وزیر اعظم عمران خان ٹرمپ کی دعوت پر امریکا پہنچ گئے

فرقان احمد

محفلین
نہیں البتہ برصغیر کی قدیم روایت ہے کہ یہاں کے باشندے اپنے سے زیادہ طاقت ور کے سامنےیوں درباری بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
4603590776-849771ec44-b-1.jpg
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب کے والد صاحب کو اس تصویر میں سے نکال دیجیے۔ :) آپ پارٹی کے کیسے ترجمان ہیں، وہ نکال دیں گے آپ کو، وگرنہ؟ :)
 

جاسم محمد

محفلین
لفافہ پھینکو لفافہ۔ جب تک لفافہ نہیں ملے گا ہم صحافی ایسی تحریریں ہی لکھیں گے۔

نماز کے درمیان وضو
جاوید چوہدری منگل 23 جولائ 2019

الکیمسٹ دنیا کے بہترین ناولز میں شمار ہوتا ہے‘ یہ ناول برازیل کے مشہور مصنف پاؤلو کوہیلو (ٖPaulo Coelho)نے پرتگالی زبان میں لکھا تھا‘ یہ صرف دو ہفتے میں مکمل ہو ا‘ 1987ء میں لکھا گیا‘ 1988ء میں شایع ہوا‘ 1993ء میں انگریزی میں ترجمہ ہوا اور یہ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیسٹ سیلر بن گیا‘ یہ دنیا کے ان چند ناولز میں شامل ہے جن کے ترجمے تمام بڑی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔

الکیمسٹ اندلس کے ایک نوجوان گڈریے سنتیاگو کی کہانی ہے‘ یہ مراکش کے صحراؤں میں پھرتے پھرتے خواب دیکھتا ہے اور خواب کی تعبیر کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے‘ یہ خزانے کی کھوج میں ذلیل و خوار ہوتا ہوا اہرام مصر تک پہنچتا ہے اور پھر مایوس ہو کر واپس آ جاتا ہے‘ یہ ناول بنیادی طور پر اس روحانی نقطے پر لکھا گیا جس کے بارے میں صوفیاء کرام کہتے ہیں انسان کا اصل جوہر روح ہے۔

یہ انسان کا سب سے بڑا خزانہ ہے اور انسان کو اس خزانے کی موجودگی میں کوئی دوسرا خزانہ تلاش نہیں کرنا چاہیے‘ پاؤلو کوہیلو نے اپنے ناول کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا ’’ناول کا پلاٹ میری روح پر درج تھا‘ میں نے یہ پڑھا اور لکھ دیا‘‘ الکیمسٹ کے چند فقرے آنے والے دنوں میں محاورے بن گئے اور لوگ آج آپ کو یہ محاورے دہراتے نظر آتے ہیں مثلاً ناول کا مشہور ترین فقرہ یہ تھا ’’انسان جب کوئی چیز پانے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو پوری کائنات اس سازش میں اس کی شریک بن جاتی ہے‘ مثلاً بہادر بنو‘ رسک لو‘ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا‘ مثلاً محبت کی کوئی وجہ نہیں ہوتی اور مثلاً دنیا میں صرف ایک چیز خوابوں کو ناممکن بناتی ہے اور وہ چیز ہے ناکامی کا خوف‘ الکیمسٹ مسٹ ریڈ بی فور ڈیتھ (Must read before death) کتابوں میں شامل ہے اور میں یہ کتاب بیسیوں مرتبہ پڑھ چکا ہوں۔

پوری کتاب شاندار ہے لیکن کتاب کا ایک واقعہ مجھے ہر بار واہ واہ کہنے پر مجبور کر دیتا ہے‘ یہ واقعہ ایک لڑکے کی کہانی پر مشتمل ہے‘ لڑکاکسی شاندار قلعے میں پہنچتا ہے‘ قلعے کا مالک چمچ میں تیل ڈال کر لڑکے کے ہاتھ میں پکڑا دیتا ہے اور اسے کہتا ہے تم میرا سارا قلعہ دیکھو لیکن خبردار چمچ کا تیل نہیں گرنا چاہیے‘ لڑکا پورے قلعے کا چکر لگا کر واپس آتا ہے‘ قلعے کا مالک چمچ دیکھتا ہے‘ چمچ میں تیل موجود ہوتا ہے‘ وہ لڑکے سے پوچھتا ہے تم نے قلعے میں کیا دیکھا؟ لڑکا جواب دیتا ہے میری ساری توجہ چمچ پر تھی لہٰذا میں بدقسمتی سے قلعہ نہیں دیکھ سکا‘ قلعے کا مالک اسے قلعہ دیکھنے کے لیے دوبارہ بھیج دیتا ہے‘ لڑکا قلعہ دیکھ کر واپس آتا ہے تو اس کا چمچ خالی ہوتا ہے‘ قلعے کا مالک پھر اسے مشورہ دیتا ہے ’’باکمال انسان وہ ہوتا ہے جو قلعہ بھی دیکھ لے اور اس کے چمچ کا تیل بھی نہ گرے‘‘ ۔

صوفیاء کرام اس صورت حال کو ’’دنیا میں رہ کر دین کو قائم رکھنا‘‘ کہتے ہیں‘ دنیا میں ہمارا اصل کام روح (دین) کو سنبھال کر رکھنا ہوتا ہے اور روح چمچ کا تیل ہوتی ہے‘ ہم دنیا کی چکا چوند میں ایک لمحے کے لیے چوکے نہیں اور ہمارا چمچ خالی ہوا نہیں‘ دنیا میں رہنا ہمارا دوسرا کام ہوتا ہے یوں ہم دنیا کے تمام لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں‘ وہ دین دار لوگ جو چمچ کا تیل برقرار رکھنے کے لیے دنیا پر توجہ نہیں دیتے یا پھر وہ دنیا دار جو دنیا میں مگن ہو کر چمچ کے تیل سے محروم ہو جاتے ہیں‘ ان دونوں قسم کے لوگوں میں ایک تیسری قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں‘ صوفیاء ان لوگوں کو ’’باایمان دنیا دار‘‘ کہتے ہیں‘یہ متوازن لوگ کمال ہوتے ہیں‘ یہ رومی کے مرد مجاہد‘ ابن عربی کے مرد کامل اور علامہ اقبال کے مسلمان ہوتے ہیں۔

یہ سپر مین ہوتے ہیں‘ہم عام لوگ ہیں‘ ہم اقبال کے مسلمان‘ مرد کامل یا مرد مجاہد نہیں ہیں چناں چہ ہمیں دنیا میں قلعے یا تیل دونوں میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے‘ ہم دنیا میں رہ کر ذرا سے دین دار ہو جائیں یاپھر ہم دین دار بن کر تھوڑی سی دنیا کے ساتھ گزارہ کر لیں تو ہم کمال کر دیتے ہیں‘عمران خان اور الکیمسٹ میں کوئی چیز کامن نہیں لیکن میں اس کے باوجود عمران خان کو جب بھی الکیمسٹ کے پس منظر میں رکھ کر دیکھتا ہوں تو میں کنفیوز ہو جاتا ہوں‘مجھے محسوس ہوتا ہے یہ قلعے اور چمچ کے تیل میں فیصلہ نہیں کر پا رہے‘ مثلاً آپ امریکا میں ان کے دورے کو لے لیجیے‘ ہمارے وزیراعظم سادگی کی مثال بنتے بنتے قطر ایئرویز کے برینڈ ایمبیسیڈر بن گئے‘ یہ قطر ایئر ویز کی تاریخ کے پہلے غیر ملکی وزیراعظم ہیں جس نے اس ایئر لائن کے ذریعے سرکاری دورہ کیا‘ وزیراعظم کو سادگی کی مثال ضرور قائم کرنی چاہیے تھی لیکن یہ سادگی کی یہ مثال پی آئی اے کے ذریعے بھی قائم کر سکتے تھے۔

یہ درست ہے پی آئی اے نے امریکا کے لیے اپنی فلائیٹس بند کر دی ہیں لیکن پی آئی اے آج بھی ٹورنٹو جاتی ہے‘ وزیراعظم ٹورنٹو کی فلائیٹ پر بھی جا سکتے تھے‘ یہ امریکی حکومت سے ’’ون ٹائم‘‘ اجازت لے لیتے اور پی آئی اے وزیراعظم اور ان کے وفد کو واشنگٹن ڈراپ کر کے ٹورنٹو چلی جاتی اور یہ واپسی پر بھی انھیں لے کر اسلام آباد آ جاتی‘ وزیراعظم اپنے دورے کو اس فلائیٹ کے تحت ایڈجسٹ کر سکتے تھے‘ یہ صدر ٹرمپ سے ملاقات سے ایک آدھ دن پہلے چلے جاتے یا ایک آدھ دن بعد واپس آ جاتے‘ ہمارے وزیراعظم کو قطر ایئر ویز کا برینڈ ایمبیسیڈر بننے کی کیا ضرورت تھی؟ دوسرا آپ کو یہ سادگی امریکا کے دورے پر کیوں یاد آ ئی؟

وزیراعظم نے پچھلے دس ماہ میں 13غیر ملکی دورے فرمائے‘ یہ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘چین‘ملائیشیا‘ ترکی‘ قطر‘ایران اور کرغزستان تشریف لے گئے‘ وزیراعظم نے ان تمام دوروں کے دوران سرکاری جہاز استعمال کیا‘ آپ کو ان دوروں میں سادگی کیوں نہیں یاد آئی؟ سعودی عرب‘ یو اے ای‘ ملائیشیااور قطرمیں تو پی آئی اے بھی جاتی ہے‘ آپ پی آئی اے پر وہاں چلے جاتے‘ آپ وہاں سرکاری جہاز لے گئے اور جہاں آپ کو پوری عزت‘ شان و شوکت اور وقار کے ساتھ جانا چاہیے تھا آپ وہاں قطر ایئر ویز کے ذریعے پہنچ گئے اور پوری دنیا کے کیمروں نے ہمارے وزیراعظم کو اس ایئر لائن سے اترتے دکھایا‘ یہ کہاں کی عقل مندی ہے؟۔

