فاروقی
معطل
ہمیں اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ امریکی میڈیا مسلمانوں کے خلاف بالعموم اور پاکستان کے خلاف بالخصوص بے بنیاد پراپیگنڈے میں مصروف رہتا ہے۔ یہ شکایت بے جا نہیں لیکن دیانتدار اور بے خوف قلم کار امریکا میں بھی موجود ہیں جو اپنے ہی ملک کے خفیہ اداروں کے انسانیت دشمن منصوبوں کو ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ رون سسکنڈ بھی ایک ایسا ہی بے خوف امریکی صحافی ہے جس نے اپنی نئی کتاب ”دی وے آف دی ورلڈ“ میں لکھا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے عراق پر حملے کا جواز پیدا کرنے کیلئے ایک تاریخی جعل سازی کی۔ سی آئی اے نے عراقی انٹیلی جنس کے ایک افسر طاہر جلیل کو خریدا اور اس کی طرف سے ایک جعلی خط تیار کیا گیا جس میں مرحوم عراقی صدر صدام حسین اور القاعدہ کے درمیان مبینہ روابط کا ذکر کیا گیا۔ اس جعلی خط کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے کے عوض سی آئی اے نے طاہر جلیل کو کئی لاکھ ڈالر ادا کئے۔ رون سسکنڈ کے اس انکشاف نے پوری سی آئی اے کو ہلا کر رکھ دیا۔ وائٹ ہاؤس نے ایک وضاحت بھی جاری کی لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ رون سسکنڈ نے اپنے ہی ملک کے خفیہ ادارے کو جھوٹا ثابت کر کے ملک دشمنی کا ارتکاب کیا۔ اسی کتاب میں رون سسکنڈ نے ایک اور انکشاف بھی کیا ہے۔
سسکنڈ نے اپنی کتاب کے صفحہ 245 پر افغانستان میں اقوام متحدہ کے سابق نمائندے ٹام کوئننگز کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک معمولی واقعے نے اسلامی شریعت کے متعلق ٹام کی سوچ کو بدل دیا۔ ہوا یوں کہ ٹام کے بنگالی ڈرائیور نے ایک دن کابل میں ایک افغان کو کار کے حادثے میں مار ڈالا۔ بنگالی ڈرائیور حادثے کے بعد مرنے والے کے ورثاء کے پاس چلا گیا اور ان سے کہا کہ وہ بھی مسلمان ہے اور مرنے والا بھی مسلمان تھا اس سے غلطی ہوگئی ہے کیا اسے معافی مل سکتی ہے؟ مرنے والے کے باپ نے کہا کہ تم نے جسے مار ڈالا وہ ہمارے خاندان کا واحد سہارا تھا وہ تو چلا گیا لیکن آج سے تم ہمارا سہارا بن جاؤ اور یوں بنگالی ڈرائیور کو معافی مل گئی۔
ٹام کو اس واقعے کا پتہ چلا تو اسے احساس ہوا کہ اسلامی قوانین مظلوم کو فوری انصاف مہیا کرتے ہیں لہٰذا اس جرمن سفارت کار نے اقوام متحدہ کو یہ سمجھانا شروع کیا کہ افغانستان کے لوگوں کو اسلامی قوانین کے صحیح نفاذ سے انصاف فراہم کرنا زیادہ آسان ہوگا۔ آگے چل کر رون سسکنڈ لکھتا ہے کہ ایک دن ٹام کوئنگز کو پاکستان کے قبائلی علاقوں کے عمائدین کا ایک وفد ملنے آیا۔ وفد کے ارکان نے ٹام سے کہا کہ کیا وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو افغانستان میں شامل کرانے کے لئے کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟ ٹام نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ان قبائلی عمائدین سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ سن کر ایک بزرگ بولا کہ وہ لکھ پڑھ نہیں سکتا اور اس کا پوتا بھی لکھ پڑھ نہیں سکتا لیکن اب قبائلی لکھنا پڑھنا سیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ بھی دنیا کے ساتھ چل سکیں لیکن ان کے علاقوں میں اسکول نہیں۔ رون سسکنڈ نے یہ نہیں لکھا کہ پاکستان کے قبائلی عمائدین کا وفد ٹام کوئننگز کے پاس کیسے اور کس کے ذریعے پہنچا لیکن یہ واقعہ اہل پاکستان کو بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ ٹام 2005 سے 2007 کے دوران افغانستان میں اقوام متحدہ کا خصوصی نمائندہ تھا۔ پاکستانی قبائلی عمائدین اسی عرصے میں اسے ملنے کابل گئے ہوں گے اور ظاہر ہے کہ افغان حکومت کی مرضی سے ملے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کابل میں ایسے پاکستانیوں کی پذیرائی کی جاتی ہے جو پاکستان سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں اگر یہ درست ہے تو پھر افغان حکومت پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ یقیناً افغان حکومت ایسی سرگرمیوں میں بھی مصروف ہے جن کا مقصد پاکستان کے قبائلی عوام کو اپنی حکومت سے بدظن کرنا ہے اور یہ سرگرمیاں امریکیوں کی ناک کے عین نیچے جاری ہیں۔ 2004ء میں قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کے بعد وہاں ملٹری آپریشن کی بجائے اسکول، اسپتال اور سڑکیں بنائی جاتیں تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔
ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ امریکی سی آئی اے عراق میں داخل ہونے کے لئے جھوٹے بہانے تراش سکتی ہے تو پاکستان میں داخل ہونے کے لئے بھی جھوٹے جواز گھڑ سکتی ہے۔ امریکی سی آئی اے صدام حسین کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو ہتھیار فراہم کر سکتی ہے تو قبائلی علاقوں میں پاکستان کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو بھی خفیہ طریقے سے ہتھیار اور ڈالر فراہم کر سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ سی آئی اے پاکستان کو توڑنا چاہتی ہو لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سی آئی اے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں انارکی کے نام پر پاکستان میں امریکی فوج کو داخل کرنا چاہتی ہے اور سی آئی اے کا آخری ہدف پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت سے محروم رکھنا سی آئی اے کا پرانا مقصد ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے سی آئی اے نے 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف مذہبی جماعتوں کو استعمال کیا اور 2008ء میں بھٹو کی پارٹی کو مذہبی عناصر سے لڑا کر اپنے مقصد کا حصول چاہتی ہے۔ یہ امر تسلی بخش ہے کہ اوپر اوپر سے امریکیوں کی ہاں میں ہاں ملانے والی نئی پاکستانی حکومت اندر سے امریکی عزائم کے بارے میں کافی خبردار نظر آتی ہے۔ یہ احساس مجھے گزشتہ دنوں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ایک افطار ڈنر میں غیررسمی گفتگو کے دوران ہوا۔
میں نے وزیراعظم سے پوچھا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں سرگرم عسکریت پسند ملتان، بہاولپور اور مظفر گڑھ کے آس پاس اپنی پناہ گاہیں بنا رہے ہیں؟ وزیراعظم نے تشویش بھرے انداز میں کہا کہ انہیں معلوم ہے۔ میں نے کہا کہ کل کو آپ پنجاب میں آپریشن کریں گے تو پرسوں وہ کراچی چلے جائیں گے پھر آپ کہاں کہاں آپریشن کریں گے اس لئے بہتر ہے کہ قبائلی ارکان پارلیمینٹ کے ساتھ مل بیٹھ کر امن کا راستہ بھی تلاش کریں۔ جو ہتھیار پھینک دے اسے معاف کر دیں جو ہتھیار نہیں پھینکتا اس کو ضرور پکڑیں۔ وزیراعظم نے جواب میں کہا کہ انہوں نے اس سلسلے میں خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر حمیداللہ جان آفریدی کو اعتماد میں لے لیا ہے اور بہت جلد کچھ امن تجاویز پر پارلیمینٹ میں بحث کی جائیگی۔ اس گفتگو کے دوران وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں انتشار پھیلانے کا اصل نشانہ ہمارا ایٹمی پروگرام ہے لیکن ہم اپنے ایٹمی پروگرام کی ہر قیمت پر حفاظت کریں گے۔ ایٹمی پروگرام کی حفاظت کیلئے امریکا کے ساتھ کھلی جنگ ضروری نہیں۔ ضروری بات یہ ہے کہ ہم خوف سے چھٹکارا پا لیں کیونکہ خوفزدہ قومیں اندر ہی اندر ریت کی دیواروں کی مانند گر جاتی ہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ بھی عجیب ہے۔ نہ خوف خدا رکھتا ہے نہ روز جزا سے ڈرتا ہے بس امریکی دھمکیوں سے دبکتا ہے۔ ہماری سلامتی اسی میں ہے کہ ہم پاکستان کوبچانے کے لئے متحد ہو جائیں اور امریکا سے ڈرنے کی بجائے صرف اور صرف اپنے ایک خدا سے ڈریں۔
سسکنڈ نے اپنی کتاب کے صفحہ 245 پر افغانستان میں اقوام متحدہ کے سابق نمائندے ٹام کوئننگز کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک معمولی واقعے نے اسلامی شریعت کے متعلق ٹام کی سوچ کو بدل دیا۔ ہوا یوں کہ ٹام کے بنگالی ڈرائیور نے ایک دن کابل میں ایک افغان کو کار کے حادثے میں مار ڈالا۔ بنگالی ڈرائیور حادثے کے بعد مرنے والے کے ورثاء کے پاس چلا گیا اور ان سے کہا کہ وہ بھی مسلمان ہے اور مرنے والا بھی مسلمان تھا اس سے غلطی ہوگئی ہے کیا اسے معافی مل سکتی ہے؟ مرنے والے کے باپ نے کہا کہ تم نے جسے مار ڈالا وہ ہمارے خاندان کا واحد سہارا تھا وہ تو چلا گیا لیکن آج سے تم ہمارا سہارا بن جاؤ اور یوں بنگالی ڈرائیور کو معافی مل گئی۔
ٹام کو اس واقعے کا پتہ چلا تو اسے احساس ہوا کہ اسلامی قوانین مظلوم کو فوری انصاف مہیا کرتے ہیں لہٰذا اس جرمن سفارت کار نے اقوام متحدہ کو یہ سمجھانا شروع کیا کہ افغانستان کے لوگوں کو اسلامی قوانین کے صحیح نفاذ سے انصاف فراہم کرنا زیادہ آسان ہوگا۔ آگے چل کر رون سسکنڈ لکھتا ہے کہ ایک دن ٹام کوئنگز کو پاکستان کے قبائلی علاقوں کے عمائدین کا ایک وفد ملنے آیا۔ وفد کے ارکان نے ٹام سے کہا کہ کیا وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو افغانستان میں شامل کرانے کے لئے کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟ ٹام نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ان قبائلی عمائدین سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ سن کر ایک بزرگ بولا کہ وہ لکھ پڑھ نہیں سکتا اور اس کا پوتا بھی لکھ پڑھ نہیں سکتا لیکن اب قبائلی لکھنا پڑھنا سیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ بھی دنیا کے ساتھ چل سکیں لیکن ان کے علاقوں میں اسکول نہیں۔ رون سسکنڈ نے یہ نہیں لکھا کہ پاکستان کے قبائلی عمائدین کا وفد ٹام کوئننگز کے پاس کیسے اور کس کے ذریعے پہنچا لیکن یہ واقعہ اہل پاکستان کو بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ ٹام 2005 سے 2007 کے دوران افغانستان میں اقوام متحدہ کا خصوصی نمائندہ تھا۔ پاکستانی قبائلی عمائدین اسی عرصے میں اسے ملنے کابل گئے ہوں گے اور ظاہر ہے کہ افغان حکومت کی مرضی سے ملے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کابل میں ایسے پاکستانیوں کی پذیرائی کی جاتی ہے جو پاکستان سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں اگر یہ درست ہے تو پھر افغان حکومت پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ یقیناً افغان حکومت ایسی سرگرمیوں میں بھی مصروف ہے جن کا مقصد پاکستان کے قبائلی عوام کو اپنی حکومت سے بدظن کرنا ہے اور یہ سرگرمیاں امریکیوں کی ناک کے عین نیچے جاری ہیں۔ 2004ء میں قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کے بعد وہاں ملٹری آپریشن کی بجائے اسکول، اسپتال اور سڑکیں بنائی جاتیں تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔
ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ امریکی سی آئی اے عراق میں داخل ہونے کے لئے جھوٹے بہانے تراش سکتی ہے تو پاکستان میں داخل ہونے کے لئے بھی جھوٹے جواز گھڑ سکتی ہے۔ امریکی سی آئی اے صدام حسین کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو ہتھیار فراہم کر سکتی ہے تو قبائلی علاقوں میں پاکستان کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو بھی خفیہ طریقے سے ہتھیار اور ڈالر فراہم کر سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ سی آئی اے پاکستان کو توڑنا چاہتی ہو لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سی آئی اے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں انارکی کے نام پر پاکستان میں امریکی فوج کو داخل کرنا چاہتی ہے اور سی آئی اے کا آخری ہدف پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت سے محروم رکھنا سی آئی اے کا پرانا مقصد ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے سی آئی اے نے 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف مذہبی جماعتوں کو استعمال کیا اور 2008ء میں بھٹو کی پارٹی کو مذہبی عناصر سے لڑا کر اپنے مقصد کا حصول چاہتی ہے۔ یہ امر تسلی بخش ہے کہ اوپر اوپر سے امریکیوں کی ہاں میں ہاں ملانے والی نئی پاکستانی حکومت اندر سے امریکی عزائم کے بارے میں کافی خبردار نظر آتی ہے۔ یہ احساس مجھے گزشتہ دنوں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ایک افطار ڈنر میں غیررسمی گفتگو کے دوران ہوا۔
میں نے وزیراعظم سے پوچھا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں سرگرم عسکریت پسند ملتان، بہاولپور اور مظفر گڑھ کے آس پاس اپنی پناہ گاہیں بنا رہے ہیں؟ وزیراعظم نے تشویش بھرے انداز میں کہا کہ انہیں معلوم ہے۔ میں نے کہا کہ کل کو آپ پنجاب میں آپریشن کریں گے تو پرسوں وہ کراچی چلے جائیں گے پھر آپ کہاں کہاں آپریشن کریں گے اس لئے بہتر ہے کہ قبائلی ارکان پارلیمینٹ کے ساتھ مل بیٹھ کر امن کا راستہ بھی تلاش کریں۔ جو ہتھیار پھینک دے اسے معاف کر دیں جو ہتھیار نہیں پھینکتا اس کو ضرور پکڑیں۔ وزیراعظم نے جواب میں کہا کہ انہوں نے اس سلسلے میں خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر حمیداللہ جان آفریدی کو اعتماد میں لے لیا ہے اور بہت جلد کچھ امن تجاویز پر پارلیمینٹ میں بحث کی جائیگی۔ اس گفتگو کے دوران وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں انتشار پھیلانے کا اصل نشانہ ہمارا ایٹمی پروگرام ہے لیکن ہم اپنے ایٹمی پروگرام کی ہر قیمت پر حفاظت کریں گے۔ ایٹمی پروگرام کی حفاظت کیلئے امریکا کے ساتھ کھلی جنگ ضروری نہیں۔ ضروری بات یہ ہے کہ ہم خوف سے چھٹکارا پا لیں کیونکہ خوفزدہ قومیں اندر ہی اندر ریت کی دیواروں کی مانند گر جاتی ہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ بھی عجیب ہے۔ نہ خوف خدا رکھتا ہے نہ روز جزا سے ڈرتا ہے بس امریکی دھمکیوں سے دبکتا ہے۔ ہماری سلامتی اسی میں ہے کہ ہم پاکستان کوبچانے کے لئے متحد ہو جائیں اور امریکا سے ڈرنے کی بجائے صرف اور صرف اپنے ایک خدا سے ڈریں۔