وزیراعظم نے ملک سے برطانوی نظامِ تعلیم ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا

فرقان احمد

محفلین
عمران خان صاحب کے ہر طرح کے ارادے نیک ہیں تاہم محترم کے اس اعلان کو فی الوقت ہم ٹرک کی ایک اور بتی سے زیادہ اہمیت نہیں دے سکتے ہیں۔ویسے، نظامِ تعلیم ایک ہونا چاہیے اور ایسے قومی نصاب کی تشکیل، جس پر مدرسوں کو ایک طرف رکھ کر، تمام اسکول اپنا لیں، ایسا مشکل کام نہ ہے۔ البتہ، اس حوالے سے اساتذہ کی تربیت کا خصوصی اہتمام بھی کیا جائے۔ محض نصاب کی تشکیل سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ یقینی طور پر، نصاب کی تشکیل، اس کا نفاذ اور ٹیچرز کی ٹریننگ وغیرہ کے لیے خطیر بجٹ درکار ہوتا ہے، اور ہماری معاشی حالت سب کے سامنے ہے۔اس لیے ہمیں قریب قریب یقینِ کامل ہے کہ یہ بیان محض ایک نعرہ ہی ہے۔ خان صاحب کسی اسکول یا کالج گئے ہوں گے اور ایسا کوئی بیان داغ آئے ہوں گے یعنی کہ جہاں بھی گئے، ٹرک کی ایک آدھ بتی چھوڑ آئے۔
 

عثمان

محفلین
ویسے، نظامِ تعلیم ایک ہونا چاہیے اور ایسے قومی نصاب کی تشکیل، جس پر مدرسوں کو ایک طرف رکھ کر، تمام اسکول اپنا لیں، ایسا مشکل کام نہ ہے۔
جو چھوٹ آپ نے مدارس کو دی ہے وہی بخشش آپ برطانوی/مغربی نظام تعلیم والوں کو بھی تو دے سکتے ہیں۔ کیا آئی بی یا اے لیول والوں نے بتایا کہ انہیں نصاب کے سلسلے میں مسائل درپیش ہیں اور مدد کا تقاضا ہے؟ جو مسئلہ جن لوگوں کو درپیش ہی نہیں انہیں زبردستی اس کا حل کیوں تھمایا جا رہا ہے؟
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
کیا یہاں موجود باقی افراد بھی اس تعریف سے اتفاق کرتے ہیں؟
براہ مہربانی اس موضوع پر اپنی آراء پیش کریں تاکہ محض ایک کلیشے جملے سے آگے گفتگو بڑھ سکے۔
کچھ دنوں پہلے ایک دھاگے میں ایک لنک لگایا تھا جس میں ایک معتبر اور معروف ادارے کا پاکستان کے اساتذہ اور طالبات کے توسط سے ایک سروے تھا کہ لڑکیاں تعلیم میں کیوں پیچھے ہیں؟
اس رپورٹ کے مطابق زبان اور نصاب تعلیم حصول تعلیم کے راستے میں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہیں۔ اس مسئلہ کی بنیاد نجی، معاشرتی اور سرکاری وسائل کی کمی ہے۔

یہاں اصل اعتراض تعلیم کی بجائے طبقاتی تقسیم ہے۔ ایک فکر کے نزدیک مغربی طبقہ/ مغرب ان پر حاوی ہے اور اس کی تمام جزویات کو اپنے معاشرے سے مٹانا مقصود ہے کہ اس طرح معاشرہ اور مسائل سدھر جائیں گے۔ مغربی نظام، مغربی تعلیم، مغربی زبان، مغربی لباس، یا مغربی رسوم و رواج ۔۔۔ ان پر ہونے والے تنقید ایک ہی سلسلے کی کڑی ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
مغربی طبقہ؟ سمجھ نہیں آئی۔ جو حاوی ہیں، ہیں تو وہ بھی مقامی۔ سوچ کے لحاظ سے بھی ان میں کئی طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں، لازم نہیں کہ سب مغرب سے متاثر ہی ہوں۔
 

