وزیر مذہبی امور کی قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کی تردید

زیک

مسافر
ایک سادہ سی بات ہے کہ احمدی، قادیانی، مرزائی، لاہوری گروپ وغیرہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو "اصلی تے وڈے" مسلمان سمجھتے ہیں، دوسری طرف پاکستان کا آئین ان کو غیر مسلم یعنی ایک اقلیت قرار دیتا ہے اب اگر وہ کسی اقلیتی کمیشن کا بطور غیر مسلم اقلیت رکن بن جاتے ہیں تو یہ تو زیادہ اچھا ہے کہ وہ آئین پاکستان کے موافق اپنے آپ کو ایک غیر مسلم اقلیت مان لیں گے، تو اس میں مسلمانوں کو کیا اعتراض ہے؟
جواب اسی لڑی میں بین السطور موجود ہے بس ان مسلمانوں کو بھی اب اتنی تہذیب آ گئی ہے کہ کھلم کھلا ایسی باتیں کرنے کی بجائے اشاروں کنایوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ پولیٹکل کریکٹنیس بھی خوب چیز ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
ایک سادہ سی بات ہے کہ احمدی، قادیانی، مرزائی، لاہوری گروپ وغیرہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو "اصلی تے وڈے" مسلمان سمجھتے ہیں، دوسری طرف پاکستان کا آئین ان کو غیر مسلم یعنی ایک اقلیت قرار دیتا ہے اب اگر وہ کسی اقلیتی کمیشن کا بطور غیر مسلم اقلیت رکن بن جاتے ہیں تو یہ تو زیادہ اچھا ہے کہ وہ آئین پاکستان کے موافق اپنے آپ کو ایک غیر مسلم اقلیت مان لیں گے، تو اس میں مسلمانوں کو کیا اعتراض ہے؟
اعتراض ہونا یا نہ ہونا تو بعد کی بات ہے۔ حکومت کے نزدیک یہ موضوع زیر غور ہے ہی نہیں
وزیر مذہبی امور کی قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کی تردید
 

محمد وارث

لائبریرین
اعتراض ہونا یا نہ ہونا تو بعد کی بات ہے۔ حکومت کے نزدیک یہ موضوع زیر غور ہے ہی نہیں
وزیر مذہبی امور کی قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کی تردید
یہ بات نہ کریں کہ اعتراض نہیں ہے؟ اعتراض ہی تو ہے جس کی وجہ سے یہ سب شور مچایا جا رہا ہے!
یا
اگر اعتراض نہیں ہے تو کیا صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہو رہی ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ بات نہ کریں کہ اعتراض نہیں ہے؟ اعتراض ہی تو ہے جس کی وجہ سے یہ سب شور مچایا جا رہا ہے!
یا
اگر اعتراض نہیں ہے تو کیا صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہو رہی ہے؟
واضح بات یہ ہے کہ ایک گروہ کی لابنگ کی وجہ سے ایک سمری بنائی گئی اور حکومتی اتحادیوں نے اس کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا جس کی بنا پر حکومت نے تردید جاری کر دی۔ اب چوں کہ حکومت نے تردید جاری کر دی تو اس موضوع کو زیر بحث لانے والوں کی دلچسپی کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس موضوع پر عوام کی رائے جان سکیں۔ عوام کی رائے جاننے کی کیا ضرورت ہے حکومت سے پوچھ لیں کہ انہوں نے تردید کیوں کی ،سب بات واضح ہو جائے گی کہ عوامی امنگوں کے خلاف قانون سازی نہ نون لیگ کر سکی تھی اور نہ موجودہ تحریک انصاف حکومت کر پائے گی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جواب اسی لڑی میں بین السطور موجود ہے بس ان مسلمانوں کو بھی اب اتنی تہذیب آ گئی ہے کہ کھلم کھلا ایسی باتیں کرنے کی بجائے اشاروں کنایوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ پولیٹکل کریکٹنیس بھی خوب چیز ہے
عجب بات ہے خواہ مخواہ ایک نان ایشو کو ایشو بنایا ہوا ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں تو ہم نہیں مانتے اور اب اگر وہ بطور ایک اقلیت کسی کمیشن کا رکن بنتے ہیں تو ہم پھر بھی نہیں مانتے۔

