حسان خان
لائبریرین
"نظم و نثر میں بیدل کی تقلید نے ہر جگہ سے زیادہ وسطی ایشیا میں رواج پایا تھا اور یہ سلسلہ بالشیوک انقلاب تک جاری رہا ہے۔ اس سرزمین کے بہت سے شاعروں نے بیدل کی تقلید کی ہے، لیکن حتیٰ اُن میں سے سب سے اعلیٰ شعراء بھی اپنے ہنر کو اس نازک خیال شاعر کی سطح تک نہ پہنچا سکے۔ بیدل نے اپنے اسلوب کی اس خصوصیت کو درست درک کرتے ہوئے شعرِ ذیل کہا تھا:
مدعی، درگذر از دعویِ طرزِ بیدل!
سحر مشکل، کہ بہ کیفیتِ اعجاز رسد
بیدل کے مقلدوں میں سے بعض شعراء اپنے ہنر کو بھلے درجۂ 'سحر' تک پہنچا پائے ہوں، لیکن اُن کے اوپر بیدل کے آثار نے اپنے اعجازی رتبے کو قائم رکھا۔
بیدل کے پیروؤں کی ایک بڑی کمی یہ تھی کہ اُنہوں نے بیدل کی محض شکل اور اسلوب میں تقلید کی ہے، اور بیدل کے شعروں کے مضامین میں سے تنہا تصوف کو اپنا سرمشق قرار دیا ہے، لیکن بیدل کے فلسفی، اجتماعی اور سیاسی مضامین کو وہ سمجھ نہیں سکے یا پھر وہ سمجھنا نہیں چاہتے تھے۔ حالانکہ بیدل کی آخری تالیفات میں تصوف ایک ضمنی مضمون تھا، اور اُس کا حقیقی مقصد، جیسا کہ اُس کی تالیفات کی تحلیل میں بیان کیا گیا ہے، فلسفی اور اجتماعی مسائل تھے۔
بیدل کی طرز اور اسلوب اپنی دشوار فہمی کے سبب زیادہ عام ہونے کی قابلیت نہیں رکھتے تھے اور زیادہ عام بھی نہ ہوئے۔ اس بنا پر، بیدل کے اسلوب کی کامیابی سے تقلید کرتے ہوئے شاعری کے اچھے نمونے پیش کرنے والے بعض شاعر بھی آخر میں اس راہ سے لوٹ کر اپنے آثار کو عام فہم بنانے کی کوشش کرنے لگے۔
وسطی ایشیا کے تاجک شاعروں میں بطورِ مثال صریر، سیرت، عیسیٰ بخارائی، اسیری خجندی اور جوہری اوراتپگی نے بیدل کی کامیابی سے تقلید کی ہے۔
بخارا کے اُنیسویں صدی کے مصنف اور شاعرِ متفکر احمد دانش (سالِ وفات: ۱۸۹۷ء) بیدل کو بہت پسند کرتے تھے اور وہ بیدل کی بعض دشوار فہم چیزوں کی تشریح کیا کرتے تھے۔ لیکن وہ خود، نہ نظم میں اور نہ نثر میں، بیدل کے اسلوب کی تقلید نہیں کرتے تھے اور اپنے ہم صحبتوں کو بیدل کی تقلید سے منع کرتے تھے اور مذاق میں کہا کرتے تھے کہ "بیدل پیغمبر ہے، معجزے کو پیغمبر کے ہاتھوں ہی میں رہنا چاہیے۔ تم ولی بن کر کرامات ہی دکھا دو، اسی سے کام چل جائے گا۔"
شاید اسی طرح کی باتوں کا اثر تھا کہ اُوپر ذکر کیے گئے شاعروں صریر، سیرت اور عیسیٰ نے اپنی جوانی کو بیدل کی تقلید میں گذارنے کے بعد، پیری میں اپنی شاعری کو سادہ کر دیا۔
تاجک شاعر نقیب خان طغرل زحمت آبادی نے بھی بیدل کے اسلوب کی تقلید کی ہے، اور بیدل کی چند زمینوں میں غزلیں کہی ہیں۔ بیدل کی تقلید میں اس قدر کامیابی حاصل نہ کرنے کے باوجود اُنہوں نے اس روش کو اپنی عمر کے اختتام (۱۹۱۹ء) تک جاری رکھا۔
شاعرانِ تاجک میں بیدل کے پیروؤں کے آخری اہم نمائندے ظفر خان جوہری اوراتپگی تھے، جن کی تاریخِ وفات ۱۶ فروری ۱۹۴۵ء ہے۔ جوہری نے اپنی غنائی غزلوں اور نظموں میں بیدل کی کامیابی سے تقلید کی ہے۔ بالشیوک انقلاب کے بعد، خصوصاً تاجک شوروی جمہوریہ کے قیام کے بعد، اگرچہ اُنہوں نے، طرز اور مضامین کے لحاظ سے بطور ایک شوروی شاعر، بہت سی عام فہم شاعری کہی، لیکن اپنی غنائی نظموں میں وہ آخرِ عمر تک بیدل کی پیروی پر ثابت قدم رہے۔