فرقان احمد

محفلین
جو چھوٹ آپ نے مدارس کو دی ہے وہی بخشش آپ برطانوی/مغربی نظام تعلیم والوں کو بھی تو دے سکتے ہیں۔ کیا آئی بی یا اے لیول والوں نے بتایا کہ انہیں نصاب کے سلسلے میں مسائل درپیش ہیں اور مدد کا تقاضا ہے؟ جو مسئلہ جن لوگوں کو درپیش ہی نہیں انہیں زبردستی اس کا حل کیوں تھمایا جا رہا ہے؟
بہتر ہو گا کہ برطانوی اور مغربی نظام تعلیم سے ہی استفادہ کر لیا جائے۔ ہم یوں بھی جو نصاب ترتیب دیتے ہیں، اس سے کیا حاصل وصول ہوتا ہے؟
 
موجودہ تعلیمی نظام انتہائی فرسودہ قسم کے نظریات کو فروغ دیتا ہے۔ اور توقع کرتا ہےکہ لوگ خود ہی درست ہوجائیں گے۔ مثلاً عورتوں کی ثانوی حیثیت، ضرورت سے زیادہ پردہ، عورتوں کی آزادانہ تعلیم حاصل کرنے پر، ملازمت کرنے پر اور کاروبار کرنے پر پابندی۔ ٹیکس کی مقدار ڈھائی فی صد، مردوں کی برتری، اسی طرح یہ نظام تعلیم یہ شعور نہیں دیتا کہ بزرگوں کی صحت اور سوشل سیکیورٹی اور بچوں کی صحت ، قوم بنانے کے لئے ضروری ہیں۔ یہ سب تو بہت ہی دور کی بات ہے، اس نظام تعلیم سے نکلے ہوئے لوگ، کہیں بھی ایک قطار بنائے نظر نہیں آتے۔

