واقعے کی تحقیقات میں مدد کی پیش کش کی جب کہ پاکستان نے دہشت گردی سمیت دیگر متنازع امور پر مذاکرات کی بھی پیش کش کی ہے، امید ہے بھارت پاکستان کی جانب سے تحقیقات کے حوالے سے پیش کش کا مثبت جواب دے گا۔

کمیٹی کا کہنا تھاکہ بھارت کو سوچنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں تشدد کی کارروائیوں سے یہ ردعمل آرہا ہے۔

اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے عزم کیا ہےکہ پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے میں کوئی ملوث پایاگیا تو سخت ترین ایکشن لیں گے۔
وزیراعظم نے فوج کو بھارت کی کسی بھی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دینے کا اختیار دیدیا
یا تو اس سے پہلے ہوئی تمام جنگوں میں وزیراعظم خود بندوقیں توپیں لیکر میدان جنگ میں جاتے تھے یا پھر ہر نکلنے والی گولی سے پہلے وزیراعظم ذاتی حیثیت میں اختیار دیتے تھے؟
 

جاسم محمد

محفلین
یا تو اس سے پہلے ہوئی تمام جنگوں میں وزیراعظم خود بندوقیں توپیں لیکر میدان جنگ میں جاتے تھے یا پھر ہر نکلنے والی گولی سے پہلے وزیراعظم ذاتی حیثیت میں اختیار دیتے تھے؟
فوج پاکستان کا سب سے زیادہ با اختیار اور طاقتور ادارہ ہے۔ سلیکٹڈ وزیر اعظم کی کیا مجال جو وہ ان پر حکم چلائے۔ ہاں اگر پارٹنرشپ چل رہی ہے تو پھر سب اچھا ہے۔
 

رباب واسطی

محفلین
ویسے ایک بات ماننی پڑے گی کہ
انڈیا کے سیاستدان اور الیکٹرانک میڈیا بشمول (جزوی طور پر) سوشل میڈیا بھی یک زبان ہو کر “جھوٹ“ بولتے ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے ایک بات ماننی پڑے گی کہ
انڈیا کے سیاستدان اور الیکٹرانک میڈیا بشمول (جزوی طور پر) سوشل میڈیا بھی یک زبان ہو کر “جھوٹ“ بولتے ہیں
سوشل میڈیا پر صورت حال مختلف ہے۔ البتہ سیاست دان، افواج اور الیکٹرانک میڈیا کی حد تک بات درست ہے
 
Top