وسعتِ دہر میں امکاں ہے کہیں کھو جائیں ... اصلاح طلب

زنیرہ عقیل

محفلین
وسعتِ دہر میں امکاں ہے کہیں کھو جائیں
یا تو ہم خاک کے بستر میں کہیں سو جائیں
زلف و رخسار سنورنے سے ہمیں کیا حاصل
مقصدِ زیست کو اپنائیں اور اس کے ہو جائیں
مرقدِ زیست پر آئیں تو شاید یاد آئے
اپنے ہاتھوں پہ لگے خون کو ہی دھو جائیں
اپنی فطرت میں نہ شوخی و نہ طراری ہے
کیسے اب ہم نمودی اور تصنع خو ہو جائیں
کیوں سن و سال گزارے نہ قرینے سے گل
آب ِگریہ سے گلستان کو ہی بھگو جائیں

زنیرہ گل
 

الف عین

لائبریرین
زیادہ تر مصرعے بحر سے خارج ہیں
تقطیع کیجئے
صرف تین مصرعے خارج از بحر ہیں

مرقدِ زیست پر آئیں تو شاید یاد آئے
کیسے اب ہم نمودی اور تصنع خو ہو جائیں
اور
آب ِگریہ سے گلستان کو ہی بھگو جائیں

اب مکمل غزل
وسعتِ دہر میں امکاں ہے کہیں کھو جائیں
یا تو ہم خاک کے بستر میں کہیں سو جائیں
.. درست اگرچہ واضح نہیں

زلف و رخسار سنورنے سے ہمیں کیا حاصل
مقصدِ زیست کو اپنائیں اور اس کے ہو جائیں
.... سنورنے میں بات واضح نہیں ہوتی اور رخسار سنوارنا محاورے کے خلاف ہے۔ یوں کہیں
اپنی ہی زلف سنواریں تو ہمیں کیا حاصل

مرقدِ زیست پر آئیں تو شاید یاد آئے
اپنے ہاتھوں پہ لگے خون کو ہی دھو جائیں
... مرقد زیست سمجھ نہیں سکا پہلا مصرع اس طرح بحر میں درست ہو گا

مرقدِ زیست پر آئیں تو مبادا یاد آئے

اپنی فطرت میں نہ شوخی و نہ طراری ہے
کیسے اب ہم نمودی اور تصنع خو ہو جائیں
.. ثانی مصرع موزوں نہیں
پہلے مصرع کی رواں صورت
اپنی فطرت میں نہ شوخی ہے نہ طراری ہے
میں اکثر سوچتا ہوں کہ سامنے کے رواں مصرعے لوگوں کو کیوں نہیں سوجھتے! ساحر کے گیت کا مصرع یاد آ گیا
راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے

کیوں سن و سال گزارے نہ قرینے سے گل
آب ِگریہ سے گلستان کو ہی بھگو جائیں
... بھگو تو قافیہ ہو ہی نہیں سکتا
 

الف عین

لائبریرین
عزیزہ زنیرہ کے لیے
بحر ہے
فاعلاتن فعِلاتن فَعِلاتن فعلن
اس بحر میں 'جائیں' مکمل فعلن کے مساوی ہے لیکن
مقصدِ زیست کو اپنائیں اور اس کے ہو جائیں
کا 'ہو جا' فعلن کے مساوی ہے، اور اس کو فعلان کی اجازت کی وجہ سے 'ئیں' فعلان کے نون کے مساوی ہو جاتا ہے ۔ جب کہ زمین میں ایسا نہیں
 

زنیرہ عقیل

محفلین
وسعتِ دہر میں امکاں ہے کہیں کھو جائیں
یا تو ہم خاک کے بستر میں کہیں سو جائیں
اپنی ہی زلف سنواریں تو ہمیں کیا حاصل
مقصدِ زیست اپنائیں اور اس کے ہو جائیں
مرقدِ زیست پر آئیں تو مبادا یاد آئے
اپنے ہاتھوں پہ لگے خون کو ہی دھو جائیں
اپنی فطرت میں نہ شوخی و نہ طراری ہے
کس طرح اب یہ نمائش کی نظر ہو جائیں
کیوں سن و سال گزارے نہ قرینے سے گل
آب ِگریہ سے گلستان کو ہی دھوجائیں

زنیرہ گل
 

الف عین

لائبریرین
مقصدِ زیست اپنائیں اور اس کے ہو جائیں
زنیرہ عقیل نے بات سمجھی نہیں شاید
مقصدِ زیست کو اپنائیں اور اس ہو جائیں
اس زمین میں آ سکتا ہے جو بے معنی ہے
اور
اپنی فطرت میں نہ شوخی و نہ طراری ہے
کس طرح اب یہ نمائش کی نظر ہو جائیں
زنیرہ نے دیکھا نہیں کہ میں نے اوپر کیا لکھا ہے!
دوسرا مصرع سمجھ نہیں سکا، شک ہے کہ شاید یہ نذر ہے، نظر نہیں ۔ لیکن تلفظ نظر کا ہے کہ نذر میں ذ پر جزم ہے۔ پھر 'یہ' کی ضمیر کس طرف اشارہ کر رہی ہے؟
مقطع وزن کے لحاظ سے درست ہے لیکن مفہوم واضح نہیں ہوتا
 

زنیرہ عقیل

محفلین
وسعتِ دہر میں امکاں ہے کہیں کھو جائیں
یا تو ہم خاک کے بستر میں کہیں سو جائیں
اپنی ہی زلف سنواریں تو ہمیں کیا حاصل
زندگی کا جو ہے مقصد اسی کے ہو جائیں
مرقدِ زیست پر آئیں تو مبادا یاد آئے
اپنے ہاتھوں پہ لگے خون کو ہی دھو جائیں
اپنی فطرت میں نہ شوخی و نہ طراری ہے
کس طرح ہم بھی نمائش کی نذر ہو جائیں
کیوں سن و سال گزارے نہ قرینے سے گل
آب ِگریہ سے گلستان کو ہی دھوجائیں

زنیرہ گل
 
Top