کیوں؟
 

ابن جمال

محفلین
عمران خان صاحب کے ہر طرح کے ارادے نیک ہیں تاہم محترم کے اس اعلان کو فی الوقت ہم ٹرک کی ایک اور بتی سے زیادہ اہمیت نہیں دے سکتے ہیں۔ویسے، نظامِ تعلیم ایک ہونا چاہیے اور ایسے قومی نصاب کی تشکیل، جس پر مدرسوں کو ایک طرف رکھ کر، تمام اسکول اپنا لیں، ایسا مشکل کام نہ ہے۔ البتہ، اس حوالے سے اساتذہ کی تربیت کا خصوصی اہتمام بھی کیا جائے۔ محض نصاب کی تشکیل سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ یقینی طور پر، نصاب کی تشکیل، اس کا نفاذ اور ٹیچرز کی ٹریننگ وغیرہ کے لیے خطیر بجٹ درکار ہوتا ہے، اور ہماری معاشی حالت سب کے سامنے ہے۔اس لیے ہمیں قریب قریب یقینِ کامل ہے کہ یہ بیان محض ایک نعرہ ہی ہے۔ خان صاحب کسی اسکول یا کالج گئے ہوں گے اور ایسا کوئی بیان داغ آئے ہوں گے یعنی کہ جہاں بھی گئے، ٹرک کی ایک آدھ بتی چھوڑ آئے۔
اس بات سے بھرپور اتفاق ہے کہ اسٹیج کی مناسبت سے خان صاحب کی یہ تقریر ہے، لیکن سوال خان صاحب کی تقریر کا اوراس پر عمل پیراہونے یانہ ہونے کا نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ ایک ملک میں کیا کئی اسکولی نظام تعلیم ہونا اچھی بات ہے؟ خود یہاں ہندوستان میں سرکاری طورپر تین قسم کے نظام تعلیم رائج ہیں، ایک ریاستی اسکولوں کا نظام تعلیم ہے، ایک سی بی ایس ای ہے اورایک آئی سی ایس ای ہے، اس کے علاوہ پرائیویٹ اسکول کسی باہر کے کالج اوریونیورسٹی وغیرہ سے بھی لنک رہتے ہیں،یکساں نظام تعلیم کیوں ہوناچاہئے۔
کیوں پورے اسکولی نظام کیلئے یکساں نصاب نہیں بنایاجاسکتاہے، جس میں پرائیویٹ اسکول اورسرکاری اسکول اسی نصاب کی پابندی کریں، کیوں ایساہے کہ ایک جانب انگلش میڈیم دوسری جانب اردو میڈیم اور تیسری جانب اورکچھ ہوتاہے، کم ازکم دس کلاس تک تو یکساں نصاب ہو، دنیا کے تمام ماہرین تعلیم مانتے ہیں کہ بچے کی سب سے بہتر تعلیم مادری زبان میں ہی ممکن ہے اوریہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام ترقی یافتہ قومیں اورممالک وہی ہیں،جنہوں نے ابتدائی تعلیم کا اپنی قومی اوربچوں کی مادری زبان میں نظم کیاہے،ہم برصغیر کے لوگ ہی عقل کے اندھے ہیں کہ بچے کیلئے ابتدا سے انگلش میڈیم اسکول کی چاہ میں خوار ہوتے پھرتے ہیں اورکمال یہ ہے کہ اس کے باوجود اس کو ہم مغرب کی ذہنی غلامی نہیں سمجھتے؟
سچ کہاجس نے کہا کہ زیاں سے زیادہ زیاں احساس زیاں کےفناہوجانے میں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کم ازکم دس کلاس تک تو یکساں نصاب ہو، دنیا کے تمام ماہرین تعلیم مانتے ہیں کہ بچے کی سب سے بہتر تعلیم مادری زبان میں ہی ممکن ہے اوریہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام ترقی یافتہ قومیں اورممالک وہی ہیں،جنہوں نے ابتدائی تعلیم کا اپنی قومی اوربچوں کی مادری زبان میں نظم کیاہے،ہم برصغیر کے لوگ ہی عقل کے اندھے ہیں کہ بچے کیلئے ابتدا سے انگلش میڈیم اسکول کی چاہ میں خوار ہوتے پھرتے ہیں اورکمال یہ ہے کہ اس کے باوجود اس کو ہم مغرب کی ذہنی غلامی نہیں سمجھتے؟
بالکل صحیح کہا۔ ملک کے تمام شہریوں کو ایک قوم بنانے کیلئے یہ لازمی ہے کہ کم از کم تعلیم کے پہلے دس سال یکساں اور قومی تعلیمی نصاب رائج ہو۔
 

محمد سعد

محفلین
دنیا کے تمام ماہرین تعلیم مانتے ہیں کہ بچے کی سب سے بہتر تعلیم مادری زبان میں ہی ممکن ہے اوریہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام ترقی یافتہ قومیں اورممالک وہی ہیں،جنہوں نے ابتدائی تعلیم کا اپنی قومی اوربچوں کی مادری زبان میں نظم کیاہے،ہم برصغیر کے لوگ ہی عقل کے اندھے ہیں کہ بچے کیلئے ابتدا سے انگلش میڈیم اسکول کی چاہ میں خوار ہوتے پھرتے ہیں اورکمال یہ ہے کہ اس کے باوجود اس کو ہم مغرب کی ذہنی غلامی نہیں سمجھتے؟
مجھے یاد ہے کہ چھوٹی عمر میں اپنے بڑے کزنوں کی اردو میڈیم سائنسی کتب سے خوب استفادہ کرتا تھا۔ مقامی زبان استعمال کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ آپ بنیادی تصورات سکھانے کے لیے کسی کی زندگی کے کئی سال بچا سکتے ہیں۔ نیز اگر اس وقت معیاری اردو کتابیں لکھنا ممکن تھا تو آج کے وسائل کے ساتھ اور بھی زیادہ آسان ہونا چاہیے۔
نصاب کو اگر یوں تشکیل دیا جائے کہ کسی طرح سے طلباء ساتھ ساتھ انگریزی تکنیکی اصطلاحات بھی سیکھتے رہیں تو بعد میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگریزی کی جانب منتقلی کی مشکلات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
اس میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے کہ ہم برطانوی سکولوں کے نصاب میں جو خوبیاں پائیں، ان کو اپنے مقامی سکولوں کے نصاب کا حصہ بنا دیں۔ اگر دنیا کے کسی حصے میں کسی نے تجربے سے کوئی اچھی بات سیکھی ہے تو اس سے استفادہ لازمی کرنا چاہیے۔
جب ہم وسائل رکھنے والے طبقے کو کھینچ کر نیچے لانے کے بجائے کمزور طبقے کو اٹھا کر اس کے برابر پہنچائیں گے، تب ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم کمزوروں کے لیے مواقع پیدا کر رہے ہیں۔ ورنہ باقی سب ڈرامے بازی ہے۔
 