میں خود اس کی وجہ سے بد مزگی کا شکار ہوا ہوں، میں دنیا میں ایک ہی واٹس ایپ گروپ کا رکن تھا وہ بھی میڑک کے دوستوں کا، وہاں بھی یہی اعتراض تھا اور اسی طرح کا مذہبی سیاسی خود ساختہ مسئلہ، بدمزا ہو کر گروپ ہی چھوڑ دیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
واضح بات یہ ہے کہ ایک گروہ کی لابنگ کی وجہ سے ایک سمری بنائی گئی اور حکومتی اتحادیوں نے اس کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا جس وجہ سے حکومت نے تردید جاری کر دی۔ اب چوں کہ حکومت نے تردید جاری کر دی تو اس موضوع کو زیر بحث لانے والوں کی دلچسپی کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس موضوع پر عوام کی رائے جان سکیں۔ عوام کی رائے جاننے کی کیا ضرورت ہے حکومت سے پوچھ لیں کہ انہوں نے تردید کیوں کی ،سب بات واضح ہو جائے گی کہ عوامی امنگوں کے خلاف قانون سازی نہ نون لیگ کر سکی تھی اور نہ تحریک انصاف حکومت کر پائے گی۔
سب سے بڑی پاکستانی اسلامی عوامی امنگ تو یہ ہے کہ احمدی قادیانی اپنے آپ کو غیر مسلم مان لیں سو اس طرح تو وہ مان لیں گے۔ مفروضات چھوڑیے، آپ اپنی عقل کی بتائیے کہ اس طرح بہتر نہیں کہ وہ خود کو غیر مسلم اقلیت مان لیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
قادیانیوں کے لیے صرف دو ہی راہیں ہیں۔ یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں اور الگ ہو جائیں یا ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑ کر اصل اصول کو اس کے پورے مفہوم کے ساتھ قبول کر لیں۔ ا ن کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقہ اسلام میں ہوتا رہے کہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔
(علامہ اقبال، بحوالہ فیضانِ اقبال از شورش کاشمیری)
 

جاسم محمد

محفلین
ایک سادہ سی بات ہے کہ احمدی، قادیانی، مرزائی، لاہوری گروپ وغیرہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو "اصلی تے وڈے" مسلمان سمجھتے ہیں، دوسری طرف پاکستان کا آئین ان کو غیر مسلم یعنی ایک اقلیت قرار دیتا ہے اب اگر وہ کسی اقلیتی کمیشن کا بطور غیر مسلم اقلیت رکن بن جاتے ہیں تو یہ تو زیادہ اچھا ہے کہ وہ آئین پاکستان کے موافق اپنے آپ کو ایک غیر مسلم اقلیت مان لیں گے، تو اس میں مسلمانوں کو کیا اعتراض ہے؟
مسلمانوں کی اکثریت کو قادیانیوں سے کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ شدید حد تک بغض، تعصب اور نفرت ہے۔ اور ان بیماریوں کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
جب وہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں تو ہم نہیں مانتے اور اب اگر وہ بطور ایک اقلیت کسی کمیشن کا رکن بنتے ہیں تو ہم پھر بھی نہیں مانتے۔
کیونکہ قوم کا قادیانیوں سے بے پناہ بغض، تعصب اور نفرت لا علاج عارضہ ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
قادیانیوں کے لیے صرف دو ہی راہیں ہیں۔ یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں اور الگ ہو جائیں یا ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑ کر اصل اصول کو اس کے پورے مفہوم کے ساتھ قبول کر لیں۔ ا ن کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقہ اسلام میں ہوتا رہے کہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔
(علامہ اقبال، بحوالہ فیضانِ اقبال از شورش کاشمیری)
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ آپ کے نزدیک جو خود کو مسلمان کہتا ہے کو کافر قرار دیے جانے کا اختیار کسی انسان کے پاس نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں آپ جیسے مولویوں کی شدید مخالفت کے باوجود چوہدری ظفراللہ خان قادیانی کو ملک کا پہلا وزیر خارجہ بنایا تھا۔ اور قائد اعظم کے جیتے جی کسی مولوی کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ ان کو اپنے عہدہ سے اینٹی قادیانی پراپگنڈہ کرکے ہٹا سکے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
قادیانیوں کے لیے صرف دو ہی راہیں ہیں۔ یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں اور الگ ہو جائیں یا ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑ کر اصل اصول کو اس کے پورے مفہوم کے ساتھ قبول کر لیں۔ ا ن کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقہ اسلام میں ہوتا رہے کہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔
(علامہ اقبال، بحوالہ فیضانِ اقبال از شورش کاشمیری)
اُف خدایا! احمدی پھر حکومت میں داخل ہو گئے
03/05/2020 ابو نائل



مشتاق یوسفی صاحب نے بیان فرمایا ہے کہ پرانے زمانے میں اگر کوئی مرغا بھی زنان خانے میں نکل آتا تھا تو شریف بیبیاں گھونگٹ نکال لیا کرتی تھیں۔ اب کسی مرغے کی آمد پر تو شاید یہ اہتمام نہ ہوتا ہو لیکن اگر کہیں یہ خبر نشر ہوجائے کہ کوئی احمدی کسی حکومتی کمیٹی کا رکن بننے والا ہے یا کسی عہدے پر مقرر ہونے والا ہے تو حکومت میں شامل احباب ضرور گھونگٹ نکال لیتے ہیں۔

چند روز قبل میڈیا پر یہ خبر نشر ہوئی کہ کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم نے ہدایت دی ہے کہ احمدیوں کو اقلیتوں کے قومی کمیشن میں نمائندگی دی جائے۔ اس خبر کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس سلسلہ میں احمدیوں [جنہیں عمومی طور پر ان کے مخالفین قادیانی کہتے ہیں ] کی طرف سے کوئی درخواست نہیں کی گئی تھی کہ انہیں اس کمیشن میں شامل کیا جائے۔ یہ قدم خود وزیر اعظم اور کابینہ کے بعض اراکین کی طرف سے اُٹھایا گیا تھا۔ لیکن یہ خبر نشر ہونے کی دیر تھی کہ حکومت میں شامل کئی احباب اور بعض صحافیوں پر ہیجانی کیفیت طاری ہو گئی اور بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ان بیانات میں ایک بات بار بار سننے کو مل رہی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کا آئین احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے لیکن احمدی اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں سمجھتے؟ اس طرح وہ پاکستان کے آئین سے غداری کر رہے ہیں۔ پہلے تو یہ دیکھتے ہیں کہ آئین کے جس حصہ کے بارے میں بحث ہو رہی ہے اس کے الفاظ کیا ہیں؟

آئین کے آرٹیکل 260 میں لکھا ہے

”دستور اور تمام وضع شدہ قوانین اور دیگر قانونی دستاویزات میں تا وقتیکہ موضوع یا سیاق و سباق میں کوئی امر اس کے منافی نہ ہو۔

اور پھران کے الفاظ کے بالکل نیچے لکھا ہے کہ قانونی طور پر صرف وہ شخص ”مسلمان“ شمار ہو سکتا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر مشروط طور پر آخری نبی مانتا ہو۔ اور غیر مسلم اقلیتوں میں احمدیوں کا نام بھی درج ہے۔

آئین کے اس حصے سے کوئی اختلاف کرے یا اس کی حمایت کرے لیکن اس میں صرف یہ لکھا ہے کہ ایسے شخص کو دستور اور قانون میں اور قانونی دستاویزات میں غیر مسلم لکھا جائے گا۔ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ ایسے شخص پر فرض ہے کہ وہ اپنے ذہن میں بھی اپنے آپ کو غیر مسلم سمجھے۔ کوئی ذی ہوش یہ نہیں کہہ سکتا کہ انسانی سوچ پر پابندی لگانے کے لئے بھی قانون سازی کی جا سکتی ہے۔

دوسری آئینی ترمیم کے ذریعہ احمدیوں کو آئین اور قانون کی اغراض کے لئے ”غیر مسلم“ قرار دیا گیا تھا۔ مجھے لگتا ہے جو صحافی حضرات اس کارروائی کا حوالہ دے رہے ہیں انہوں نے خود اس کارروائی کا مطالعہ نہیں کیا۔ اس موقع پر پاکستان کے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار صاحب نے جماعت احمدیہ کے وفد کو سربراہ کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ اگر یہ ترمیم کر دی جائے تو بھی:

