فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
ڈبليو – ايم – ڈی ايشو کے حوالے سے امريکی حکومت کا موقف ميں پہلے بھی اس فورم پر پيش کيا جا چکا ہے۔
اس حوالے سے يہ اضافہ بھی ضروری ہے کہ اگر سال 2003 ميں امريکی حملے سے پہلے عراق کی صورت حال اور اس پر عالمی رائے عامہ کا جائزہ ليں تو يہ واضح ہے کہ عالمی برداری اور بالخصوص امريکہ پر صدام حسين کی جانب سے عراقی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموشی اور مناسب کاروائ نہ کرنے پر مسلسل شديد تنقيد کی جاتی رہی ہے۔ کئ غير جانب دار تنظيموں کی جانب سے ايسی بے شمار رپورٹس ريکارڈ پر موجود ہيں جن ميں عراقی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستانيں رقم ہیں۔
جب ڈبليو – ايم – ڈی کا معاملہ دنيا کے سامنے آيا تو صدام حسين نے اس ضمن ميں تعاون اور عالمی برداری کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دينے سے صاف انکار کر ديا۔ يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ 911 کے واقعات کے بعد کسی بڑی دہشت گردی کی کاروائ کوئ غير حقيقی يا ناقابل يقين بات نہيں تھی۔
يہ درست ہے کہ امريکہ کی جانب سے عراق ميں کاروائ کی بڑی وجہ ڈبليو – ايم – ڈی ايشو کے حوالے سے امريکہ کے تحفظات تھے۔ يہ بھی درست ہے کہ ڈبليو – ايم – ڈی کے حوالے سے انٹيلی جينس غلط ثابت ہوئ۔ ليکن انٹيلی جينس رپورٹس کی ناکامی کسی بھی صورت ميں صدام حسين کو "معصوم" ثابت نہيں کرتيں۔ صدام حسين ايک ظالم حکمران تھا جس کی حکومت عراق کے ہمسايہ ممالک سميت خود عراق کے اندر بے شمار انسانوں کی موت کا سبب بنی۔
امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے جانے والے سارے فيصلے مکمل اور غلطيوں سے پاک نہيں ہيں اور نہ ہی امريکی حکومت نے يہ دعوی کيا ہے کہ امريکہ کی خارجہ پاليسی 100 فيصد درست ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ عراق ميں مہلک ہتھياروں کے ذخيرے کی موجودگی کے حوالے سے ماہرين کے تجزيات غلط ثابت ہوئے۔ اور اس حوالے سے امريکی حکومت نے حقيقت کو چھپانے کی کوئ کوشش نہيں کی۔ بلکل اسی طرح اور بھی کئ مثاليں دی جا سکتی ہيں جب امريکی حکومت نے پبلک فورمز پر اپنی پاليسيوں کا ازسرنو جائزہ لينے ميں کبھی قباحت کا مظاہرہ نہيں کيا۔
اس ايشو کے حوالے سے امريکی حکومت کے علاوہ ديگر ممالک کو جو مسلسل رپورٹس ملی تھيں اس ميں اس بات کے واضح اشارے تھے کہ صدام حسين مہلک ہتھياروں کی تياری کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے صدام حسين کا ماضی کا ريکارڈ بھی امريکی حکام کے خدشات ميں اضافہ کر رہا تھا۔ نجف، ہلہ،ہلاجہ اور سليمانيہ ميں صدام کے ہاتھوں کيميائ ہتھیاروں کے ذريعے ہزاروں عراقيوں کا قتل اور 1991 ميں کويت پر عراقی قبضے سے يہ بات ثابت تھی کہ اگر صدام حسين کی دسترس ميں مہلک ہتھياروں کا ذخيرہ آگيا تواس کے ظلم کی داستان مزيد طويل ہو جائے گی۔ خود صدام حسين کی جانب سے مہلک ہتھياروں کو استعمال کرنے کی دھمکی ريکارڈ پر موجود ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ اور ديگر ممالک کے خدشات ميں مزيد اضافہ ہو گيا۔
سال 1995
ميں جب صدام حسين کے داماد حسين کمل نے عراق سے بھاگ کرجارڈن ميں پناہ لی تو انھوں نے بھی صدام حسين کے نيوکلير اور کيميائ ہتھياروں کے حصول کے ليے منصوبوں سے حکام کو آگاہ کيا۔ 2003 ميں امريکی حملے سے قبل اقوام متحدہ کی سيکيورٹی کونسل عراق کو مہلک ہتھياروں کی تياری سے روکنے کے ليے اپنی کوششوں کا آغاز کر چکی تھی۔
يہی وجہ ہے کہ جب اقوام متحدہ کئ تحقيقی ٹيموں کو عراق ميں داخلے سے روک ديا گيا تو نہ صرف امريکہ بلکہ کئ انٹرنيشنل ٹيموں کی يہ مشترکہ رپورٹ تھی کہ صدام حکومت کا وجود علاقے کے امن کے ليے خطرہ ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu