ظہور احمد سولنگی
محفلین
وسعت اللہ خان از بی بی سی اردو۔
اتحاد، تنظیم اور مکر
پاکستان کے امکانی صدر آصف علی زرداری معزول ججوں کی بحالی سے متعلق بھوربن اور اسلام آباد کے معاہدوں کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ وعدے یا معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے جن میں ردوبدل نہیں ہوسکتا۔
آصف زرداری سے دو ہزار برس پہلے رموزِ سیاست و حکمرانی کا ماہر چانکیہ ارتھ شاستر میں اور قریباً پانچ سو برس پہلے عظیم سیاسی شاطر میکیاولی یہی بات ’دی پرنس‘ میں کہہ چکا ہے کہ کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اقتدار کی بساط پر وعدے اور اصول کی اوقات ایک چال سے زیادہ نہیں ہونی چاہئیے۔
یہی سیاسی اخلاقیات ہے۔ جو یہ نہیں کرسکتا اس کے لئے بہتر ہے کہ تاج و تخت کے خواب دیکھنے کے بجائے صوفی یا رشی بننے کی کوشش کرے۔
سیاسی بقا کی اس آزمودہ تشریح کی روشنی میں ہم سب کو اپنے اپنے ہیرو بدل لینے چاہئیں۔ اس تشریح کو معیار مان کر میں معافی مانگتا ہوں گورنرِ شام امیر معاویہ سے جن کے لشکر نے جنگِ صفین میں خلیفہ چہارم حضرت علی کی فوج سے شکست کھانے کے آثار دیکھ کر قرآن نیزوں پر بلند کردئیے اور مصالحت کے لئے ثالثی کی تجویز دی۔
حضرت علی کی جانب سے ابو موسی اشعری اور امیر معاویہ کی جانب سے عمرو بن العاص بطور ثالث مقرر ہوئے اور دنوں اس نتیجے پر پہنچے کہ خون خرابے سے بچنے کے لئے خلیفہ اور گورنر کو معزول کردیا جائے۔ جب دونوں ثالث خیمے سے باہر نکلے تو ابو موسی اشعری نے طے شدہ معاہدے کے مطابق اعلان کیا کہ میں علی کی معزولی کا اعلان کرتا ہوں۔
ان کے بعد عمرو بن العاص نے اعلان کیا کہ میں اس فیصلے کی تائید کرتا ہوں مگر معاویہ کو برقرار رکھنے کا اعلان کرتا ہوں۔اس بد عہدی کے سبب انتقام اور فساد کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہوتا رہتا ہے۔لیکن فوری فائدہ یہ ہوا کہ امیر معاویہ نے تقریباً پچیس برس بطور خلیفہ حکمرانی کی۔
اگر پاکستان کی جانب دیکھا جائے تو میں شرمندہ ہوں یحییٰ خان کے خلاف بدگمانی رکھنے پر۔حالانکہ انہوں نے صرف یہی تو کیا تھا کہ انتخابات کے بعد اقتدار منتقل کرنے کے اپنے وعدے سے پھر گئے تھے کیونکہ ان کا بھی شائد یہی خیال تھا کہ وعدہ وفا ہونے کے لئے تھوڑا ہی ہوتا ہے۔
میں شرمسار ہوں جنرل ضیا الحق سے۔جن کے بارے میں اب تک میں برا سوچتا رہا کیونکہ انہوں نے نوے دن میں انتخابات کے وعدے کو دس برس تک پھیلا دیا۔میں ان کی مخالفت میں یہ نہیں سمجھ پایا کہ وعدہ قرآن و حدیث نہیں ہوتا۔اور صرف میں ہی کیا اس زمانے کی پیپلز پارٹی بھی ضیا الحق کی یہ مجبوری نہ سمجھ سکی۔
مجھے نہایت خجالت ہے جنرل پرویز مشرف سے جو اس لئے اچھے نہیں لگتے تھے کہ انہوں نے حقیقی جمہوریت کا وعدہ کیا لیکن طفیلی جمہوریت متعارف کروائی۔وردی اتارنے کا وعدہ کیا لیکن مکر گئے۔معلوم نہیں محترمہ بے نظیر بھٹو سیاسی مفاہمت کے لئے صدر مشرف کی وردی سے علیحدگی پر آخر تک کیوں مصر رہیں اور جنرل مشرف یہ کیوں نہ کہہ سکے کہ بی بی وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے۔
کاش ذوالفقار علی بھٹو بھی اس مقولے پر عمل کر کے جنرل ضیا سے سمجھوتہ کرلیتے تو آج ہمارے درمیان ہوتے۔
اور مجھے ترس آرہا ہے محمد علی جناح پر جو متحدہ ہندوستان کی وزارتِ عظمی ٹھکرا کر پاکستان لینے کی ضد پر اڑ گئے۔ حالانکہ وہ یہ کہہ کر چالیس کروڑ ہندوستانیوں کے وزیرِ اعظم بن سکتے تھے کہ حالات بدل گئے ہیں اور سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی ۔
