مغزل
محفلین
غزل
وسوسے جب بھی مرے د ل کو ڈرانے لگ جائیں
میری آنکھیں مجھے پھر خوا ب دکھانے لگ جائیں
اک ترے درد کی دولت ہی بہت ہے مجھ کو
میں نے کب چاہا مرے ہاتھ خزانے لگ جائیں
قصؑہِ درد سنا تم نے بہ اندازِ دگر
ورنہ پتھر جوسنیں اشک بہانے لگ جائیں
اپنے گھر میں رہو تم ہم چلے صحرا کی طرف
تم بھی آباد رہو ہم بھی ٹھکانے لگ جائیں
یوں نہ ہو اٹھ کے چلے جائیں تری بزم سے ہم
اور پھر لوٹ کے آنے میں زمانے لگ جائیں
باپ کے دردِ مشقّت کو بھلا دیتے ہیں
ماں کے ہوجاتے ہیں جب بیٹے کمانے لگ جائیں
جب خرد کھینچ کے لے جائے حقیقت کے قریب
کیوں حقیقت سے سبھی آنکھ چرانے لگ جائیں
سفرِ زیست میں مطلوب ہدف پر اختر
خوش نصیبی ہے اگر ٹھیک نشانے لگ جائیں
اختر عبدالرزاق (کراچی)
وسوسے جب بھی مرے د ل کو ڈرانے لگ جائیں
میری آنکھیں مجھے پھر خوا ب دکھانے لگ جائیں
اک ترے درد کی دولت ہی بہت ہے مجھ کو
میں نے کب چاہا مرے ہاتھ خزانے لگ جائیں
قصؑہِ درد سنا تم نے بہ اندازِ دگر
ورنہ پتھر جوسنیں اشک بہانے لگ جائیں
اپنے گھر میں رہو تم ہم چلے صحرا کی طرف
تم بھی آباد رہو ہم بھی ٹھکانے لگ جائیں
یوں نہ ہو اٹھ کے چلے جائیں تری بزم سے ہم
اور پھر لوٹ کے آنے میں زمانے لگ جائیں
باپ کے دردِ مشقّت کو بھلا دیتے ہیں
ماں کے ہوجاتے ہیں جب بیٹے کمانے لگ جائیں
جب خرد کھینچ کے لے جائے حقیقت کے قریب
کیوں حقیقت سے سبھی آنکھ چرانے لگ جائیں
سفرِ زیست میں مطلوب ہدف پر اختر
خوش نصیبی ہے اگر ٹھیک نشانے لگ جائیں
اختر عبدالرزاق (کراچی)