وسطی ایشیا کے عام لوگوں کے درمیان، خصوصاً تاجکوں اور ازبکوں کے درمیان، بیدل بڑی شہرت کا حامل ہے۔ اُس وقت سے کہ جب اُس کی تالیفات کے قلمی نسخے اس سرزمین میں وارد ہوئے تھے، اُس کی منتخب غزلیات و رباعیات قدیم ابتدائی مکاتب کے نصاب میں شامل ہو گئی تھیں۔ قدیم مکاتب میں قرآن اور دینی دروس کے بعد فارسی ادب میں پہلے خواجہ حافظ اور پھر میرزا بیدل کو پڑھاتے تھے۔ مکاتب میں اُس کے دیوان کے منتخب حصے کو اُسی کے اپنے رسمِ خط، یعنی خطِ شکستۂ بیدلی میں پڑھا کر بچوں کو اس قسم کا خط پڑھ پانے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ خورد سال طالب علموں کو بیدل کے دشوار فہم اشعار یاد کرانا ایک بے فائدہ کوشش تھی۔
بخارا، سمرقند اور خجند کے مدرسوں میں بیدل دوست اشتیاق مندوں کا ایک علیحدہ حلقہ تشکیل دے کر اور کسی بیدل شناس شخص کے اطراف میں جمع ہو کر شب ہائے تعطیل میں بیدل خوانی کی جاتی تھی۔
شہرِ خجند کے حتیٰ چائے خانوں میں بیدل کی کلیات اور دیوانِ غزلیات پائے جاتے تھے۔ بیدل کو دوست رکھنے والے خواندہ افراد چائے نوشی کے دوران بیدل خوانی کرتے تھے جبکہ ناخواندہ افراد اُنہیں سن کر اپنی فہم کے مطابق فائدہ حاصل کرتے تھے۔
ہم نے اس مجموعے میں جو غزلیں درج کی ہیں، اُن میں سے بیشتر وہ غزلیں ہیں کہ جنہیں عوامی گلوکار حفظ کر کے گایا کرتے تھے اور اب تک گاتے ہیں، اور اُنہی کے واسطے سے یہ غزلیں عوام الناس کی یادداشت میں ثبت ہو چکی ہیں۔"
(صدرالدین عینی کی کتاب 'میرزا عبدالقادرِ بیدل' سے ماخوذ اور ترجمہ شدہ)
مدعی، درگذر از دعویِ طرزِ بیدل!
سحر مشکل، کہ بہ کیفیتِ اعجاز رسد
بیدل کے مقلدوں میں سے بعض شعراء اپنے ہنر کو بھلے درجۂ 'سحر' تک پہنچا پائے ہوں، لیکن اُن کے اوپر بیدل کے آثار نے اپنے اعجازی رتبے کو قائم رکھا۔
بیدل کے پیروؤں کی ایک بڑی کمی یہ تھی کہ اُنہوں نے بیدل کی محض شکل اور اسلوب میں تقلید کی ہے، اور بیدل کے شعروں کے مضامین میں سے تنہا تصوف کو اپنا سرمشق قرار دیا ہے، لیکن بیدل کے فلسفی، اجتماعی اور سیاسی مضامین کو وہ سمجھ نہیں سکے یا پھر وہ سمجھنا نہیں چاہتے تھے۔ حالانکہ بیدل کی آخری تالیفات میں تصوف ایک ضمنی مضمون تھا، اور اُس کا حقیقی مقصد، جیسا کہ اُس کی تالیفات کی تحلیل میں بیان کیا گیا ہے، فلسفی اور اجتماعی مسائل تھے۔
بیدل کی طرز اور اسلوب اپنی دشوار فہمی کے سبب زیادہ عام ہونے کی قابلیت نہیں رکھتے تھے اور زیادہ عام بھی نہ ہوئے۔ اس بنا پر، بیدل کے اسلوب کی کامیابی سے تقلید کرتے ہوئے شاعری کے اچھے نمونے پیش کرنے والے بعض شاعر بھی آخر میں اس راہ سے لوٹ کر اپنے آثار کو عام فہم بنانے کی کوشش کرنے لگے۔
وسطی ایشیا کے تاجک شاعروں میں بطورِ مثال صریر، سیرت، عیسیٰ بخارائی، اسیری خجندی اور جوہری اوراتپگی نے بیدل کی کامیابی سے تقلید کی ہے۔
بخارا کے اُنیسویں صدی کے مصنف اور شاعرِ متفکر احمد دانش (سالِ وفات: ۱۸۹۷ء) بیدل کو بہت پسند کرتے تھے اور وہ بیدل کی بعض دشوار فہم چیزوں کی تشریح کیا کرتے تھے۔ لیکن وہ خود، نہ نظم میں اور نہ نثر میں، بیدل کے اسلوب کی تقلید نہیں کرتے تھے اور اپنے ہم صحبتوں کو بیدل کی تقلید سے منع کرتے تھے اور مذاق میں کہا کرتے تھے کہ "بیدل پیغمبر ہے، معجزے کو پیغمبر کے ہاتھوں ہی میں رہنا چاہیے۔ تم ولی بن کر کرامات ہی دکھا دو، اسی سے کام چل جائے گا۔"
شاید اسی طرح کی باتوں کا اثر تھا کہ اُوپر ذکر کیے گئے شاعروں صریر، سیرت اور عیسیٰ نے اپنی جوانی کو بیدل کی تقلید میں گذارنے کے بعد، پیری میں اپنی شاعری کو سادہ کر دیا۔
تاجک شاعر نقیب خان طغرل زحمت آبادی نے بھی بیدل کے اسلوب کی تقلید کی ہے، اور بیدل کی چند زمینوں میں غزلیں کہی ہیں۔ بیدل کی تقلید میں اس قدر کامیابی حاصل نہ کرنے کے باوجود اُنہوں نے اس روش کو اپنی عمر کے اختتام (۱۹۱۹ء) تک جاری رکھا۔
شاعرانِ تاجک میں بیدل کے پیروؤں کے آخری اہم نمائندے ظفر خان جوہری اوراتپگی تھے، جن کی تاریخِ وفات ۱۶ فروری ۱۹۴۵ء ہے۔ جوہری نے اپنی غنائی غزلوں اور نظموں میں بیدل کی کامیابی سے تقلید کی ہے۔ بالشیوک انقلاب کے بعد، خصوصاً تاجک شوروی جمہوریہ کے قیام کے بعد، اگرچہ اُنہوں نے، طرز اور مضامین کے لحاظ سے بطور ایک شوروی شاعر، بہت سی عام فہم شاعری کہی، لیکن اپنی غنائی نظموں میں وہ آخرِ عمر تک بیدل کی پیروی پر ثابت قدم رہے۔
وسطی ایشیا کے عام لوگوں کے درمیان، خصوصاً تاجکوں اور ازبکوں کے درمیان، بیدل بڑی شہرت کا حامل ہے۔ اُس وقت سے کہ جب اُس کی تالیفات کے قلمی نسخے اس سرزمین میں وارد ہوئے تھے، اُس کی منتخب غزلیات و رباعیات قدیم ابتدائی مکاتب کے نصاب میں شامل ہو گئی تھیں۔ قدیم مکاتب میں قرآن اور دینی دروس کے بعد فارسی ادب میں پہلے خواجہ حافظ اور پھر میرزا بیدل کو پڑھاتے تھے۔ مکاتب میں اُس کے دیوان کے منتخب حصے کو اُسی کے اپنے رسمِ خط، یعنی خطِ شکستۂ بیدلی میں پڑھا کر بچوں کو اس قسم کا خط پڑھ پانے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ خورد سال طالب علموں کو بیدل کے دشوار فہم اشعار یاد کرانا ایک بے فائدہ کوشش تھی۔
بخارا، سمرقند اور خجند کے مدرسوں میں بیدل دوست اشتیاق مندوں کا ایک علیحدہ حلقہ تشکیل دے کر اور کسی بیدل شناس شخص کے اطراف میں جمع ہو کر شب ہائے تعطیل میں بیدل خوانی کی جاتی تھی۔
شہرِ خجند کے حتیٰ چائے خانوں میں بیدل کی کلیات اور دیوانِ غزلیات پائے جاتے تھے۔ بیدل کو دوست رکھنے والے خواندہ افراد چائے نوشی کے دوران بیدل خوانی کرتے تھے جبکہ ناخواندہ افراد اُنہیں سن کر اپنی فہم کے مطابق فائدہ حاصل کرتے تھے۔
ہم نے اس مجموعے میں جو غزلیں درج کی ہیں، اُن میں سے بیشتر وہ غزلیں ہیں کہ جنہیں عوامی گلوکار حفظ کر کے گایا کرتے تھے اور اب تک گاتے ہیں، اور اُنہی کے واسطے سے یہ غزلیں عوام الناس کی یادداشت میں ثبت ہو چکی ہیں۔"
(صدرالدین عینی کی کتاب 'میرزا عبدالقادرِ بیدل' سے ماخوذ اور ترجمہ شدہ)
آخری تدوین: