جاسم محمد
محفلین
وزیر اعظم کی پاکستانی ڈرامہ نویسوں سے گفتگو، اندر کی باتیں
وزیر اعظم نے طلاق کے موضوع پر اتنی طویل گفتگو کیوں کی؟ کیا وزیر اعظم پاکستانی ڈرامہ نگاروں سے ارطغرل ٹائپ ڈرامے بنوانا چاہتے ہیں؟ نور الہدی شاہ میٹنگ میں کیوں شریک نہ ہوئیں؟ جانیے ان سوالات کے جواب۔۔
حسن کاظمی صحافی، کراچی
ہفتہ 20 جون 2020 8:30
(سوشل میڈیا)
پاکستان میں آج جب پورا ملک جسٹس قاضی فائز عیسٰی ریفرنس کے فیصلہ کا انتظار کررہا تھا تو اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں بیٹھے، ویڈیو لنک کے ذریعے کراچی اور لاہور میں ملک کے چند نامور ڈرامہ مصنفین سے ملاقات کررہے تھے۔
وزیر اعظم کے ساتھ وفاقی وزیرِ اطلاعات شبلی فراز اور معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹینینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ بھی موجود تھے۔
اس ملاقات میں نظامت کے مکمل فرائض معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹینینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے ہی انجام دیے۔
جن مصنفین کو مدعو کیا گیا تھا ان میں حسینہ معین، امجد اسلام امجد، افتخار عارف، فاروق قیصر، بی گُل، فصیح باری خان، ظفر معراج، زنجبیل عاصم شاہ، آمنہ مفتی، ساجی گُل ، صائمہ اکرام چوہدری اور جہانزیب قمر شامل تھے۔
ان میں سے افتخار عارف، فاروق قیصر اور ساجی گُل ویڈیو لنک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے۔
سرکاری پریس ریلیز کے علاوہ بات کی جائے تو اس میٹنگ میں لاہور سے شریک فصیح باری خان نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان اس وقت چائلڈ پورنو گرافی میں پہلے نمبر پر ہے اور پورا معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے طویل وقت پاکستان میں معاشرے کی اخلاقی پستی پر بات کی اور بقول وزیر اعظم پاکستان میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ مغربیت پسندی اور اخلاقی زوال ہے۔
فصیح باری خان نے بتایا کہ وزیر اعظم نے کہا کہ معاشرہ بگڑ رہا ہے اور ہماری نوجوان نسل کو ہماری تاریخ کے بارے میں معلومات حاصل نہیں ہیں اس لیے ڈرامہ نگاروں کی ذمےداری ہے کہ وہ نئی نسل کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی میں مدد کریں۔
ملاقات میں شریک افراد کے مطابق وزیر اعظم نے طلاق کے مسئلے پر بہت ہی طویل گفتگو کی اور اسے مغربیت اور اخلاقی گراوٹ کا نتیجہ قرار دیا۔
اس موقعے پر وہاں موجود لکھاری بی گُل نے وزیر اعظم سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ طلاق کے معاملے کو اس طرح نہیں دیکھنا چاہیے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بی گُل نے بتایا کہ ’میں یہ واضح کرنا چاہتی تھی کہ طلاق بہت ہی ذاتی، سماجی اور مذہبی معاملہ ہے جس کا ہر انسان کو حق ہے اور میں نے یہی وزیر اعظم سے بھی کہا‘۔
’کسی گلے سڑے رشتے میں رہنے سے کہا بہتر نہیں کہ علیحدہ رہا جائے کیونکہ ایسے میں بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں‘۔ بی گُل نے بتایا کہ میں نے عمران خان صاحب سے کہا کہ طلاق سے وابستہ پہلے ہی ہمارے معاشرے میں بہت سے مسائل ہیں اسے داغ سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے کئی خواتین شادی کا سارا بوجھ اکیلی اٹھاکر پھرتی ہیں اور ان کا استحصال بھی کیا جاتا ہے، اس لیے طلاق کے علاوہ بھی بہت سے اہم مسائل ہیں۔
بی گُل نے مزید بتایا کہ وہ روایات کے حق میں صرف اس لیے نہیں بول سکتیں کہ وہ صدیوں سے چلی آرہی ہیں، اچھی چیز کسی بھی معاشرے سے ہو، لینی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف مذہبی تاریخ کو ہی مسلسل نہیں دیکھنا چاہیے، آج کے نوجوان کے لیےآج کی کہانی اہم ہے۔
اس موقع پر بی گل کا مائیک بند کرکے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ طلاق سے بچوں پر برا اثر پڑتا ہے اور معاشرہ پستی کی جانب جاتا ہے۔ اس کے بعد دیگر افراد سے گفتگو شروع کردی گئی۔
