"وعدہ خِلاف"

سید فصیح احمد

لائبریرین
بھئی ہمارے بہن بھائی اور نیرنگے یار لوگ جن کے پلے کچھ کچھ پڑا اور کچھ کچھ وہ میرے پیچھے وضو کر کے پڑ گئے ان کے لیئے وہ مرکزی خیال لکھتا ہوں جس کی وجہ سے یہ اظہاریہ لکھا۔

مذکور ٹکڑے میں میں نے انسانوں کے مابین پروان چڑھتی اس غیر فطری خصلت کو بیان کرنا چاہا جو کسی منہ زور جنگلی گھوڑے کی طرح ہمارے معاشرے میں دوڑتی پھرتی ہے۔ وعدہ خلافی کہہ لیں یا خود غرضی کی کوئی شکل۔ اور اس کی پہنچ فقط عشقِ مجازی تک نہیں بلکہ اس سے آگے تمام رشتوں تک ہے۔ ہم تب تک وفادار ہوتے ہیں جب تک احساس ہمارے حِدت بھرے بدن میں دہکتا ہے۔ وقت کے ساتھ پھر ہم اس احساس کو بھول جاتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں۔ اس ٹکڑے میں ایسے شخص کا ذکر ہے جس نے بالکل ایسا ہی کیا۔ اس نے بہت سے وعدے کیے۔ پھر انہیں بھلا دیا۔ مگر دوسروں کی نسبت شاید یہ شخص قدرے حساس تھا تو اسے محسوس ہو گیا کہ وہ ان عہد و پیمان کو بھول رہا ہے۔ شاید کہیں بیٹھے بیٹھے اسے ماضی کی کوئی یاد آئی مگر وہ بہت دھندلی تھی! پھر اس نے ان وعدوں کو دوبارہ سے یاد کرنے کا راستہ نکالا۔ اس نے دوسرے شخص کی عادات کے خلاف کام کرنے شروع کیئے۔ یوں جب بھی کوئی وعدہ ٹوٹتا ، مثلاً " مجھ سے وعدہ کرو تم وقت پر کھانا کھاؤ گے " اور پھر بھوک کی حالت میں اسے یاد آتا کہ ہاں! میں نے وقت پر کھانے کا وعدہ کیا تھا۔ تو وہ ایک یاداشت میں اسے لکھ لیتا یوں اس نے ان سب وعدوں کو یاد کر کے ایک یاداشت بنا لی۔ مگر عجیب بات ہے نا؟ اس نے صرف یاداشت بنائی! کیا اسے پھر سے بھول جانے کا ڈر تھا؟ یعنی اسے اپنی بے حسی کا علم تھا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم سب جانتے ہیں کہ ہم بے حس ہوتے جا رہے ہیں مگر اس کا کوئی سدباب نہیں کر رہے؟
بس اتنی سی بات کہنی تھی :) :)
 
آخری تدوین:

عبد الرحمن

لائبریرین
بھئی ہمارے بہن بھائی اور نیرنگے یار لوگ جن کے پلے کچھ کچھ پڑا اور کچھ کچھ وہ میرے پیچھے وضو کر کے پڑ گئے ان کے لیئے وہ مرکزی خیال لکھتا ہوں جس کی وجہ سے یہ اظہاریہ لکھا۔

مذکور ٹکڑے میں میں نے انسانوں کے مابین پروان چڑھتی اس غیر فطری خصلت کو بیان کرنا چاہا جو کسی منہ زور جنگلی گھوڑے کی طرح ہمارے معاشرے میں دوڑتی پھرتی ہے۔ وعدہ خلافی کہہ لیں یا خود غرضی کی کوئی شکل۔ اور اس کی پہنچ فقط عشقِ مجازی تک نہیں بلکہ اس سے آگے تمام رشتوں تک ہے۔ ہم تب تک وفادار ہوتے ہیں جب تک احساس ہمارے حِدت بھرے بدن میں دہکتا ہے۔ وقت کے ساتھ پھر ہم اس احساس کو بھول جاتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں۔ اس ٹکڑے میں ایسے شخص کا ذکر ہے جس نے بالکل ایسا ہی کیا۔ اس نے بہت سے وعدے کیے۔ پھر انہیں بھلا دیا۔ مگر دوسروں کی نسبت شاید یہ شخص قدرے حساس تھا تو اسے محسوس ہو گیا کہ وہ ان عہد و پیمان کو بھول رہا ہے۔ شاید کہیں بیٹھے بیٹھے اسے ماضی کی کوئی یاد آئی مگر وہ بہت دھندلی تھی! پھر اس نے ان وعدوں کو دوبارہ سے یاد کرنے کا راستہ نکالا۔ اس نے دوسرے شخص کی عادات کے خلاف کام کرنے شروع کیئے۔ یوں جب بھی کوئی وعدہ ٹوٹتا ، مثلاً " مجھ سے وعدہ کرو تم وقت پر کھانا کھاؤ گے " اور پھر بھوک کی حالت میں اسے یاد آتا کہ ہاں! میں نے وقت پر کھانے کا وعدہ کیا تھا۔ تو وہ ایک یاداشت میں اسے لکھ لیتا یوں اس نے ان سب وعدوں کو یاد کر کے ایک یاداشت بنا لی۔ مگر عجیب بات ہے نا؟ اس نے صرف یاداشت بنائی! کیا اسے پھر سے بھول جانے کا ڈر تھا؟ یعنی اسے اپنی بے حسی کا علم تھا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم سب جانتے ہیں کہ ہم بے حس ہوتے جا رہے ہیں مگر اس کا کوئی سدباب نہیں کر رہے؟
بس اتنی سی بات کہنی تھی :) :)
اوہو ! یعنی میں بھی صحیح نتیجہ اخذ نہیں کرسکا۔ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
جُدا ہوتے ہوئے بہت سے عہد و پیمان ہوئے، کئی معاہدے وجود پائے! ۔۔۔۔۔۔۔ پھِر کافی عرصہ گزر گیا۔ ایک دِن اُسے احساس ہُوا کہ وہ تمام کیئے وعدے رفتہ رفتہ بھول رہا ہے۔ بہت فِکر ہوئی تو اس نے تمام وہ کام کرنے شروع کر دیئے جو "اُسے" نا پسند تھے۔ یوں جب بھی کوئی وعدہ ٹوٹتا تو وہ جلدی سے اُسے لِکھ لیتا۔ اور آخِر کار اس نے یوں "اُس" سے کیئے تمام وعدوں کی یاداشت تیار کر لی۔

(فصیح احمد)
زبردست جناب
 
Top