وزیر داخلہ کی ویلنٹائن ڈے پر پابندی

تاریخ : 12 فروری 2016ء​
2qa368z.jpg

وزیر داخلہ کی ویلنٹائن ڈے پر پابندی
تحریر: سید انور محمود

یکم فروری 1948ء کو امریکی عوام سے ریڈیو خطاب میں قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ’’پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا جس میں ملاوں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار ہو۔ ہمارے ملک میں بہت سے غیر مسلم شہری موجود ہیں مثلاً ہندو، مسیحی اور پارسی وغیرہ لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ انہیں وہی حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے جو دیگر شہریوں کو دئیے جائیں گے اور انہیں پاکستان کے امور مملکت میں اپنا کماحقہ کردار ادا کرنے کا پورا موقع ملے گا۔ ‘‘ لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ جو دہشت گردوں کے زبردست حامی ہیں اور اگر کوئی دہشت گرد مرجائے تو انکو بہت افسوس ہوتا ہے، وزیر داخلہ کو دہشت گردوں کی کس قدر فکر رہتی ہے اسکا اندازہ لال مسجد کے زندہ دہشت گرد ملا عبدالعزیز کے اوپروزیر داخلہ کی مہربانیاں دیکھ کر ہوجاتا ہے، اسکے برعکس چند لوگوں کے ویلنٹائن ڈے منانے کے پروگرام پر وزیر داخلہ چوہدری نثار کو بہت تکلیف ہے، انہوں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی عائد کردی ہے اورضلعی انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ ویلنٹائن ڈے منانے کی پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاون کیا جائے۔ اسلام آباد انتظامیہ نے بتایا کہ اس سلسلے میں تمام تقریبات منسوخ کرنے کی بھی ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔

وزیر داخلہ ویلنٹائن ڈے منانے والوں کے خلاف تو کریک ڈاون کا حکم فرماتے ہیں لیکن دہشت گرد تنظم داعش کےلیے بہت ہی ہمدردی رکھتے ہیں۔ دہشت گردوں کے حامی چوہدری نثار اس قدر بے خبر وزیر داخلہ ہیں کہ انکو معلوم ہی نہیں کہ ملک کی داخلی سلامتی پر حکومت کے عہدئے دار کیا کررہے ہیں اور کیا بتارہے ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان نے بدھ کو سینٹ کی داخلہ کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ جنرل ضیا الحق (کے اثر ) سے آگےکی دونسلوں کے ذہن تبدیل ہوئے ہیں ، انہیں بدلنے کےلیے دس سال لگیں گے۔داعش کا ایک نیٹ ورک آئی بی نے پکڑلیا ہے۔تحریک طالبان داعش سے تعاون کرتی ہے، کالعدم سپاہ صحابہ، ٹی ٹی پی اور لشکر جھنگوی کے آپس میں روابط ہیں، سیکڑوں مقامی جنگجو شام چلےگئے ہیں،میڈیا ہاوسز اور تعلیمی ادارے دہشتگردوں کا ہدف ہیں۔ وزیر داخلہ کو تو شاید یہ بھی نہیں معلوم ہوگا کہ جنگ اخبار میں بیٹھا ہوا انصار عباسی دہشت گردوں کا ایک کھلا ہوا سہولت کار ہے، یہ ہمیشہ اپنی تحریروں کے زریعے کھلے الفاذ میں دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے۔ اپنے مضمونوں کے زریعے ان لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرتا ہے جو طالبان، داعش یا اور دہشت گردوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو سب سے بہتر مسلمان ظاہر کرنا اور اس کی آڑ میں لبرل کو بدنام کرنا اسکا روز کا کام ہے۔ اسکو بھی وزیر داخلہ کی طرح ویلنٹائن ڈے منانے والوں سے سخت اختلاف ہے، اپنے ایک حالیہ مضمون میں “ہمیں ویلنٹائن ڈے نہیں منانا” میں اس نے تہذیب کے دائرہ سے باہر نکل کر عام لوگوں کی بیٹی، بہو، بہن اور ماں تک کا ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ذکر کر ڈالا۔