اس بارے میں فصیح باری خان نے بتایا کہ شاید وزیر اعظم خود دو طلاقیں بھگت چکے ہیں اس لیے یہ بات ان کے لیے اہم ہے ورنہ اس پر اتنی لمبی بات کی ضرورت نہیں تھی۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں نے وزیر اعظم سے کہا کہ نئی نسل تو پاکستانی ڈرامہ دیکھتی ہی نہیں وہ تو نیٹ فلکس اور امیزون وغیرہ کی مداح ہے، پاکستانی ڈرامے تو گھریلو خواتین کی حد تک ہی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہمیں بادشاہوں اور سپہ سالاروں کی کہانیاں دکھانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ہم اپنے خطے میں موجود کہانیوں کو کیوں نہیں دکھاتے اور اگر دیکھا جائے تو ایران پاکستان سے سماجی و جغرافیائی طور پر زیادہ قریب ہے لیکن ہم اسے چھوڑ کر ترکی کی جانب بھاگ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں میں ڈرامے بنائے جائیں جیسے پہلے بنائے جاتے تھے۔
اسی ملاقات میں موجود مصنّفہ زنجبیل عاصم شاہ نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ان کے خیال میں یہ حکومت کی جانب سے یہ اچھا قدم ہے کیونہ لکھاری بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور انہیں بھی قومی دھارے میں شامل کرنا چاہیے اور اس میٹنگ کا مقصد شاید یہ تھا کہ وزیر اعظم ارطغرل کی طرح کے ڈرامے لکھوانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی گفتگو سے تو یہی محسوس ہورہا تھا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اس ملاقات کے دوران ان کے بولنے کی باری ہی نہیں آئی۔ تاہم ان کے خیال میں پاکستان کے کسی بھی چینل نے طلاق کو اچھی چیز بنا کر پیش نہیں کیا ہے اور انہیں نہیں معلوم کی عمران خان صاحب نے اتنا وقت اس پر کیوں صرف کیا۔
زنجبیل کا کہنا تھا کہ اگر ان کی باری آتی تو وہ یہی کہتیں کہ ڈرامہ نویس وہی لکھیں گے جس کی مانگ نجی چینل والے کریں گے اور بطور مصنف وہ معاشرے کی اصلاح کے لیے لکھنے پر تیار ہیں مگر اس کے لیے پلیٹ فارم درکار ہے اور حکومت وہ ڈرامے پھر پی ٹی وی پر خرید کر چلائے نہ کہ ہمیں نجی چینل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔
اس ملاقات میں موجود ظفر معراج نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کا یہ عمل تو مثبت ہے اور چونکہ ملک میں بیانیہ پہلے ہی قابو میں ہے تو اس لیے اچھا ہے کہ ڈراموں پر بھی بات کر ہی لی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات میں انہوں نے بھی علاقائی زبانوں میں ڈرامہ بنانے پر زور دیا اور کہا کہ اس سلسلے میں سرکاری ٹی وی پی ٹی وی کا کردار سب سے اہم ہے۔
ملاقات میں شریک حسینہ معین نے انڈپینڈنٹ اردو سے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اب حکومت نے پی ٹی وی پر توجہ دینے کا سوچا ہے تو امید ہے کہ وہاں بہتری آئے گی۔
آخر میں وزیر اعظم نے شرکا کو بتایا کہ وہ پی ٹی وی کو اپ گریڈ کرنا چاہتے ہیں اور اسے مکمل ڈیجیٹلائیز کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اور اس کی ساری ذمے داری انہوں نے اپنے معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹینینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو سونپ دی ہے۔
یاد رہے کہ کراچی سے معروف ڈرامہ نویس نور الہدیٰ شاہ کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی مگر انہوں نے یہ مسترد کردی تھی اور اپنی فیس بُک اور ٹوئٹر سٹیٹس میں لکھا تھا کہ 'وزیر اعظم اب ڈراموں پر میٹنگ کریں گے؟ باقی سب کام مکمل ہوگیا کیا؟ْ'
تاہم بعد میں انہوں نے اسے ہٹا دیا تھا۔
اسی طرح پاکستان کی ایک اور نامور ترین مصنفہ جن کے نام پر خانی جیسا ڈرامہ ہے، اسما نبیل کو اس ملاقات کی دعوت ہی نہیں دی گئی ۔
اسما نبیل نے کہا کہ حکومت کا یہ عمل تو اچھا ہے لیکن انہیں افسوس ہے کہ انہیں سرے سے ملاقات کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔ انہوں نے دعوت دینے کے عمل پر بھی سوال اٹھایا کہ فہرست بنانے کا کیا معیار تھا اور اگر قومی سطح پر ملاقات ہوتی ہے اور پھر قومی سطح کے تمام لکھاریوں کو بلانا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فہرست بنانے کے معیار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم نے طلاق کے موضوع پر اتنی طویل گفتگو کیوں کی؟ کیا وزیر اعظم پاکستانی ڈرامہ نگاروں سے ارطغرل ٹائپ ڈرامے بنوانا چاہتے ہیں؟ نور الہدی شاہ میٹنگ میں کیوں شریک نہ ہوئیں؟ جانیے ان سوالات کے جواب۔۔