” کوئی بھی آپ کو اس حق سے نہیں روکے گا کہ آپ جس مذہب سے چاہیں وابستہ ہونے کا اظہار کریں۔ کسی بھی مذہب پر عمل کریں۔ جو چاہیں محسوس کریں۔ آپ کو اپنی عبادت کرنے کی اجازت ہو گی۔ آپ کا اختیار ہوگا کہ اپنے آپ کو جس نام سے چاہیں پکاریں۔ خواہ اپنے آپ کو احمدی کہیں یا جو بھی چاہیں اپنے آپ کو نام دیں۔“

[ ترجمہ انگریزی عبارت۔ کارروائی سپیشل کمیٹی 1974 ص 129 و 130 ]

یہ الفاظ واضح ہیں اور قانون کی تشریح کرتے ہوئے اگر ابہام ہو یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ قانون بنانے والے ادارے کے ذہن میں اس قانون کا کیا مفہوم تھا۔

اگر کوئی شخص آئین کے کسی حصے سے اختلاف کرے تو وہ آئین کا باغی نہیں بن جاتا۔ مثال کے طور پر چند روز پہلے ہی بعض وزراء نے آئین کی اٹھارویں ترمیم کے بعض حصوں سے اختلاف کا اظہار کیا ہے اور ان کے نزدیک اس میں ترمیم ہونی چاہیے۔ اب کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ وزراء آئین کے باغی ہو گئے ہیں؟

اس خبر پرمختلف چینلز نے بھی تبصرہ کیا۔ 30 اپریل کو اے آر وائی چینل پر ایک پروگرام نشر ہوا۔ اس میں صابر شاکر صاحب بطور اینکر اور چوہدری غلام حسین صاحب بطور تجزیہ نگار شریک ہوئے۔ اسی خبر پر گفتگو ہو رہی تھی صابر شاکر صاحب نے انکشاف کیا کہ جب قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے کارروائی ہو رہی تھی تو آخر پر اٹارنی جنرل نے جماعت احمدیہ کے سربراہ سے سوال کیا کہ جو مسلمان مرزا غلام احمد احمدی کو مسیح موعود نہیں سمجھتے آپ انہیں کیا سمجھتے ہیں؟ اس پر جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد صاحب نے کہا کہ ہم تو انہیں غیر مسلم سمجھتے ہیں۔ اس جواب کو سن کر ممبران اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ چوہدری غلام حسین صاحب نے بھی اس بات کی تائید کی اور کہا کہ یہ کارروائی تو شائع شدہ ہے۔

انصاف کا تقاضا کہ کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے سے اس کارروائی سے معین حوالے درج کر دیے جائیں کہ جب اٹارنی جنرل نے یہ سوال کیا تھا تو جماعت احمدیہ کے سربراہ نے کیا جواب دیا تھا؟

یحییٰ بختیار صاحب نے 7 اگست 1974 کو جماعت ِ احمدیہ کے سربراہ سے سوال کیا کہ اگر ایک شخص بانی سلسلہ احمدیہ کے دعاوی کو تسلیم نہیں کرتا اس کو آپ کیا سمجھتے ہیں؟ قومی اسمبلی کی طرف سے جو کارروائی شائع کی گئی ہے، اس کے مطابق جماعت احمدیہ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار صاحب کو جواب دیا :

ِِ ”جو شخص حضرت مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتا لیکن وہ نبی ِ اکرم ﷺ حضرت خاتم الانبیاء کی طرف خود کو منسوب کرتا ہے اس کو کوئی شخص غیر مسلم کہہ ہی نہیں سکتا۔“

یحییٰ بختیار صاحب نے یہ سوال دہرایا تو امام جماعت ِ احمدیہ نے پھر یہ جواب دیا :

”میں تو یہ کہہ رہا ہوں Categoricallyہر شخص جو محمد ﷺ کی طرف خود کو منسوب کرتا ہے وہ مسلمان ہے۔ اور کسی دوسرے کو اس کا حق نہیں ہے کہ اس کو غیر مسلم قرار دے۔“