ہم اب پروٹوکول کی طرف آتے ہیں‘ امریکی حکومت نے ہمارے وزیراعظم کو ایئرپورٹ پر جو ’’پروٹوکول‘‘ دیا وہ بھی پوری دنیا نے دیکھا‘ صدر ٹرمپ کا کوئی سیکریٹری یا اسسٹنٹ سیکریٹری تو دور کوئی انڈر سیکریٹری حتیٰ کہ کوئی کلرک بھی وزیراعظم کو ریسیو کرنے کے لیے نہیں آیا‘ کیا ہم یہ سلوک ڈیزرو کرتے ہیں؟ آپ نے امریکی حکومت سے ’’ڈیو پروٹوکول‘‘ کیوں نہیں لیا‘ یہ لوگ افریقہ کے عام سے ملکوں کے سربراہوں کو بھی ایئرپورٹ پر گارڈ آف آنر اور ریسیپشن دیتے ہیں جب کہ ہمارے وزیراعظم کو بس میں بٹھا کر لاؤنج تک پہنچا یا گیا‘ کیوں؟ ہمیں یہ بے عزتی کرانے کی کیا ضرورت تھی؟

وزیراعظم نے کل رات واشنگٹن کے کیپیٹل ون ارینا میں پاکستانیوں سے خطاب بھی کیا‘ ارینا میں بے شک ہزاروں پاکستانی جمع تھے اور یہ بلاشبہ کسی پاکستانی وزیراعظم کا بیرون ملک بڑا جلسہ تھا لیکن کیا آپ امریکا میں جلسہ کرنے گئے تھے اور اگر آپ نے جلسہ ہی کرنا تھا تو پھر پوری دنیا کے سامنے اپنے گندے کپڑے دھونے کی کیا ضرورت تھی چناں چہ میں کنفیوز ہوں امریکی دورے کا اصل مقصد کیا تھا؟ کیا ہم نے یہ دورہ وزیراعظم کی سادگی کی اعلیٰ مثال قائم کرنے کے لیے کیا؟کیا ہم دنیا کو یہ بتانے کے لیے امریکا گئے ہمارے وزیراعظم بس میں بھی بیٹھ سکتے ہیں اور یہ ایمبیسی کے ریسٹ ہاؤس میں بھی رہ سکتے ہیں؟کیا ہم نے یہ دورہ قطر ایئر ویز کی پروموشن کے لیے کیا یا پھر ہم پاکستانیوں سے خطاب کرنے اور انھیں یہ بتانے کے لیے واشنگٹن گئے تھے۔

میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا اور میں واپس جا کر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف سے اے سی اور ٹیلی ویژن کی سہولت واپس لے لوں گا یا پھر ہمارا مقصد کوئی اور تھا؟قوم کے لیے یہ مقصد اہم ہے‘ امریکا اور پاکستان کے تعلقات انتہائی نازک اسٹیج پر ہیں‘ امریکا ہم سے افغانستان میں ہماری اوقات سے زیادہ لچک مانگ رہا ہے‘ ہم اگر امریکا کے دباؤ میں آ کر یہ لچک دے دیتے ہیں تو ہم خطے میں مار کھا جائیں گے اور ہم اگر انکار کر دیتے ہیں تو امریکا ہمیں آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے ذریعے بلیک لسٹ اور دیوالیہ قرار دے دے گا‘ امریکا ہمیں ایران کے خلاف بھی استعمال کرنا چاہتا ہے‘ ہمیں پچھلے پانچ ماہ میں برادر اسلامی ملکوں سے جتنی امداد ملی اس کا واحد مقصد ایران تھا‘ ہم اگر امریکا کے دباؤ میں ایران کے خلاف استعمال ہو جاتے ہیں تو پھر افغانستان کے ساتھ ساتھ ہماری ایرانی سرحد بھی غیر محفوظ ہو جائے گی یوں ہمیں بھارت‘ افغانستان اور ایران تین محاذوں پر لڑنا پڑے گا اور یہ ہمارے لیے مشکل ہو گا۔

امریکا ہم سے بھارت کے لیے بھی رعایتیں لینا چاہتا ہے‘ یہ چاہتا ہے بھارت اگر پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیکس بھی کرے تو بھی ہم بھارت کو جواب نہ دیں‘ ہم ان کے جہاز نہ گرائیں اور یہ ہم سے پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کے نیٹ ورک بھی ختم کرانا چاہتا ہے‘ ہم اگر یہ مطالبہ بھی مان لیتے ہیں تو ان دونوں تنظیموں کے ناراض کارکن مستقبل میں پاکستان کے لیے طالبان ثابت ہوں گے لہٰذا ہمارے وزیراعظم کا اصل کام یہ چیلنجز ہیں لیکن یہ اگر امریکا میں سادگی کی مثال قائم کرتے کرتے اپنا چمچ خالی کر بیٹھتے ہیں توپھر ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟

ہم بس کیپیٹل ون ارینا میں دھرنے کے ترانے بجا کر واپس آ جائیں گے اور ملک کے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا چناں چہ فوکس کریں‘ آپ جتنی توجہ سادگی پر دے رہے ہیں‘ آپ اگر اس سے آدھی توجہ اپنے مقصد پر دے لیں تو ہمارے کسی وزیراعظم کو مستقبل میں نجی ایئر لائن پر امریکا نہ جانا پڑے لیکن اس کے لیے فوکس چاہیے‘ ایک آنکھ چمچ اور دوسری قلعے پر ہونی چاہیے جب کہ ہم نے دونوں آنکھیں سادگی پر لگا دی ہیں‘ ہم نماز کے درمیان پہنچ کر وضو یادکر رہے ہیں۔

ہمارا کیا بنے گا!ہم کب سمجھ دار ہوں گے؟۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان نے دورہ امریکہ پر اپنے ملک کے لفافوں کی بھی کلاس لی۔ جو عوام کو اپنی صحافت کا چورن بیچ کر گمراہ کرتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
سلیکٹڈ وزیر اعظم کی ٹرمپ کے مشیر خاص جیرڈ کرشنر سے ملاقات۔ بیک گراؤنڈ میں ملک کے اصل وزیر اعظم مسکراتے ہوئے۔
67205315_10156731889704527_5265565497566429184_n.jpg
 

آورکزئی

محفلین
جاسم بھائی اس جلسے میں قادیانیوں کا تناسب بتا سکتے ہیں۔۔۔؟؟

ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے سوالات اپ اپنے نیازی کی طرح صحیح طرح سکیپ کر جاتے ہیں۔۔ جیسا انہوں نے عافیہ صدیقی کا سکیپ کیا۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔ ویلڈن ڈئیر
 

جاسم محمد

محفلین
ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے سوالات اپ اپنے نیازی کی طرح صحیح طرح سکیپ کر جاتے ہیں۔۔ جیسا انہوں نے عافیہ صدیقی کا سکیپ کیا۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔ ویلڈن ڈئیر
سب کچھ ہی اُلٹ ہوا
ارشاد بھٹی
پہلے پروٹوکول کی بات کر لیں، امریکی دورے چار قسم کے، پہلا اسٹیٹ وزٹ، اس کی دعوت صرف ہیڈ آف اسٹیٹ مطلب سربراہ مملکت کو، اس میں ایئر پورٹ سے ایئر پورٹ تک مکمل پروٹوکول، 21توپوں کی سلامی اور بہت کچھ شامل، پاکستان کی 71سالہ تاریخ میں ایوب خان کو دو مرتبہ، جنرل ضیاء الحق کو ایک مرتبہ اسٹیٹ وزٹ کی دعوت دی گئی۔ دوسرا، آفیشل وزٹ، 19توپوں کی سلامی، ایئر پورٹ سے ایئر پورٹ پروٹوکول، پاکستانی تاریخ میں لیاقت علی خاں، حسین شہید سہروردی، محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو، پرویز مشرف کو آفیشل وزٹ کی دعوت دی گئی۔ تیسرا، آفیشل ورکنگ وزٹ، ایئر پورٹ پروٹوکول ضروری نہیں، امریکی صدر سے ملاقات، وفود کی سطح پر مذاکرات، کھانا، اب تک بھٹو صاحب، بینظیر بھٹو، ظفر اللہ جمالی، یوسف رضا گیلانی، آصف زرداری، شوکت عزیز، نواز شریف، صدر مشرف آفیشل ورکنگ وزٹ کر چکے۔ چوتھا، پرائیویٹ وزٹ، یہ ذاتی نوعیت کا دورہ، اس میںاعلیٰ حکام،امریکی صدر سے ملاقات بھی ممکن ہو جائے، وزیراعظم عباسی کا وہ پرائیویٹ وزٹ ہی تھا جس میں امریکی ایئر پورٹ پر انہیں کوٹ، بیلٹ، جوتے اتارنا پڑے، باقی گیلانی صاحب نے امریکہ جا کر کیا شکایتیں لگائیں، جمالی صاحب کیوں کلنٹن سے علیحدگی میں ملنا چاہتے تھے، نواز شریف کی بلیئر ہاؤس میں رہنے، اوباما کے ساتھ خاندانی تصویریں کھنچوانے جیسی ضدوں سمیت بہت کچھ، پھر کبھی سہی۔


عمران خان کا یہ آفیشل ورکنگ وزٹ تھا، اگر پاکستانی دفتر خارجہ محنت کر لیتا تو ایئر پورٹ پر دوسرے، تیسرے درجے کے عہدیدار لینے آجاتے، یہ نہیں ہوا، لہٰذا اپنے لوگوں نے ہی استقبال کیا، ویسے باتیں بنانا، کیڑے نکالنا تو بہت آسان لیکن کسی دن اپنے سربراہوں کے 42دورے نکال کر دیکھ لیجئے گا، کس کو ایئر پورٹ پر کون لینے، کون چھوڑنے آیا۔ اب آجائیں اس دورے پر، عمران خان وائٹ ہاؤس پہنچے، وہ ہوگیا جو وہم و گمان میں بھی نہ تھا، ایسا استقبال، ایسی گرم جوشی، یہ ٹرمپ آؤ بھگت، سب کچھ اس لئے زیادہ لگ رہا، اس کی توقع نہ تھی، پاکستان میں ہر ایرا غیرا جسے کٹھ پتلی، سلیکٹڈ، ناکام خان کہہ رہا تھا، اسے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر عظیم قیادت، پاکستان کا مقبول ترین وزیراعظم، طاقتور اور سخت جان رہنما کہہ رہا تھا، وزیراعظم عمران خان بھی وائٹ ہاؤس میں اچھا بولے، باقی چھوڑیں، کشمیر، کشمیریوں کی ایسی ترجمانی کہ حریت رہنما سید علی گیلانی کا یہ کہہ دینا ’’عمران خان پہلا لیڈر، جس نے نہتے کشمیریوں کیلئے آواز اٹھائی‘‘، وزیراعظم کی سادگی، بچت، شلوار، قمیص، واسکٹ اور کپتانی چپل پہن کر وائٹ ہاؤس جانا، یہ سب سونے پہ سہاگہ۔

ویسے وقت، حالات کتنی جلدی بدل جاتے ہیں، جو ٹرمپ کل ٹویٹ کر رہا تھا کہ ’’پاکستان کو 32ارب ڈالر امداد دی، جواباً دھوکے ملے‘‘، وہی ٹرمپ عمران خان سے کہہ رہا تھا، امداد کی بحالی ممکن، تجارت 12سے 20گنا بڑھائیں گے، جو ٹرمپ کل کہہ رہا تھا ’’پاکستان کو سبق سکھانے کا وقت آگیا‘‘، وہی ٹرمپ ’’تھینک یو مسٹر پرائم منسٹر‘‘ کا خط بھجوا کر عمران خان کو اپنے پاس بٹھا کر کہہ رہا تھا ’’نہ صرف بہتر تعلقات چاہتے ہیں بلکہ کشمیر پر ثالثی کرنے، پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے کیلئے بھی تیار ہیں‘‘، وہ ٹرمپ جسے پاکستان کا نام سنتے ہی اٹھارہواں گیئر لگ جاتا تھا، وہی ٹرمپ کہہ رہا تھا کہ اتنا پاکستان نے 18برسوں میں نہیں کیا، جتنا 6ماہ میں کر دیا۔

بلاشبہ ٹرمپ کو عمران خان کی ضرورت، 2020میں امریکی صدارتی الیکشن، ٹرمپ الیکشن مہم شروع کر چکا، ٹرمپ کا امریکیوں سے وعدہ، افغانستان میں ڈیڑھ ٹریلین ڈالر، 17سال، ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہو چکیں، بس بہت ہو گیا، میں افغانستان سے اپنی فوج واپس بلوا لوں گا مگر فاتح بن کر، پُرامن افغانستان کے بعد، صدر ٹرمپ اگر یہ کر گئے تو اگلا الیکشن جیتنا آسان، یہ پاکستان کی مدد کے بغیر ناممکن، ظاہر ہے اپنے مفادات کیلئے ٹرمپ مہربان، یہی وقت ہمیں اپنے مفادات پر فوکس کرنے کا کیونکہ آج کی دنیا کے سب رشتے مفادات پر۔

تبدیلی سرکار کے ساڑھے 11ماہ، داخلی محاذ مایوسی، خارجی محاذ، کرتار پور راہداری، یو اے ای تعلقات بحالی، قطر، سعودی عرب سے تعلقات میں بہتری، چین سے سی پیک معاہدوں پر نظر ثانی، دوست ممالک سے قرضہ، ادھار تیل، آئی ایم ایف پیکیج، پاک بھارت کشیدگی میں پاکستانی امن مؤقف کی پذیرائی، ابھینندن رہائی، دورۂ امریکہ، لاجواب کارکردگی، لیکن یاد رہے کرتار پور راہداری سے وائٹ ہاؤس تک جس طرح فوج نے حکومت کو ہر امتحان، مشکل گھڑی، نازک لمحوں میں ریسکیو کیا، جس طرح سول، ملٹری قیادت ایک پیج پر وہ بے مثال۔

