زنیرہ عقیل
محفلین
وسعتِ دہر میں امکاں ہے کہیں کھو جائیں
یا تو ہم خاک کے بستر میں کہیں سو جائیں
زلف و رخسار سنورنے سے ہمیں کیا حاصل
مقصدِ زیست کو اپنائیں اور اس کے ہو جائیں
مرقدِ زیست پر آئیں تو شاید یاد آئے
اپنے ہاتھوں پہ لگے خون کو ہی دھو جائیں
اپنی فطرت میں نہ شوخی و نہ طراری ہے
کیسے اب ہم نمودی اور تصنع خو ہو جائیں
کیوں سن و سال گزارے نہ قرینے سے گل
آب ِگریہ سے گلستان کو ہی بھگو جائیں
زنیرہ گل
یا تو ہم خاک کے بستر میں کہیں سو جائیں
زلف و رخسار سنورنے سے ہمیں کیا حاصل
مقصدِ زیست کو اپنائیں اور اس کے ہو جائیں
مرقدِ زیست پر آئیں تو شاید یاد آئے
اپنے ہاتھوں پہ لگے خون کو ہی دھو جائیں
اپنی فطرت میں نہ شوخی و نہ طراری ہے
کیسے اب ہم نمودی اور تصنع خو ہو جائیں
کیوں سن و سال گزارے نہ قرینے سے گل
آب ِگریہ سے گلستان کو ہی بھگو جائیں
زنیرہ گل