ملتان کی ڈاکٹررامش فاطمہ اپنے مضمون “صاحب ! پھول سے ڈر کیوں لگتا ہے؟” میں لکھتی ہیں کہ “ویلینٹائن ڈے پہ پابندی لگاکے تمام پھول ان سب پہ برسائے جائیں گے جو پابندی کو تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں، حیا ڈے، حجاب ڈے، کشمیر ڈے اور ایسی مزید ڈرامے بازیوں سے قوم کو لطف اندوز کرنے کے بعد پرانی فلم کو پھر مذہب اور سماج نام پہ چلایا جارہا ہے کہ ویلینٹائن نہ منایا جائے، کیا یہ بھی کسی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے کہ ہر اسکول میں ہر استاد تک بندوقیں پہنچا کر ہر گلی ہر محلے سے پھول اٹھا لیے جائیں؟ آخر آپ کا مذہب آپ کا عقیدہ آپ کے مذہبی جذبات جگہ جگہ لگے کمزوری کے اشتہار سے بھی زیادہ کمزور کیوں ہیں کہ ان کو ذرا ذرا سی بات پہ ٹھیس پہنچ جاتی ہے؟ موقع بعد میں آتا ہے اور پابندی پہلے لگ جاتی ہے۔ غیرت کے نام پہ قتل ہونے سے روکنا ہے تو ویلنٹائن پہ پابندی لگا دیں۔ اگر ممنون صاحب علما سے سود کی گنجائش مانگ سکتے ہیں تو ہم پھولوں کی گنجائش کے سوالی ہیں۔ کوئی سامان ہماری خوشی کا بھی باقی رہنے دیں۔ آپ اپنی سوچ ہم پہ مسلط نہ کریں اور ہم اپنے پھول آپ پہ مسلط نہیں کرتے، خوشبو زیادہ تنگ کرے تو خوشبو لگا کے آ جائیں اور پھول تقسیم کریں کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں۔ ٹھیک ہے آپ نے نہیں منانا تو نہ منائیں ، آپ پھول خریدیں اور اپنے مستقبل کے لیے محفوظ کر لیں لیکن جو منانا چاہتے ہیں انہیں آپ کیسے روک سکتے ہیں؟”۔

ڈاکٹررامش فاطمہ نے اپنے مضمون میں وزیر داخلہ کو جتادیا ہے کہ یہ ملک نہ تو آپکی اور نہ ہی انصار عباسی کی ذاتی جاگیر ہے اور نہ ہی آپ کو یہ اختیار ہے کہ لوگوں کی ذاتی زندگی میں خلل ڈالیں۔ کون حجاب لیتا ہے اور کون نہیں لیتا یہ اسکا ذاتی معاملہ ہے۔ ملک کے قانون میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ ویلنٹائن ڈے منانا منع ہے، جو منانا چاہیں منایں جو نہیں منایں وہ انکی مرضی لیکن اسلام آباد میں ویلنٹائن ڈے پر پابندی وزیر داخلہ کا ذاتی فیصلہ ہے ریاست کا نہیں، شاید وزیر داخلہ اپنے دہشت گر د بھائیوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک انصار عباسی کا تعلق ہے تو اسکو تو روزانہ اپنے طالبانی آقاوں کو خوش کرنا ہوتا ہے۔ بقول وجاہت مسعود “اگر وزیراعظم نواز شریف لبرل ہونے اورقائداعظم کے اس نصب العین پر عمل پیرا ہونے کا عندیہ دیتے ہیں تو انصار عباسی کا کہنا ہوتا ہے کہ وزیراعظم بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں ۔ لاکھوں لوگ ویلنٹائن ڈے منانے کیلئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور انہیں پولیس کے ذریعے روکا جاتا ہے۔ لوگ بسنت کی پتنگ اڑانے نکلتے ہیں تو چھتوں پر کھلے پھول دیکھ کر کچھ خوش نا اندیشوں کو آشوب چشم لاحق ہوتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے ہاتھوں جلاوطن ہونے والی کرکٹ کا میلہ دبئی میں سجتا ہے تو وہاں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ہنستے کھیلتے دیکھ کر کراچی کے نامور مفتی صاحب اسلامی ای میل لکھتے ہیں”۔ بات دراصل یہ ہے کہ عوام کی اکثریت دہشت گردی کے خلاف ہے لیکن دہشت گردوں کے حامی وزیر داخلہ اورانصار عباسی کو طالبان کی دہشت گردی تو قبول ہے لیکن کچھ لوگوں کا ویلنٹائن ڈے منانا قبول نہیں ہے۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ’’پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا جس میں ملاوں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار ہو”۔
vi050n.jpg
 