چونکہ صدر ٹرمپ، وزیراعظم عمران خان سے کافی کچھ ملتا جلتا، جیسے دونوں غیر روایتی سیاستدان، دونوں پل میں تولہ پل میں ماشہ، دونوں انتھک، مضبوط قوت ارادی والے، دونوں نے اپنی دنیا خود بنائی، دونوں کی زندگیاں ناکامیوں، کامیابیوں سے بھری پڑیں، دونوں کی ذاتی زندگیوں میں شادیاں، علیحدگیاں، تعلقات، اسکینڈلز، دونوں کی پسند ناپسند بہت مضبوط، دونوں نے خود سے مضبوط لوگوں کو ہرایا، دونوں کے الیکشن الزامات کی زد میں، ٹرمپ پر روسی، عمران خان پر اسٹیبلشمنٹ کی مدد کا الزام، دونوں کی کامیابیوں میں میڈیا، سوشل میڈیا کا بہت کردار، دونوں اب میڈیا سے تنگ، دونوں سیاسی مخالفوں کا قبر تک پیچھا کرنے پر یقین رکھیں، دونوں ٹویٹر کے بادشاہ، دونوں اپنی کہی باتوں سے مکرنے میں ایک لمحہ نہ لگائیں، دونوں جب چاہیں جھوٹ بول جائیں، دونوں کی زبان کبھی بھی کہیں بھی چل پڑے، دونوں تاریخ ساز کہلانے، انقلاب لانے کے خواہاں، دونوں پر مقدمے بنے، دونوں نااہل ہوتے ہوتے بچے، لہٰذا دونوں کے تعلقات کی گاڑی چل پڑی تو پھر یہ رکنے والی نہیں۔

بھارت نے حسب معمول مقبوضہ کشمیر پر ٹرمپ ثالثی سے انکار کر دیا، پونے دو ارب انسان، یہ خطہ اتنا خوش نصیب کہاں لیکن بھارت میں جتنا غم و غصہ ٹرمپ پر اتارا جا رہا، ٹرمپ، عمران ملاقات پر جو واویلا، کہرام بھارت میں مچا ہوا، جو بے بسی، مایوسی وہاں، اس سے یہ یقین ہو جائے کہ ٹرمپ، عمران ملاقات کامیاب رہی، آخر میں، امریکی صدر کا یہ کہنا کہ ’’عمران خان کرپشن کے خلاف جنگ جیت جائیں گے، اگر چاہیں تو میں بھی مدد کر سکتا ہوں‘‘ ان جملوں نے تو اپنے ہاں صفِ ماتم بچھا دی، یہاں تو توقع یہ کی جا رہی تھی کہ اپوزیشن کیسوں کا ذکر آتے ہی ٹرمپ صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے، وہ گلوگیر لہجے میں عمران خان سے کہیں گے اگر مجھ سے کچھ لینا، امریکہ سے تعلقات رکھنے، تو ان معصوموں، بے گناہوں کو باعزت رہا کرو مگر بات وہی، اس بار وائٹ ہاؤس میں جو ہوا، توقعات کے اُلٹ ہی ہوا۔
 

جاسم محمد

محفلین
تحریر شئیر کی وہ بھی ارشاد بھٹی کی ۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہا
چلیں آپ اس مایوسی پھیلانے والے لفافے کو پڑھ کر خوش ہو لیں :)

ٹرمپ سے بھی زیادہ گریٹ لیڈر؟
25/07/2019 حامد میر



سپر پاور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ایک دوسرے کی تعریفوں میں زمین و آسمان ایک کر دیا۔ وائٹ ہاؤس میں عمران خان کو خوش آمدید کہنے کے بعد ٹرمپ نے پاکستان کے وزیراعظم کو ایک مقبول رہنما اور عظیم لیڈر قرار دیا۔ عمران خان بھی تعریف میں پیچھے نہ رہے اور انہوں نے فاکس نیوز کو انٹرویو میں کہا کہ ٹرمپ کے انداز گفتگو سے صرف وہ نہیں بلکہ اُن کا پورا وفد متاثر ہوا ہے۔ بعد ازاں ایک ٹویٹ میں عمران خان نے ٹرمپ کی میزبانی کو بہت شائستہ اور دلفریب بھی قرار دیا۔

دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کے بارے میں تو بہت اچھی اچھی باتیں کیں لیکن ان دونوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے فوری اچھے نتائج سامنے آتے دکھائی نہیں دے رہے۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ ہر کسی کے ساتھ دلفریب انداز میں پیش نہیں آتے، عمران خان کے ساتھ ان کے دلفریب انداز کے پیچھے یہ خواہش تھی کہ پاکستان اُن کے ملک کو افغانستان کی جنگ سے ایسے نکالے کہ امریکہ کی شکست دنیا کو فتح نظر آئے۔

یہ مشکل کام صرف ایک صورت میں ممکن ہے اور وہ یہ کہ افغان طالبان کی قیادت مذاکرات کی میز پر وہ تمام شرائط تسلیم کر لے جو امریکہ اور اُس کے اتحادی پچھلے اٹھارہ سال سے میدان جنگ میں نہیں منوا سکے۔ کیا عمران خان افغان طالبان کو امریکی مفادات کی پلیٹ میں رکھ کر ٹرمپ کو پیش کر سکیں گے؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کا ہر پہلو سے بے لاگ تجزیہ کرنا ہو گا۔

پاکستان کے نقطہ نظر سے وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ سے مسئلہ کشمیر ایک دفعہ پھر پوری دنیا کے سامنے بھرپور انداز میں اجاگر ہوا ہے۔ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا کریڈٹ اس صحافی کو جاتا ہے جس نے ٹرمپ سے کشمیر پر سوال کیا اور ٹرمپ نے جواب میں یہ دعویٰ کر دیا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انہیں مسئلہ کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی اور انہوں نے یہ درخواست قبول کر لی تھی۔ ٹرمپ کے ان ریمارکس کے بعد بھارت میں صف ماتم بچھ گئی اور بھارتی حکومت نے ٹرمپ کے اس دعوے کی تردید کر دی۔

باخبر سفارتی ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ جون 2019 میں ٹرمپ اور مودی کی دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ایک ملاقات جی ٹونٹی ممالک کے اوساکا اجلاس میں ہوئی اور دوسری ملاقات میں جاپان کے وزیراعظم بھی شامل تھے۔ ان ملاقاتوں میں مودی نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی رہائی کے لئے ٹرمپ کے کردار کا شکریہ ادا کیا اور ٹرمپ سے کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھی کردار ادا کریں۔ ٹرمپ نے فوری طور پر آمادگی ظاہر کر دی لیکن عمران خان کی موجودگی میں مودی کی خواہش کو دنیا کے سامنے لا کر ٹرمپ نے مودی کے لئے ایک بڑا مسئلہ کھڑا کر دیا اور بھارتی حکومت نے جھوٹ بولتے ہوئے ٹرمپ کے دعوے کی تردید کر دی۔ اچھا ہوا ٹرمپ کو مودی کی اصلیت کا پتا چل گیا۔ غالب امکان ہے کہ اس تردید کے باوجود مودی کی طرف سے ٹرمپ کے ذریعہ مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے کی کوشش جاری رہے گی۔

مودی مسئلہ کشمیر کا کیا حل نکالنا چاہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب بڑا سیدھا اور آسان ہے۔ مودی مسئلہ کشمیر کا ویسا ہی حل چاہتے ہیں جیسا ٹرمپ کو افغانستان میں درکار ہے۔ مودی چاہتے ہیں کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دینا چھوڑ دے اور ایک ”ڈپلومیٹک سرنڈر“ کو اپنی کامیابی قرار دے کر خوشی کے گیت گانا شروع کر دے۔ یہ وہی فارمولا ہے جس پر جنرل پرویز مشرف اور من موہن سنگھ نے اتفاق کیا تھا اور اس فارمولے کو حریت کانفرنس کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے کشمیریوں کے ساتھ غداری قرار دیا تھا۔

یاد رکھئے گا بھارت جب بھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرے گا تو ایک بہت سخت موقف اختیار کرنے کے بعد یہ لچک دکھائے گا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اسی کے پاس رہے گا اور پاکستان آزاد کشمیر پر اکتفا کرے۔ ٹرمپ کے دعوے پر بھارتی حکومت کی تردید بہت بڑا جھوٹ ہے کیونکہ امریکی و بھارتی حکام میں ان معاملات پر کافی بات چیت بھی ہو چکی ہے۔

وزیراعظم کے دورۂ امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا المیہ بھی ایک دفعہ پھر دنیا کے سامنے آیا ہے۔ ابتداء میں وزیراعظم عمران خان اس معاملے پر گفتگو سے احتراز کرتے رہے لیکن بعد میں جب ایک امریکی صحافی نے شکیل آفریدی کے متعلق سوال کیا تو عمران خان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ذکر کر دیا اور کہا کہ دونوں کے تبادلے پر بات ہو سکتی ہے۔ عمران خان نے یہ بھی کہا ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن آئی ایس آئی کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر ہوا تھا۔

اگر یہ درست ہے تو پھر ڈاکٹر شکیل آفریدی کا کیا قصور ہے؟ حالیہ دورۂ امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے متعلق کوئی باقاعدہ بات چیت نہیں ہوئی لیکن اگر عمران خان قوم کی اس بیٹی کو پاکستان واپس لے آئیں تو ان کی بہت سی خامیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرنا آسان ہو جائے گا۔ اس وقت ان کے لئے سب سے بڑا چیلنج افغان طالبان کو ستمبر 2019 سے پہلے سیز فائر پر آمادہ کرنا ہے۔ سیز فائر کا اعلان افغان طالبان کی اس مذاکراتی ٹیم کو کرنا ہے جس کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر ہیں۔

ملا برادر کو فروری 2010 میں امریکہ کے دباؤ پر پاکستان میں گرفتار کیا گیا اور اُن سے یہ پوچھا جاتا رہا کہ آپ اس وقت افغان صدر حامد کرزئی سے خفیہ مذاکرات کیوں کر رہے تھے؟ آٹھ سال کے بعد انہیں امریکہ کے کہنے پر پاکستان نے اکتوبر 2018 میں رہا کیا تو طالبان نے انہیں اپنے مذاکراتی وفد کا سربراہ بنا دیا۔ جس شخص کو پاکستان نے آٹھ سال تک اپنا قیدی بنائے رکھا اب پاکستان کے تمام ارباب اختیار اس سابقہ قیدی سے یہ منت سماجت کر رہے ہیں کہ آپ افغانستان میں سیز فائر کر دیں۔