[کارروائی سپیشل کمیٹی 1974 ص 406 ]

اس سے قبل بھی اٹارنی جنرل صاحب نے اس قسم کے سوالات کیے تھے۔ اس پر جماعت احمدیہ کے سربراہ کی طرف سے یہ جوابات دیے گئے تھے

”ہاں جو کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں، اس کو مسلمان ہمیں کہنا پڑے گا۔“ [صفحہ 44 ]
6اگست کو ایک سوال کے جواب میں جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ جواب شائع شدہ کارروائی میں موجود ہے۔
”جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ مسلمان ہے۔“ [ صفحہ 240 ]

اس سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے دوران اس قسم کے مختلف فتوے پیش ہوئے جن میں مختلف فرقوں نے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے دیے تھے۔ ایک ممبر اسمبلی غلام رسول تارڑ صاحب نے گھبرا کر کہا کہ ان فتوؤں کا اچھا اثر نہیں ہوگا۔ ان کی تردید ہونی چاہیے۔ [ صفحہ 257 ] اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے جماعت احمدیہ کے سربراہ سے دریافت کیا پھر ان کا کیا مطلب ہوگا؟ اس پر جماعت احمدیہ کے سربراہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا کہ اگر کسی فرقہ نے دوسرے کلمہ گو فرقہ کو دائرہ اسلام سے خارج اور کافر بھی قرار دیا ہے تب بھی وہ فرقہ ملت اسلامیہ میں بہر حال شامل رہے گا اور اس فتوے کا مطلب صرف گنہگار ہونے کے سمجھے جائیں گے۔ [صفحہ 265 اور 405 ]

ملک کے نازک حالات کے پیش نظر وہ فتوے درج نہیں کیے جاتے لیکن بڑے احترام سے مکرم صابر شاکر صاحب اور چوہدری غلام حسین صاحب کی خدمت میں یہ سوالات پیش کیے جاتے ہیں۔

1۔ اس تحریر میں 1974 کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے جو حوالے پیش کیے گئے ہیں وہ درست ہیں کہ میں نے اپنی طرف سے یہ جعلی حوالے پیش کیے ہیں۔ اگر آپ قومی اسمبلی جا کر وہاں کے ریکارڈ سے تسلی کرنا چاہتے ہیں تو ان جلدوں کے حوالے نوٹ فرمالیں :

The Proceedings of the Special Committee of the Whole House Held in Camera To Consider Qadiani Issue. 5, 6, 7 August 1974

2۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ حوالے درست ہیں تو کیا ان سے آپ کی بیان کردہ تفصیلات کی تردید نہیں ہوتی؟

کورونا کی وبا اور دوسرے مسائل کی وجہ سے اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ سارا پاکستان متفق ہو کر ان مسائل کا سامنا کرتا۔ لیکن افسوس کچھ طبقات اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ چھیڑتے رہیں جس سے قوم میں اختلافات کی خلیج بڑھتی رہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
شعیب سڈل نے قومی اقلیتی کمیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
ویب ڈیسک جمعرات 7 مئ 2020
2039313-shoaibsuddlex-1588836053-178-640x480.jpg

وزارت مذہبی امور نے مشاورت کے بغیر اقلیتی کمیشن کی تشکیل کی سمری کابینہ کو بھجوادی، شعیب سڈل

اسلام آباد: وزارت مذہبی امور کے خلاف قومی اقلیتی کمیشن کی مجوزہ تشکیل پرسپریم کورٹ سے رجوع کر لیا گیا۔

شعیب سڈل کمیشن نے سپریم کورٹ میں قومی اقلیتی کمیشن کے مجوزہ قیام پر درخواست دائر کر دی جس میں کہا گیا کہ عدالت نے اقلیتی کونسل کے قیام کے فیصلہ پرعمل در آمد کے لیے شعیب سڈل کمیشن تشکیل دیا تھا تاہم وزارت مذہبی امور نے کمیشن سے مشاورت کے بغیر اقلیتی کمیشن کی تشکیل کی سمری کابینہ کو بھجوادی۔

شعیب سڈل نے کہا کہ وزارت مذہبی امور کی جانب سے اقلیتی کمیشن کی مجوزہ تشکیل عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے، وزارت کاتجویز کردہ اقلیتی کمیشن پاکستان کی بین الاقوامی یقین دہانیوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

درخواست میں کہا گیا کہ اقلیتی کمیشن پہلے سے وجود رکھتا تھا تو وزارت مذہبی امور نے عدالت کو آگاہ کیوں نہ کیا، قومی اقلیتی کمیشن کے وجود سے اقلیتی برادری بھی آگاہ نہیں۔

شعیب سڈل نے کہا کہ اقلیتی کونسل کے قیام کے لیے مجوزہ بل پر بھی وزارت مذہبی امور نے کوئی رائے نہیں دی، سیکرٹری وزارت مذہبی امور سے اقلیتی کونسل کے عدم قیام پر وضاحت طلب کی جائے، وزارت مذہبی امور کو عدالتی حکم کی روشنی میں اقلیتی کونسل کاقیام عمل میں لانے کا حکم دیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
قادیانیوں کے لیے صرف دو ہی راہیں ہیں۔ یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں اور الگ ہو جائیں یا ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑ کر اصل اصول کو اس کے پورے مفہوم کے ساتھ قبول کر لیں۔ ا ن کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقہ اسلام میں ہوتا رہے کہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔
(علامہ اقبال، بحوالہ فیضانِ اقبال از شورش کاشمیری)
پاکستان میں جماعتِ احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین کہتے ہیں کہ انھوں نے اقلیتی کمیشن میں شامل ہونے کی درخواست نہیں کی
ترہب اصغر بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
  • 11 مئ 2020
_112225637_e9a760ad-4ea3-4871-8dbb-7fdff2269d9e.jpg

پاکستان میں جماعت احمدیہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی کوئی ایسی درخواست نہیں کی کہ انھیں اقلیتی کمیشن میں شامل کیا جائے اور یہ کہ اس بحث سے متعلق حکومتی عہدیداروں کے بیانات سے انھیں مزید امتیازی سلوک اور نفرت کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

جماعت احمدیہ کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز قبل احمدی برادری کو اقلیتی کمشین میں شامل کرنے سے متعلق تجویز کابینہ کے ایک اجلاس میں سامنے آئی تھی۔

خیال رہے کہ پاکستان کے آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ جماعت احمدیہ کے ترجمان کے مطابق وہ آئینِ پاکستان اور اس میں دی گئی مذہبی آزادی کو تو مانتے ہیں لیکن اس میں خود کو غیر مسلم قرار دیے جانے کو تسلیم نہیں کرتے۔

احمدی برادری کا موقف
یہ معاملہ اس وقت زیر بحث آیا جب مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں سامنے آئیں کہ حکومت کی جانب سے احمدی برادری کو اقلیتی کمیشن میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

اس معاملے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان میں جماعتِ احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین کا کہنا تھا کہ 'ہم نے اس کمیشن میں شامل ہونے کی درخواست نہیں کی تھی اور اس معاملے پر نہ ہی حکومت کی جانب سے ہم سے رابطہ کیا گیا۔'

_112234859_gettyimages-101619509.jpg

تصویر کے کاپی رائٹ ARIF ALI

اقلیتی کمیشن میں شامل نہ کیے جانے پر وہ کہتے ہیں 'ہماری کوئی مرضی تھی نہ ہمیں اس کا افسوس ہے۔۔۔ کسی بھی ملک کی پارلیمان کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کے ایمان کا فیصلہ کریں کیونکہ یہ انسان اور اس کے خدا کا معاملہ ہے۔'

ان کے مطابق ملک میں اقلیتی کمیشن کی اتنی اہمیت اور اختیارات نہیں جتنے ہونے چاہییں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس آئینِ پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں جو مذہبی آزادی دیتا ہے لیکن اس میں ترامیم کر کے احمدی برادری کو اقلیت قرار دیے جانے کو تسلیم نہیں کرتے۔

'ہم لوگ اپنے آپ کو اقلیت تسیلم نہیں کرتے اور ہمیں پارلیمان نے ناجائز طور پر 1974 میں ترمیم کے ذریعے غیر مسلم قرار دیا۔'

وہ کہتے ہیں کہ 'ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ کابینہ کے اجلاس میں احمدیوں کے بارے میں کیا بات کی گئی اور پھر ٹیلی ویژن پر آکر وزیر نے کیا بات کی۔ اس سے انھیں تو کوئی فرق نہیں پڑا۔۔۔ ہمارے لوگ پہلے ہی غیر محفوظ ہیں اور اس معاملے کے بعد ہم مزید غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔'

وہ کہتے ہیں کہ 'ہمارے خلاف پہلے ہی نفرت اور اشتعال انگیزی پائی جاتی ہے اور حکومتی عہدیداروں کی ان باتوں کی وجہ سے ان کو مزید ہوا مل گئی ہے۔'

ان کے مطابق ایسے مسائل صرف سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے اٹھائے جاتے ہیں۔ 'آئین کی جس شق کے مطابق ہمیں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ہم (اقلیت ہونے کا) اعلان کریں۔ اس لیے ہم اس بات کو تسیلم ہی نہیں کرتے۔'

حکومت احمدی برادری کی رضا مندی یا پوچھے بغیر انھیں اقلیتی کمیشن میں شامل کر سکتی ہے؟
اس معاملے کے قانونی پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ اسد جمال کا کہنا ہے کہ 'آئین کا سب سے اعلیٰ اور بنیادی حصہ یہ ہے کہ سب سے پہلے پاکستان میں موجود ہر شخص کو اس کے بنیادی حقوق دیے جائیں۔

'حکومت کے چند وزرا نے کہا کہ وہ (احمدی) آئین کو نہیں مانتے، اس لیے انھیں وہ حقوق حاصل نہیں ہوں گے جو آئین کے تحت (اقلیتوں سمیت) تمام پاکستانیوں کو حاصل ہیں۔'

انھوں نے کہا کہ 'آئین کو نہ ماننے والے لوگوں کے بھی حقوق ہیں جو پورے کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی آئین کی شقوں سے اختلاف کرتا ہے تو پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں کہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔'

اسد جمال اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اقلیتی کمیشن کے پاس اتنے اختیارات نہیں ہیں۔

_112226855_90295eeb-82df-4814-a957-5bd1c71991b3.jpg

تصویر کے کاپی رائٹ Getty Images
Image caption تاریخ دان یعقوب بنگش کے مطابق پاکستان میں سنہ 1990 سے کئی ایڈ ہاک اقلیتی کمیشنز کام کر رہے تھے تاکہ غیر مسلم آبادی کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے

'جس اقلیتی کمیشن پر یہ ساری بحث کی جا رہی ہے، وہ ایک نام نہاد کمیشن ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور کمیشن صرف کاغذوں تک ہی محدود ہے۔ یہ کمیشن 1990 میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت بنا تھا۔۔۔ ان کی بات یا مسائل آگے وزارت مذہبی امور تک پہچانے کے لیے یہ کمیشن بنایا گیا تھا۔

'یہ قانونی بنیادوں پر بنا ہوا ادارہ نہیں ہے۔ انسانی حقوق کے قومی کمیشن کی قانونی حیثیت ہے لیکن اقلیتی کمیشن کی نہیں ہے۔'

انھوں نے بتایا کہ سنہ 2016 میں انسانی حقوق کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے تحت حکومتِ پاکستان نے اقوام متحدہ سے معاہدہ کیا تھا کہ اقلیتی کمیشن کو قانون کے تحت قائم کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

انھوں نے مزید کہا کہ 'اختلاف رائے کی آزادی، مذہبی آزادی اور ضمیر کی آزادی کا بنیادی حق جو آئین پاکستان ہر شہری کو دیتا ہے اس کی بنیاد پر احمدی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم صرف خود کو غیر مسلم قرار دینے والی شق کو نہیں مانتے اور باقی آئین کو مانتے ہیں۔ کیونکہ قانونی طور پر اس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔

'آئین کی شقوں پر بحث کی جاسکتی ہے۔ اصولی طور پر جب ریاست پاکستان انھیں غیر مسلم قرار دیتی ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ اقلیتوں سے جڑے ہر معاملے پر احمدیوں کو دعوت دیں۔‘

اسد جمال کے مطابق 'جہاں تک بات ہے کہ کیا قانونی طور پر حکومت انھیں خود سے ایسے کمیشن یا اقلیتوں میں شمار کر سکتی ہے، تو ابھی تک تو ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ لیکن اگر پارلیمان ایسا کوئی قانون منظور کرتی ہے تو پھر یہ کیا جا سکتا ہے، ورنہ نہیں۔'

اس معاملے پر صدر لاہور بار جی اے خان طارق نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا ہر شہری پابند ہے کہ وہ آئین کو مانے اور اس پر عمل کرے۔

وہ کہتے ہیں ’آئین پاکستان نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے اس لیے میرے خیال میں تو جو اقلتیوں کے حقوق ہیں وہ انھیں ملنے چاہییں لیکن اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بھی خود کو اقلیت مانیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور اپنے آپ کو اقلیت کے طور پر تسلیم نہیں کرتے تو وہ کیسے اقلتیوں کی کسی سیٹ پر آ سکتے ہیں۔

'احمدی آئین کی شق میں مذہبی آزادی کی بات کرتے ہیں ہے تو انھیں یہ بھی یاد ہونا چاہیے کہ جب انھیں غیر مسلم قرار دیا گیا تھا تو آئین میں ہی ان کی مذہبی رسومات کے حوالے سے کوڈ آف کنڈکٹ بھی بتایا گیا تھا۔ جس میں یہ باتیں شامل تھیں کہ یہ اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح کی گئی کہ ان کا عبادت کا طریقہ کار مسلمانوں سے ملتا جلتا ہوگا لیکن اس کے باوجود بھی یہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔'

انھوں نے مزید کہا کہ 'جب تک احمدی آئین کے مطابق اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں مانتے تب تک وہ کیسے اسی آئین کی حقوق مانگ سکتے ہیں۔'

'تاہم قانونی طور پر دیکھا جائے تو اگر کوئی بھی شخص جو آئین کو تسلیم نہیں کرتا تو اس کے خلاف فوجداری قوانین موجود ہیں اور آئین پاکستان میں بھی ایسے شخص کو غدار کہا گیا ہے جو آئین کی کسی بھی شق سے انکار کرتا ہے۔'

اقلیتی کمیشن کب اور کیوں بنایا گیا تھا؟
تاریخ دان یعقوب بنگش کے مطابق پاکستان میں سنہ 1990 سے کئی ایڈ ہاک اقلیتی کمیشنز کام کر رہے تھے تاکہ غیر مسلم آبادی کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔

اگر کسی اقلیت کو مسائل یا امتیازی سلوک کا سامنا ہے تو وہ اپنی شکایات لے کر اس کمیشن کے پاس آسکتی ہیں۔

تاہم اس اقلیتی کمیشن کے پاس اس بات کا اختیار موجود نہیں ہے کہ وہ اقلیتوں کے حوالے سے کوئی فیصلہ خود سے لے سکے۔ اگر انھیں اقلیتوں کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنا ہوگا تو وہ اپنی سفارشات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھجوائیں گے۔

اگر اقلیتوں کی طرف سے کوئی شکایت آتی ہے تو اس کے حل کے لیے بھی کمیشن کو پہلے متعلقہ محکمے کو بتانا ہوگا تاکہ اس کے حل کے لیے کوئی اقدام اٹھایا جا سکے۔ تاہم اس کمیشن کی کارکردگی، اختیارات، کام کے طریقہ کار اور اس کے وجود پر بہت سے لوگوں کو اب بھی اعتراضات ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
According to several accounts, Jinnah invited the Ahmadi leadership to migrate to Pakistan at the time of the partition and assured them of the protection of their rights as the citizens of the country. After taking over the post of governor general, Jinnah appointed Sir Zafarullah, an Ahmadi, to the post of foreign minister, clearly indicating that the founder of Pakistan considered a person’s faith their personal matter
The politicisation of the Ahmadi issue – Part 1
 
Top