آخری تدوین:

سارہ خان

محفلین
جن کو منانا ہوگا وہ اگلے دن منا لیں گے پابندی ہٹنے کے بعد ۔۔۔ کوئی خاطر خواہ نتیجہ تو ہوگا نہیں اس پابندی کا ۔۔
 

ربیع م

محفلین
تاریخ : 12 فروری 2016ء​
2qa368z.jpg

وزیر داخلہ کی ویلنٹائن ڈے پر پابندی
تحریر: سید انور محمود

یکم فروری 1948ء کو امریکی عوام سے ریڈیو خطاب میں قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ’’پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا جس میں ملاوں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار ہو۔ ہمارے ملک میں بہت سے غیر مسلم شہری موجود ہیں مثلاً ہندو، مسیحی اور پارسی وغیرہ لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ انہیں وہی حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے جو دیگر شہریوں کو دئیے جائیں گے اور انہیں پاکستان کے امور مملکت میں اپنا کماحقہ کردار ادا کرنے کا پورا موقع ملے گا۔ ‘‘ لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ جو دہشت گردوں کے زبردست حامی ہیں اور اگر کوئی دہشت گرد مرجائے تو انکو بہت افسوس ہوتا ہے، وزیر داخلہ کو دہشت گردوں کی کس قدر فکر رہتی ہے اسکا اندازہ لال مسجد کے زندہ دہشت گرد ملا عبدالعزیز کے اوپروزیر داخلہ کی مہربانیاں دیکھ کر ہوجاتا ہے، اسکے برعکس چند لوگوں کے ویلنٹائن ڈے منانے کے پروگرام پر وزیر داخلہ چوہدری نثار کو بہت تکلیف ہے، انہوں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی عائد کردی ہے اورضلعی انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ ویلنٹائن ڈے منانے کی پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاون کیا جائے۔ اسلام آباد انتظامیہ نے بتایا کہ اس سلسلے میں تمام تقریبات منسوخ کرنے کی بھی ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔

وزیر داخلہ ویلنٹائن ڈے منانے والوں کے خلاف تو کریک ڈاون کا حکم فرماتے ہیں لیکن دہشت گرد تنظم داعش کےلیے بہت ہی ہمدردی رکھتے ہیں۔ دہشت گردوں کے حامی چوہدری نثار اس قدر بے خبر وزیر داخلہ ہیں کہ انکو معلوم ہی نہیں کہ ملک کی داخلی سلامتی پر حکومت کے عہدئے دار کیا کررہے ہیں اور کیا بتارہے ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان نے بدھ کو سینٹ کی داخلہ کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ جنرل ضیا الحق (کے اثر ) سے آگےکی دونسلوں کے ذہن تبدیل ہوئے ہیں ، انہیں بدلنے کےلیے دس سال لگیں گے۔داعش کا ایک نیٹ ورک آئی بی نے پکڑلیا ہے۔تحریک طالبان داعش سے تعاون کرتی ہے، کالعدم سپاہ صحابہ، ٹی ٹی پی اور لشکر جھنگوی کے آپس میں روابط ہیں، سیکڑوں مقامی جنگجو شام چلےگئے ہیں،میڈیا ہاوسز اور تعلیمی ادارے دہشتگردوں کا ہدف ہیں۔ وزیر داخلہ کو تو شاید یہ بھی نہیں معلوم ہوگا کہ جنگ اخبار میں بیٹھا ہوا انصار عباسی دہشت گردوں کا ایک کھلا ہوا سہولت کار ہے، یہ ہمیشہ اپنی تحریروں کے زریعے کھلے الفاذ میں دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے۔ اپنے مضمونوں کے زریعے ان لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرتا ہے جو طالبان، داعش یا اور دہشت گردوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو سب سے بہتر مسلمان ظاہر کرنا اور اس کی آڑ میں لبرل کو بدنام کرنا اسکا روز کا کام ہے۔ اسکو بھی وزیر داخلہ کی طرح ویلنٹائن ڈے منانے والوں سے سخت اختلاف ہے، اپنے ایک حالیہ مضمون میں “ہمیں ویلنٹائن ڈے نہیں منانا” میں اس نے تہذیب کے دائرہ سے باہر نکل کر عام لوگوں کی بیٹی، بہو، بہن اور ماں تک کا ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ذکر کر ڈالا۔