نیچرل جیو گرافک ایکسٹٰنشنز پہلے بہت قریب قریب واقع ہوتے تھے، آج انٹرنیٹ کی بدولت ، دنیا سمٹتی جارہی ہے۔ اندھے کنوئیں میں جھوٹ کی ناؤ کسی بھی شعاع سے تیز چلتی ہے، لیکن باہر کی یہ روشن دنیا، آپ کو سچ پہنچا کر اور سچ بلوا ہی دم لیتی ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ جدید تعلیم ہر اسکول مدرسے میں بہم پہنچائی جائے کہ کوئی بھی اس وجہ سے پیچھے نا رہ جائے کہ تعلیم اس تک نہیں پہنچی، علم ہی سب سے بڑا اوزار اور سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
 

بافقیہ

محفلین
اس طرح کے کیسز یہاں بھی دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔ میرے پاس ٹیوشن پڑھنے آنے والے بچوں میں ایک چار سال کی بچی کے ساتھ اس کی فیمیل ٹیوشن ٹیچر نے انتہائی نازیبا حرکتیں کی تھیں۔ والدہ کو ایسے پتا چلا کہ بچی نے وہی حرکتیں آکر گھر پر کیں۔ جب والدہ نے بچی سے پوچھنا شروع کیا تو انتہائی ہولناک کہانی سامنے آئی۔ اس نے بچی کی نازیبا تصاویر تک بنا کر رکھی تھیں۔ والدہ ایک دن بات کرنے اس سے گئیں اور اس کے ہاتھ سے فون چھین لیا۔ بچی کی تصاویر موجود تھیں۔

اس کے علاوہ کتنے ہی والدین ہمیشہ آکر مجھ سے صرف اس لئے پڑھانے پر اصرار کرتے تھے کہ ان کو بچے میرے یہاں بھیجتے ہوئے ڈر محسوس نہیں ہوتا تھا۔ زیادہ تر فیمیل ٹیچرز کی الٹی سیدھی حرکتوں کی کہانیاں سناتے تھے۔

اب میں نے جو بیس پچیس بچوں کو آج تک ٹیوشن پڑھائی ہے تو اس میں سے زیادہ تر والدین نے ہولناک کہانیاں سنائیں۔ اب کیا یہ ٹھیک ہوگا کہ میں ایک نتیجہ اخذ کروں کہ "کم پڑھی لکھی سیدھی سادی گھریلو خواتین" بچوں کا استحصال کرتی ہیں۔ یہ ایک sweeping statement ہوگا۔ بلاشبہ برائی ہے لیکن سب خواتین کو ایک لائن میں کھڑا کرنا کسی صورت درست نہیں ہوگا۔
ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ایکسٹرا ٹیوشن کلاسس ہی نقصان دہ ہیں۔ بچے بھی اپنے والدین کی توجہ سے دور ہوجاتے ہیں۔ اور والدین کو معلوم بھی نہیں ہوپاتا کہ بچہ کس ڈگر جارہا ہے اور تعلیمی اعتبار سے کس مضمون میں کمزور ہے !
مجھے اپنے مختصر تجربات کی روشنی میں ایسا لگتا ہے کہ آج کل والدین کی غلط عادات نے ٹیوشن کو رواج دیا ہے۔ جیسے ٹی وی سیریل اور فلموں کا جنون یا موبائل میں دن بھر سوشل میڈیا کا طواف۔ انھیں ایسا لگتا ہے کہ کچھ دیر کیلئے سکون سے ہم کچھ کرسکیں ۔ اور بچوں کو کہیں نہ کہیں ٹیوشن کلاس ، یا پڑوس کے گھروں میں بھیج دیتے ہیں۔
یہ بہت کم ہوتا ہے کہ والدین خود توجہ نہ دے سکتے ہوں۔ ہاں یہ اور بات کہ ہر والدین کی تعلیمی لیاقت اس قدر نہیں ہوتی۔ لیکن ہم نے ایسے والدین کو اپنے آبزرویشن میں رکھ کر مکمل تعلیم دیتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
 
ٹیوشن سینٹرز صرف اس لئے ایجاد ہوئے تھے کہ مجھ جیسے گنوار، جن کی تعلیم دائرہ شرمندگی کے اندر اندر واقع ہوتی ہے، ان ٹیوشن سینٹرز میں پڑھا کر رائج الوقت تنخواہ سے 5 گنا زیادہ کما سکیں :)

بالکل سچ
 

سین خے

محفلین
ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ایکسٹرا ٹیوشن کلاسس ہی نقصان دہ ہیں۔ بچے بھی اپنے والدین کی توجہ سے دور ہوجاتے ہیں۔ اور والدین کو معلوم بھی نہیں ہوپاتا کہ بچہ کس ڈگر جارہا ہے اور تعلیمی اعتبار سے کس مضمون میں کمزور ہے !
مجھے اپنے مختصر تجربات کی روشنی میں ایسا لگتا ہے کہ آج کل والدین کی غلط عادات نے ٹیوشن کو رواج دیا ہے۔ جیسے ٹی وی سیریل اور فلموں کا جنون یا موبائل میں دن بھر سوشل میڈیا کا طواف۔ انھیں ایسا لگتا ہے کہ کچھ دیر کیلئے سکون سے ہم کچھ کرسکیں ۔ اور بچوں کو کہیں نہ کہیں ٹیوشن کلاس ، یا پڑوس کے گھروں میں بھیج دیتے ہیں۔
یہ بہت کم ہوتا ہے کہ والدین خود توجہ نہ دے سکتے ہوں۔ ہاں یہ اور بات کہ ہر والدین کی تعلیمی لیاقت اس قدر نہیں ہوتی۔ لیکن ہم نے ایسے والدین کو اپنے آبزرویشن میں رکھ کر مکمل تعلیم دیتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔

متفق۔

تعلیمی لیاقت نہ ہو تو الگ بات ہے لیکن نرسری اور کنڈر گارٹن کے بچوں کا ٹیوشن پڑھنا تو واقعی سمجھ نہیں آتا ہے۔ میری خالہ نے تو رول بنایا ہوا ہے کہ اتنے چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا ہی نہیں ہے بلکہ اکثر والدین کو ڈانٹ کر روانہ کرتی ہیں کہ اس کی پڑھائی ہی کتنی ہے جو پڑھوانے کے لئے لا رہے ہیں۔

میرے والدین بھی ہمیں کسی کے گھر ٹیوشن پڑھنے کے لئے بھیجنے سے بہت گھبراتے تھے۔ سندھی میں بہت مشکل پیش آتی تھی لیکن میری والدہ دوسروں سے خود پڑھ لیتی تھیں اور پھر ہمیں پڑھا دیتی تھیں۔
 

بافقیہ

محفلین
ویسے ٹیوشن بھی بالعموم ذرائع روزگار ہوگئے ہیں۔ معدودے چند ہیں جن کو بچوں کی تعلیمی لیاقت کی فکر ہے۔ اگر کچھ فکر بھی ہے تو یہ کہ بس درجہ پاس کرلے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے صرف آدھی خبر دینا درست نہیں۔ خبر کا وہ حصہ جس سے آپ کو لگا کہ اسے لگانا آپ کے لیے "مناسب" نہیں ہوگا!
ملتا جلتا ایک اور واقعہ

