کیسوں کی نوعیت میں زمین آسمان کا فرق ہے اور جو ان کے حفظِ مراتب کا خیال نہیں رکھتے اور ان کیسوں کو ایک جیسا ہی سمجھتے ہیں ان کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ ایک پر انتہائی ذاتی کردار اور اخلاقی گراوٹ کا الزام ہے کہ جوانی میں کوئی غیر اخلاقی کام کر دیا، اس پر تائب ہونے کی دعوت تو خدا بھی بار بار دیتا ہے اور معاف کرنے کا وعدہ بھی کرتا ہے اور بقول شخصے وہ تائب ہو بھی چکا یا کم از کم دکھاتا یہی ہے، وہ جانے اس کا خدا جانے۔ دوسرے پر حقوق العباد پر ڈاکہ ڈالنے اور عوام کے کروڑوں اربوں کھربوں دن دیہاڑے لوٹنے کا "الزام" ہے، اس کی بریت صرف دو رکعت نفل نماز سے ممکن نہیں ہے! ذرا سوچیئے!
بہت خوب وارث میاں
ہمیں بھی ی بات بہت بُری لگتی ہے۔کسی تائب ہوئے شخص پر ہر وقت اُسکے کردار کے حوالے سے کیچڑ اُچھالنا ۔چلیں اگر دیکھاتا بھی ہے تو۔مان لو ۔اتنے منافقین کو برداشت کیا۔زرداری صاحب کو کسی صحافی نے کہا پہلے آپ نے کچھ اور کہا تو فرمانے لگے میرا کہا نعوذ باللّہ حدیث تو ہے نہیں ہے جو بدل نہیں سکتی تو کسی نے کچھ نہ کہا۔اسقدر جامہ زیب آدمی شلوار قمیض کے علاوہ کیونکہ یہ قومی لباس ہے تو صرف وہی پہننا شروع کردے تو کسی کو نظر نہیں آتا ۔دوسرے سب سے زیادہ جو بات ہمیں پسند ہے اپنی بیوی کو کبھی ایک لفظ بھی نہیں کہتے سنا ۔ہمارے یہاں ایک عام آدمی بھی بیوی کو چھو ڑ دیتا ہے تو طرح طرح کے الزامات لگا کے ۔ مگر یہ ہمیشہ کہتے کہ میری غلطی تھی۔۔ہم بحث برائے بحث اور نفرت برائے نفرت کرتے ۔
عمران خان واحد لیڈر ہیں جو بڑے سے بڑے عالمی لیڈر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے حقوق لینا جانتے ہیں جب بھی عالمی راہنمائوں کے فورم پر وزیر اعظم عمران خان نے عالم اسلام کی بھر پورنمائندگی کی ہے۔جنرل اسمبلی میں حالیہ خطا ب اسکی تازہ ترین مثال ہے ۔ایسے پیغام ایک اسلام سے محبت کرنے والا دے سکتا ہے۔