ملتان کی ڈاکٹررامش فاطمہ اپنے مضمون “صاحب ! پھول سے ڈر کیوں لگتا ہے؟” میں لکھتی ہیں کہ “ویلینٹائن ڈے پہ پابندی لگاکے تمام پھول ان سب پہ برسائے جائیں گے جو پابندی کو تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں، حیا ڈے، حجاب ڈے، کشمیر ڈے اور ایسی مزید ڈرامے بازیوں سے قوم کو لطف اندوز کرنے کے بعد پرانی فلم کو پھر مذہب اور سماج نام پہ چلایا جارہا ہے کہ ویلینٹائن نہ منایا جائے، کیا یہ بھی کسی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے کہ ہر اسکول میں ہر استاد تک بندوقیں پہنچا کر ہر گلی ہر محلے سے پھول اٹھا لیے جائیں؟ آخر آپ کا مذہب آپ کا عقیدہ آپ کے مذہبی جذبات جگہ جگہ لگے کمزوری کے اشتہار سے بھی زیادہ کمزور کیوں ہیں کہ ان کو ذرا ذرا سی بات پہ ٹھیس پہنچ جاتی ہے؟ موقع بعد میں آتا ہے اور پابندی پہلے لگ جاتی ہے۔ غیرت کے نام پہ قتل ہونے سے روکنا ہے تو ویلنٹائن پہ پابندی لگا دیں۔ اگر ممنون صاحب علما سے سود کی گنجائش مانگ سکتے ہیں تو ہم پھولوں کی گنجائش کے سوالی ہیں۔ کوئی سامان ہماری خوشی کا بھی باقی رہنے دیں۔ آپ اپنی سوچ ہم پہ مسلط نہ کریں اور ہم اپنے پھول آپ پہ مسلط نہیں کرتے، خوشبو زیادہ تنگ کرے تو خوشبو لگا کے آ جائیں اور پھول تقسیم کریں کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں۔ ٹھیک ہے آپ نے نہیں منانا تو نہ منائیں ، آپ پھول خریدیں اور اپنے مستقبل کے لیے محفوظ کر لیں لیکن جو منانا چاہتے ہیں انہیں آپ کیسے روک سکتے ہیں؟”۔

ڈاکٹررامش فاطمہ نے اپنے مضمون میں وزیر داخلہ کو جتادیا ہے کہ یہ ملک نہ تو آپکی اور نہ ہی انصار عباسی کی ذاتی جاگیر ہے اور نہ ہی آپ کو یہ اختیار ہے کہ لوگوں کی ذاتی زندگی میں خلل ڈالیں۔ کون حجاب لیتا ہے اور کون نہیں لیتا یہ اسکا ذاتی معاملہ ہے۔ ملک کے قانون میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ ویلنٹائن ڈے منانا منع ہے، جو منانا چاہیں منایں جو نہیں منایں وہ انکی مرضی لیکن اسلام آباد میں ویلنٹائن ڈے پر پابندی وزیر داخلہ کا ذاتی فیصلہ ہے ریاست کا نہیں، شاید وزیر داخلہ اپنے دہشت گر د بھائیوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک انصار عباسی کا تعلق ہے تو اسکو تو روزانہ اپنے طالبانی آقاوں کو خوش کرنا ہوتا ہے۔ بقول وجاہت مسعود “اگر وزیراعظم نواز شریف لبرل ہونے اورقائداعظم کے اس نصب العین پر عمل پیرا ہونے کا عندیہ دیتے ہیں تو انصار عباسی کا کہنا ہوتا ہے کہ وزیراعظم بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں ۔ لاکھوں لوگ ویلنٹائن ڈے منانے کیلئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور انہیں پولیس کے ذریعے روکا جاتا ہے۔ لوگ بسنت کی پتنگ اڑانے نکلتے ہیں تو چھتوں پر کھلے پھول دیکھ کر کچھ خوش نا اندیشوں کو آشوب چشم لاحق ہوتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے ہاتھوں جلاوطن ہونے والی کرکٹ کا میلہ دبئی میں سجتا ہے تو وہاں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ہنستے کھیلتے دیکھ کر کراچی کے نامور مفتی صاحب اسلامی ای میل لکھتے ہیں”۔ بات دراصل یہ ہے کہ عوام کی اکثریت دہشت گردی کے خلاف ہے لیکن دہشت گردوں کے حامی وزیر داخلہ اورانصار عباسی کو طالبان کی دہشت گردی تو قبول ہے لیکن کچھ لوگوں کا ویلنٹائن ڈے منانا قبول نہیں ہے۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ’’پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا جس میں ملاوں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار ہو”۔
vi050n.jpg