یہ سیز فائر طالبان کی نہیں امریکہ کی ضرورت ہے۔ 2001 سے 2019 کے دوران افغانستان میں امریکہ کے ڈھائی ہزار فوجی مارے جا چکے ہیں جبکہ پرائیویٹ کمپنیوں کے توسط سے افغانستان میں آ کر مارے جانے والے امریکیوں کی تعداد چار ہزار کے قریب ہے۔ پچھلے 18 سال میں افغان سیکورٹی فورسز کا جانی نقصان 60 ہزار سے زائد ہے جبکہ طالبان کا نقصان 50 ہزار کے قریب ہے۔ امریکہ کو افغانستان کی جنگ میں سالانہ 45 ارب ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔

طالبان کو اس جنگ سے نکلنے کی کوئی جلدی نہیں کیونکہ انہیں اپنی فتح قریب نظر آ رہی ہے لیکن ٹرمپ نے عمران خان کو سامنے بٹھا کر پوری افغان قوم کو دھمکی دے ڈالی اور کہا کہ میں دس دن میں افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہوں لیکن ایسا کرنا نہیں چاہتا۔ ٹرمپ کی اس دھمکی پر افغان حکومت اور طالبان دونوں نے مذمتی بیانات جاری کر دیے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی اس دھمکی پر معذرت نہ کی تو پاکستان کے لئے افغان طالبان کو سیز فائر پر راضی کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔

ٹرمپ کی معذرت کے بغیر افغان طالبان کا سیز فائر ٹرمپ کی دھمکی کا نتیجہ قرار دیا جائے گا اور داعش اس کا فائدہ اٹھا کر افغان طالبان میں اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کرے گی لہٰذا عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران ٹرمپ کی دھمکی نے افغان مفاہمتی عمل کو نئی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ عمران خان کے دورہ امریکہ میں بار بار اُنہیں پاکستان میڈیا پر سنسر شپ کے متعلق سوالات کیے گئے۔ خان صاحب بار بار پاکستانی میڈیا کو آزاد قرار دیتے رہے حالانکہ اصل حقائق سب جانتے ہیں۔

میڈیا کے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے عمران خان کے لہجے میں وہ اعتماد نہیں تھا جو ہونا چاہیے تھا اور ایک موقع پر انہوں نے خود تسلیم کیا کہ میں میڈیا کے متعلق ٹرمپ جیسی باتیں کر رہا ہوں۔ ٹرمپ میڈیا پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن کسی ٹی وی چینل کو بند نہیں کرا سکتے۔ عمران خان ٹی وی چینل کو بند بھی کراتے ہیں اور مانتے بھی نہیں اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ ٹرمپ سے زیادہ گریٹ لیڈر ہیں۔
بشکریہ جنگ۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم نے دورہ امریکا کے دوران 10 کروڑ کی بچت کی
عثمان حنیف جمعرات 25 جولائ 2019
1756525-imrankhan-1564055416-320-640x480.jpg

عمران خان نے خصوصی طیارے میں سفر کرنے کی بجائے کمرشل پرواز کے ذریعے یہ دورہ کیا فوٹو:فائل


وزیراعظم عمران خان نے کفایت شعاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دورہ امریکا کے دوران قومی خزانے میں 10 کروڑ روپے کی بچت کی۔

وزیراعظم امریکا کا 3 روزہ دورہ مکمل کرکے کمرشل پرواز کے ذریعے گزشتہ شب وطن واپس پہنچے ہیں۔ انہوں نے دورے کے لیے پرائیوٹ طیارے کی بجائے عام کمرشل پرواز کو استعمال کیا اور واشنگٹن میں بھی مہنگی گاڑیاں بک کرانے کی بجائے میٹرو میں سفر کیا۔ اس سے پہلے پاکستان کے وزرائے اعظم بوئنگ 777 میں بیرون ملک دورے کرتے تھے جس میں سفر کرنے پر 40 سے 45 لاکھ روپے فی گھنٹہ اخراجات ہوتے تھے جب کہ دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔

پاکستان سے امریکا تک فضائی سفر 14 گھنٹے سے زیادہ کا ہے اور دونوں طرف کے سفر میں تقریبا 28 گھنٹے لگتے ہیں جس پر 11 کروڑ سے 12 کروڑ کے اخراجات آتے ہیں۔ لیکن عمران خان نے شاہانہ روایات توڑتے ہوئے ایک عام شہری کی طرح امریکا کا دورہ کیا اور قومی خزانے میں 10 کروڑ روپے سے زیادہ کی بچت کی جو یقینا ان کا قابل ستائش اقدام ہے۔
 
Top