حسن کاظمی صحافی، کراچی
ہفتہ 20 جون 2020 8:30
(سوشل میڈیا)
پاکستان میں آج جب پورا ملک جسٹس قاضی فائز عیسٰی ریفرنس کے فیصلہ کا انتظار کررہا تھا تو اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں بیٹھے، ویڈیو لنک کے ذریعے کراچی اور لاہور میں ملک کے چند نامور ڈرامہ مصنفین سے ملاقات کررہے تھے۔
وزیر اعظم کے ساتھ وفاقی وزیرِ اطلاعات شبلی فراز اور معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹینینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ بھی موجود تھے۔
اس ملاقات میں نظامت کے مکمل فرائض معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹینینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے ہی انجام دیے۔
جن مصنفین کو مدعو کیا گیا تھا ان میں حسینہ معین، امجد اسلام امجد، افتخار عارف، فاروق قیصر، بی گُل، فصیح باری خان، ظفر معراج، زنجبیل عاصم شاہ، آمنہ مفتی، ساجی گُل ، صائمہ اکرام چوہدری اور جہانزیب قمر شامل تھے۔
ان میں سے افتخار عارف، فاروق قیصر اور ساجی گُل ویڈیو لنک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے۔
سرکاری پریس ریلیز کے علاوہ بات کی جائے تو اس میٹنگ میں لاہور سے شریک فصیح باری خان نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان اس وقت چائلڈ پورنو گرافی میں پہلے نمبر پر ہے اور پورا معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے طویل وقت پاکستان میں معاشرے کی اخلاقی پستی پر بات کی اور بقول وزیر اعظم پاکستان میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ مغربیت پسندی اور اخلاقی زوال ہے۔
فصیح باری خان نے بتایا کہ وزیر اعظم نے کہا کہ معاشرہ بگڑ رہا ہے اور ہماری نوجوان نسل کو ہماری تاریخ کے بارے میں معلومات حاصل نہیں ہیں اس لیے ڈرامہ نگاروں کی ذمےداری ہے کہ وہ نئی نسل کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی میں مدد کریں۔
ملاقات میں شریک افراد کے مطابق وزیر اعظم نے طلاق کے مسئلے پر بہت ہی طویل گفتگو کی اور اسے مغربیت اور اخلاقی گراوٹ کا نتیجہ قرار دیا۔
اس موقعے پر وہاں موجود لکھاری بی گُل نے وزیر اعظم سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ طلاق کے معاملے کو اس طرح نہیں دیکھنا چاہیے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بی گُل نے بتایا کہ ’میں یہ واضح کرنا چاہتی تھی کہ طلاق بہت ہی ذاتی، سماجی اور مذہبی معاملہ ہے جس کا ہر انسان کو حق ہے اور میں نے یہی وزیر اعظم سے بھی کہا‘۔
’کسی گلے سڑے رشتے میں رہنے سے کہا بہتر نہیں کہ علیحدہ رہا جائے کیونکہ ایسے میں بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں‘۔ بی گُل نے بتایا کہ میں نے عمران خان صاحب سے کہا کہ طلاق سے وابستہ پہلے ہی ہمارے معاشرے میں بہت سے مسائل ہیں اسے داغ سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے کئی خواتین شادی کا سارا بوجھ اکیلی اٹھاکر پھرتی ہیں اور ان کا استحصال بھی کیا جاتا ہے، اس لیے طلاق کے علاوہ بھی بہت سے اہم مسائل ہیں۔
بی گُل نے مزید بتایا کہ وہ روایات کے حق میں صرف اس لیے نہیں بول سکتیں کہ وہ صدیوں سے چلی آرہی ہیں، اچھی چیز کسی بھی معاشرے سے ہو، لینی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف مذہبی تاریخ کو ہی مسلسل نہیں دیکھنا چاہیے، آج کے نوجوان کے لیےآج کی کہانی اہم ہے۔
اس موقع پر بی گل کا مائیک بند کرکے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ طلاق سے بچوں پر برا اثر پڑتا ہے اور معاشرہ پستی کی جانب جاتا ہے۔ اس کے بعد دیگر افراد سے گفتگو شروع کردی گئی۔
اس بارے میں فصیح باری خان نے بتایا کہ شاید وزیر اعظم خود دو طلاقیں بھگت چکے ہیں اس لیے یہ بات ان کے لیے اہم ہے ورنہ اس پر اتنی لمبی بات کی ضرورت نہیں تھی۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں نے وزیر اعظم سے کہا کہ نئی نسل تو پاکستانی ڈرامہ دیکھتی ہی نہیں وہ تو نیٹ فلکس اور امیزون وغیرہ کی مداح ہے، پاکستانی ڈرامے تو گھریلو خواتین کی حد تک ہی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہمیں بادشاہوں اور سپہ سالاروں کی کہانیاں دکھانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ہم اپنے خطے میں موجود کہانیوں کو کیوں نہیں دکھاتے اور اگر دیکھا جائے تو ایران پاکستان سے سماجی و جغرافیائی طور پر زیادہ قریب ہے لیکن ہم اسے چھوڑ کر ترکی کی جانب بھاگ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں میں ڈرامے بنائے جائیں جیسے پہلے بنائے جاتے تھے۔
اسی ملاقات میں موجود مصنّفہ زنجبیل عاصم شاہ نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ان کے خیال میں یہ حکومت کی جانب سے یہ اچھا قدم ہے کیونہ لکھاری بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور انہیں بھی قومی دھارے میں شامل کرنا چاہیے اور اس میٹنگ کا مقصد شاید یہ تھا کہ وزیر اعظم ارطغرل کی طرح کے ڈرامے لکھوانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی گفتگو سے تو یہی محسوس ہورہا تھا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اس ملاقات کے دوران ان کے بولنے کی باری ہی نہیں آئی۔ تاہم ان کے خیال میں پاکستان کے کسی بھی چینل نے طلاق کو اچھی چیز بنا کر پیش نہیں کیا ہے اور انہیں نہیں معلوم کی عمران خان صاحب نے اتنا وقت اس پر کیوں صرف کیا۔
زنجبیل کا کہنا تھا کہ اگر ان کی باری آتی تو وہ یہی کہتیں کہ ڈرامہ نویس وہی لکھیں گے جس کی مانگ نجی چینل والے کریں گے اور بطور مصنف وہ معاشرے کی اصلاح کے لیے لکھنے پر تیار ہیں مگر اس کے لیے پلیٹ فارم درکار ہے اور حکومت وہ ڈرامے پھر پی ٹی وی پر خرید کر چلائے نہ کہ ہمیں نجی چینل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔
اس ملاقات میں موجود ظفر معراج نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کا یہ عمل تو مثبت ہے اور چونکہ ملک میں بیانیہ پہلے ہی قابو میں ہے تو اس لیے اچھا ہے کہ ڈراموں پر بھی بات کر ہی لی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات میں انہوں نے بھی علاقائی زبانوں میں ڈرامہ بنانے پر زور دیا اور کہا کہ اس سلسلے میں سرکاری ٹی وی پی ٹی وی کا کردار سب سے اہم ہے۔
ملاقات میں شریک حسینہ معین نے انڈپینڈنٹ اردو سے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اب حکومت نے پی ٹی وی پر توجہ دینے کا سوچا ہے تو امید ہے کہ وہاں بہتری آئے گی۔
آخر میں وزیر اعظم نے شرکا کو بتایا کہ وہ پی ٹی وی کو اپ گریڈ کرنا چاہتے ہیں اور اسے مکمل ڈیجیٹلائیز کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اور اس کی ساری ذمے داری انہوں نے اپنے معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹینینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو سونپ دی ہے۔
یاد رہے کہ کراچی سے معروف ڈرامہ نویس نور الہدیٰ شاہ کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی مگر انہوں نے یہ مسترد کردی تھی اور اپنی فیس بُک اور ٹوئٹر سٹیٹس میں لکھا تھا کہ 'وزیر اعظم اب ڈراموں پر میٹنگ کریں گے؟ باقی سب کام مکمل ہوگیا کیا؟ْ'
تاہم بعد میں انہوں نے اسے ہٹا دیا تھا۔
اسی طرح پاکستان کی ایک اور نامور ترین مصنفہ جن کے نام پر خانی جیسا ڈرامہ ہے، اسما نبیل کو اس ملاقات کی دعوت ہی نہیں دی گئی ۔
اسما نبیل نے کہا کہ حکومت کا یہ عمل تو اچھا ہے لیکن انہیں افسوس ہے کہ انہیں سرے سے ملاقات کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔ انہوں نے دعوت دینے کے عمل پر بھی سوال اٹھایا کہ فہرست بنانے کا کیا معیار تھا اور اگر قومی سطح پر ملاقات ہوتی ہے اور پھر قومی سطح کے تمام لکھاریوں کو بلانا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فہرست بنانے کے معیار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