انتہائی مضحکہ خیز:) :) :)
 
اس بیچارے نے غور ہی نہیں کیا ۔چار دن غامدی سے پڑھا ہوتا تو قرآن سے ویلنٹائن کی دلیل بھی مل جاتی۔
نام ملاؤں کا لے کر حقیت میں دین کی تذلیل مقصود ہوتی ہے ۔ کھل کہ کیوں نہیں کہہ دیتے محمد ﷺناقص دین لے کر آئے تھے ۔
بنا ملک اسلام کے نام پر اور لوٹا کبھی کسی نے سوشلزم کا نعرہ لگا کر ،کسی نے شریعت بل کا نام لیکر ، کسی نے لبرلزم، کسی نے روشن خیالی کا اور رسوائی مسجد کے امام کی یا بیچارے انصار عباسی کی ۔
ظالمو!اگر اسلام اس ملک کی بنیاد کا باعث نہیں تھا تو پھر ہمیں متحدہ ہندوستان میں کیا تکلیف تھی؟

لاکھوں لوگ ویلنٹائن ڈے منانے کیلئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور انہیں پولیس کے ذریعے روکا جاتا ہے

"لاکھوں لوگ"
ویلنٹائن نہ ہوا،
قاف لیگ کا جلسہ ہو گیا ،
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
تضادات سے بھرپور ہمارے معاشرے کا ایک اور تضاد آلود پہلو۔

افسوس
لیکن بندہ کر ہی کیا سکتا ہے کھانس لینے کے سوا
وغیرہ وغیرہ
 
جو منانا چاہے وہ منائے، جو نہ منانا چاہے وہ نہ منائیں۔ ہر نفس کو آئین اور اخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے مکمل شخصی آزادی ہونی چاہیے
 
سکے برعکس چند لوگوں کے ویلنٹائن ڈے منانے کے پروگرام پر وزیر داخلہ چوہدری نثار کو بہت تکلیف ہے
لاکھوں لوگ ویلنٹائن ڈے منانے کیلئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور انہیں پولیس کے ذریعے روکا جاتا ہے
لگتا ہے لکھا بھی خود نہیں ہے۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں خود لکھا ہوتا تو بہت بہتر ہونا شاہئے تھا ، گنتی کی لائینں اور ان میں بھی تضاد۔

تہذیب کے دائرہ سے باہر نکل کر عام لوگوں کی بیٹی، بہو، بہن اور ماں تک کا ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ذکر کر ڈالا۔
اوہو ہم تو کچھ اور ہی سمجھتے رہے اب پتا چلا کہ ویلنٹائن پر پھول مرد ہی مردوں کو دیتے ہیں یا پھر ایسی مخلوق کو جو کسی کی بیٹی، بہن وغیرہ نہیں ہوتی۔
آڑ میں لبرل کو بدنام کرنا اسکا روز کا کام ہے۔
سبحان اللہ لبرلزم کو "بدنام" بھر تو عباسی صاحب صریحاً گستاخی کے مرتکب ہیں۔
وزیر داخلہ کو تو شاید یہ بھی نہیں معلوم ہوگا کہ جنگ اخبار میں بیٹھا ہوا انصار عباسی دہشت گردوں کا ایک کھلا ہوا سہولت کار ہے،
کیا انٹیلیجنس ہے ممدوح کی۔
موقع بعد میں آتا ہے اور پابندی پہلے لگ جاتی ہے۔ غیرت کے نام پہ قتل ہونے سے روکنا ہے تو ویلنٹائن پہ پابندی لگا دیں
نہ غیرت کے قتل کیاسلام میں اجازت ہے نہ ملاں کہتا ہے۔ ذرا تعصب کی عینک اتاریں جناب!
ویسےامر واقعہ یہ ہے کہ پھول پہلے پہنچتا ہے غیرت والا مسئلہ بعد میں آتا ہے ۔

قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ’’پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا جس میں ملاوں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار ہو
اس تقریر کا پورا متن لگائیں ، مجھے لگتا ہے کہ آپ نے اصل متن نہیں پڑھا کہیں سے اٹھا کر صفحہ ہی سیاہ کیا ہے۔
جس میں ملاوں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار ہو

جہاں تک انصار عباسی کا تعلق ہے تو اسکو تو روزانہ اپنے طالبانی آقاوں کو خوش کرنا ہوتا ہے
طالبانی آقاؤں کا تو پتہ نہیں آپ نےالبتہ ضرور لبرلزم پر احسان عظیم کر دیا ہے ۔

پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا جس میں ملاوں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار ہو
میں ملاں نہیں ہوں اور بے عمل سا آدمی ہوں پھر بھی حق کہنا مناسب سمجھتا ہوں، یہ بات میں سمجھتا ہوں کہ بہتان ہے اور اگر بالفرض بہتان نہیں بھی ہے تو یہ بات قطعاً غلط ہے اور نظریاتی اور تاریخی حقائق سے دور ہے۔ ملاوں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں کیا مطلب ہے اسکا،صرف ملاوں نہیں آئین میں لکھا ہے ملک میں کوئی قانون بھی خلاف اسلام نہیں بنایا جائے گااور موجودہ قوانین کو بھی قرآن و سنت کے قالب میں ڈھالا جائے گا۔(آئین پاکستان از ڈاکٹر صفدر محمود ص57)
قرآن میں حضور یہ بھی ہے"اور جو رسول ﷺتمہیں دے اسے لے لو اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ"

آئین میں یہ بھی ہے "عصمت فروشی، جوا، ضرر رساں دوائیں، اور فحش لٹریچرکی اشاعت و فروخت پر پابندی لگا دی جائے گی"۔
"مسلمانان پاکستان کی زندگیوں کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے اور مواقع بہم پہنچائے جائیں گے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں"۔
"حکومت اتحاد اور اسلامی روایات کے فروغ کے لئے بھی کوششیں کرے گی"
(آئین پاکستان از ڈاکٹر صفدر محمود ص55،54)

یہ پڑھیں آئین میں لکھا ہے سب کچھ اگر حق بیان کرنے کے عادی اور قلم کے ایک ایک شوشہ کو امانت داری اور دیانت داری سے استعمال اور ضمیر کی گرمی سے اسے حرکت میں لاتے ہو تو لکھو کہ یہ بھی آئینی کام ہیں حکومت نہیں کرتی اور ان پر ذرا تنقید بھی کرو۔
 
آخری تدوین:
جو منانا چاہے وہ منائے، جو نہ منانا چاہے وہ نہ منائیں۔ ہر نفس کو آئین اور اخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے مکمل شخصی آزادی ہونی چاہیے
اخلاقی حدود کیا ہے اب ؟
بات یہ ہے کہ اس میں اخلاقی ، آئینی ہی نہیں مشرقی حدود بھی پائمال ہوتی ہیں جو صریحاً اشتعال کا سبب ہے۔
جس طرح مذہبی انتہاپسندی ایک بگاڑ کا سبب ہے اسی طرح یہ بھی بگاڑ کا سبب ہے۔
 
اخلاقی حدود کیا ہے اب ؟
بات یہ ہے کہ اس میں اخلاقی ، آئینی ہی نہیں مشرقی حدود بھی پائمال ہوتی ہیں جو صریحاً اشتعال کا سبب ہے۔
جس طرح مذہبی انتہاپسندی ایک بگاڑ کا سبب ہے اسی طرح یہ بھی بگاڑ کا سبب ہے۔
عبداللہ صاحب۔ اخلاقی حدود سے مراد یہ کہ عریانی فحاشی اورحیا سوز سرگرمیوں سے اجتناب ہو۔ ویلنٹائن کے نام پر عریانی اور فحاشی کا تو ہر شریف آدمی مخالف ہے۔
 

bilal260

محفلین
جو منانا چاہے وہ منائے، جو نہ منانا چاہے وہ نہ منائیں۔ ہر نفس کو آئین اور اخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے مکمل شخصی آزادی ہونی چاہیے
یہ تو آزاد خیالی بلکہ روشن خیالی ہو جیسا کہ ادھر دبئی میں ہے۔
کوئی حال نہیں ۔
 
یہ تو آزاد خیالی بلکہ روشن خیالی ہو جیسا کہ ادھر دبئی میں ہے۔
کوئی حال نہیں ۔
بلال صاحب۔ ایسی حدود سے ماورا سرگرمیوں کے دھندے تو صرف ویلنٹائن ڈے پر نہیں ، 365 دن پوری دنیا ہی میں چلتے رہتے ہیں۔ ان کی کوئی بھی شریف آدمی حمایت نہیں کرتا ۔ میں بھی مخالف ہوں
 

ربیع م

محفلین
لگتا ہے لکھا بھی خود نہیں ہے۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں خود لکھا ہوتا تو بہت بہتر ہونا شاہئے تھا ، گنتی کی لائینں اور ان میں بھی تضاد۔


اوہو ہم تو کچھ اور ہی سمجھتے رہے اب پتا چلا کہ ویلنٹائن پر پھول مرد ہی مردوں کو دیتے ہیں یا پھر ایسی مخلوق کو جو کسی کی بیٹی، بہن وغیرہ نہیں ہوتی۔

سبحان اللہ لبرلزم کو "بدنام" بھر تو عباسی صاحب صریحاً گستاخی کے مرتکب ہیں۔

کیا انٹیلیجنس ہے ممدوح کی۔

نہ غیرت کے قتل کیاسلام میں اجازت ہے نہ ملاں کہتا ہے۔ ذرا تعصب کی عینک اتاریں جناب!
ویسےامر واقعہ یہ ہے کہ پھول پہلے پہنچتا ہے غیرت والا مسئلہ بعد میں آتا ہے ۔


اس تقریر کا پورا متن لگائیں ، مجھے لگتا ہے کہ آپ نے اصل متن نہیں پڑھا کہیں سے اٹھا کر صفحہ ہی سیاہ کیا ہے۔



طالبانی آقاؤں کا تو پتہ نہیں آپ نےالبتہ ضرور لبرلزم پر احسان عظیم کر دیا ہے ۔


میں ملاں نہیں ہوں اور بے عمل سا آدمی ہوں پھر بھی حق کہنا مناسب سمجھتا ہوں، یہ بات میں سمجھتا ہوں کہ بہتان ہے اور اگر بالفرض بہتان نہیں بھی ہے تو یہ بات قطعاً غلط ہے اور نظریاتی اور تاریخی حقائق سے دور ہے۔ ملاوں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں کیا مطلب ہے اسکا،صرف ملاوں نہیں آئین میں لکھا ہے ملک میں کوئی قانون بھی خلاف اسلام نہیں بنایا جائے گااور موجودہ قوانین کو بھی قرآن و سنت کے قالب میں ڈھالا جائے گا۔(آئین پاکستان از ڈاکٹر صفدر محمود ص57)
قرآن میں حضور یہ بھی ہے"اور جو رسول ﷺتمہیں دے اسے لے لو اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ"

آئین میں یہ بھی ہے "عصمت فروشی، جوا، ضرر رساں دوائیں، اور فحش لٹریچرکی اشاعت و فروخت پر پابندی لگا دی جائے گی"۔
"مسلمانان پاکستان کی زندگیوں کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے اور مواقع بہم پہنچائے جائیں گے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں"۔
"حکومت اتحاد اور اسلامی روایات کے فروغ کے لئے بھی کوششیں کرے گی"
(آئین پاکستان از ڈاکٹر صفدر محمود ص55،54)

یہ پڑھیں آئین میں لکھا ہے سب کچھ اگر حق بیان کرنے کے عادی اور قلم کے ایک ایک شوشہ کو امانت داری اور دیانت داری سے استعمال اور ضمیر کی گرمی سے اسے حرکت میں لاتے ہو تو لکھو کہ یہ بھی آئینی کام ہیں حکومت نہیں کرتی اور ان پر ذرا تنقید بھی کرو۔

بہت خوب ماشاءاللہ
 
Top