سکول میں خاتون ٹیچر اور طالب علم کو رنگے ہاتھوں پکڑنا پرنسپل کو مہنگا پڑ گیا
نوجوان طالب علم نے لیڈی ٹیچر کے پیار میں مبتلا ہو کر پرنسپل کو قتل کر دیا،ٹیچر نے مجھے ملاقات کا لالچ دیا تھا جس پر میں پگھل گیا۔ ملزم کا بیان
1530270996_admin.jpg._1
مقدس فاروق اعوان جمعرات 7 نومبر 2019 16:38

pic_281bb_1573128394.jpg._3


لاہور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 07 نومبر 2019ء) : سکول میں چھٹی ہونے کے بعد نوجوان لڑکے اور سکول ٹیچر کے مابین کیا ہوتا تھا؟ رونگٹے کھڑے کر دینے والا واقعہ سامنے آ گیا۔تفصیلات کے مطابق ایک نوجوان طالب علم کا کہنا ہے کہ فائزہ نامی ٹیچر سکول میں نئی آئی تھی۔اس نے آہستہ آہستہ مجھے بلانا شروع کر دیا اور بعدازاں خط بھی بھیجنے شروع کر دئیے۔خطوط کے ذریعے وہ مجھے بتاتی تھی کہ وہ میرے ساتھ پیار میں مبتلا ہو گئی ہے۔ٹیچر کی پسندیدگی دییکھتے ہوئے میں نے بھی اس میں دلچسپی لینا شروع کر د ی۔ہمارے درمیان پیار محبت کا یہ سلسلہ ڈیڑھ ماہ تک چلتا رہا،بعدازاں یہ بات سکول کے سینئیر اساتذہ کو معلوم ہو گئی اور یوں بات پورے سکول میں پھیل گئی۔سکول سے چھٹی ہونے کے بعد ہم دونوں اکیلے بیٹھے تھے تو ایک خاتون ٹیچر نے دیکھ لیا اور معاملہ پرنسیپل تک پہنچ گیا۔

فائزہ کی پرنسپل سے بھی لڑائی ہوئی۔پرنسپل نے اس واقعے کے بعد ہم دونوں کو سکول سے نکال دیا۔رضوان نامی طالب علم نے کہا کہ ایک روز مجھے فائزہ کا فون آیا اور اس نے کہا کیا تم میری خاطر پرنسپل کو مار سکتے ہو؟۔لیکن میں نے پرنسپل کو قتل کرنے سے انکار کر دیا۔تاہم بعد میں پرنسپل کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا اور میں اس نیت سے پرنسپل کے گھر میں داخل ہوا اور ان پر چھریوں سے حملہ کر دیا۔ملزم کا کہنا ہے کہ میں نے قتل کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا تھا کہ میں پکڑا جاؤں گا۔لیکن واردات کے بعد جب میں بھاگنے لگا تو پاؤں پر چوٹ لگ گئی اور اس طرح پولیس نے مجھے گرفتار کر لیا۔ملزم کا کہنا ہے کہ مجھے ٹیچر نے رزلٹ والے دن ملاقات کا لالچ دیا تھا جس پر میرا دل پگھل گیا۔ملزم نے مزید کہاکہ ہمارے سکول میں ماحول بہت آزاد تھا۔ملزم نے کہا کہ پرنسپل کو قتل کرنے کا آئیڈیا بھارتی فلموں سے لیا۔ملزم کا مزید کہنا تھا کہ میں رہا ہونے کے بعد اُسی ٹیچر سے شادی کرنا چاہتا ہوں،جب کہ اس فائزہ نامی ٹیچر کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اس نے یہ قدم میرے لیے نہیں اٹھایا اگر ایسا کیا ہوتا تو وہ کبھی بھی میرا نام نہ لیتا۔مجھے نہ تو سکول سے نکالا گیا اور نہ ہی میرا یہاں پر کسی سے جھگڑا ہوا یہاں تک کہ میرا تو رضوان سے رابطہ بھی ختم ہو گیا تھا۔جب کہ لڑکی کا کہنا تھا کہ میں اس لڑکے سے کبھی بھی شادی نہیں کروں گی کیونکہ اس نے مجھے بدنام کیا۔اس واقعے کی مزید تفصیلات اس ویڈیو میں ملاحظہ کیجئے:
 
Top