کاش ماؤنٹ بیٹن یہ کہتے ہوئے تقسیمِ ہند کے منصوبے سے پھر جاتے کہ میں خون کی ندیاں بہتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ یا گاندھی جی اس بات پر برت نہ رکھتے کہ پاکستان کے حصے میں آنے والا اثاثہ جب تک نہیں بجھوایا جاتا میں نہ کھانا کھاؤں گا نہ پانی پئیوں گا۔ حلانکہ وہ یہ کہہ کر کسی بھی وقت برت توڑ سکتے تھے کہ میں نے پاکستان کو اثاثے دلوانے کا ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا۔
اس تناظر میں چھ ستمبر کے بعد اتحاد، تنظیم ، یقینِ محکم کا نعرہ بہت ہی فرسودہ لگے گا۔ نیا نعرہ ہونا چاہئیے اتحاد، تنظیم اور مکر ۔
اتحاد، تنظیم اور مکر
پاکستان کے امکانی صدر آصف علی زرداری معزول ججوں کی بحالی سے متعلق بھوربن اور اسلام آباد کے معاہدوں کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ وعدے یا معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے جن میں ردوبدل نہیں ہوسکتا۔
آصف زرداری سے دو ہزار برس پہلے رموزِ سیاست و حکمرانی کا ماہر چانکیہ ارتھ شاستر میں اور قریباً پانچ سو برس پہلے عظیم سیاسی شاطر میکیاولی یہی بات ’دی پرنس‘ میں کہہ چکا ہے کہ کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اقتدار کی بساط پر وعدے اور اصول کی اوقات ایک چال سے زیادہ نہیں ہونی چاہئیے۔
یہی سیاسی اخلاقیات ہے۔ جو یہ نہیں کرسکتا اس کے لئے بہتر ہے کہ تاج و تخت کے خواب دیکھنے کے بجائے صوفی یا رشی بننے کی کوشش کرے۔
سیاسی بقا کی اس آزمودہ تشریح کی روشنی میں ہم سب کو اپنے اپنے ہیرو بدل لینے چاہئیں۔ اس تشریح کو معیار مان کر میں معافی مانگتا ہوں گورنرِ شام امیر معاویہ سے جن کے لشکر نے جنگِ صفین میں خلیفہ چہارم حضرت علی کی فوج سے شکست کھانے کے آثار دیکھ کر قرآن نیزوں پر بلند کردئیے اور مصالحت کے لئے ثالثی کی تجویز دی۔
حضرت علی کی جانب سے ابو موسی اشعری اور امیر معاویہ کی جانب سے عمرو بن العاص بطور ثالث مقرر ہوئے اور دنوں اس نتیجے پر پہنچے کہ خون خرابے سے بچنے کے لئے خلیفہ اور گورنر کو معزول کردیا جائے۔ جب دونوں ثالث خیمے سے باہر نکلے تو ابو موسی اشعری نے طے شدہ معاہدے کے مطابق اعلان کیا کہ میں علی کی معزولی کا اعلان کرتا ہوں۔
ان کے بعد عمرو بن العاص نے اعلان کیا کہ میں اس فیصلے کی تائید کرتا ہوں مگر معاویہ کو برقرار رکھنے کا اعلان کرتا ہوں۔اس بد عہدی کے سبب انتقام اور فساد کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہوتا رہتا ہے۔لیکن فوری فائدہ یہ ہوا کہ امیر معاویہ نے تقریباً پچیس برس بطور خلیفہ حکمرانی کی۔
اگر پاکستان کی جانب دیکھا جائے تو میں شرمندہ ہوں یحییٰ خان کے خلاف بدگمانی رکھنے پر۔حالانکہ انہوں نے صرف یہی تو کیا تھا کہ انتخابات کے بعد اقتدار منتقل کرنے کے اپنے وعدے سے پھر گئے تھے کیونکہ ان کا بھی شائد یہی خیال تھا کہ وعدہ وفا ہونے کے لئے تھوڑا ہی ہوتا ہے۔
میں شرمسار ہوں جنرل ضیا الحق سے۔جن کے بارے میں اب تک میں برا سوچتا رہا کیونکہ انہوں نے نوے دن میں انتخابات کے وعدے کو دس برس تک پھیلا دیا۔میں ان کی مخالفت میں یہ نہیں سمجھ پایا کہ وعدہ قرآن و حدیث نہیں ہوتا۔اور صرف میں ہی کیا اس زمانے کی پیپلز پارٹی بھی ضیا الحق کی یہ مجبوری نہ سمجھ سکی۔
مجھے نہایت خجالت ہے جنرل پرویز مشرف سے جو اس لئے اچھے نہیں لگتے تھے کہ انہوں نے حقیقی جمہوریت کا وعدہ کیا لیکن طفیلی جمہوریت متعارف کروائی۔وردی اتارنے کا وعدہ کیا لیکن مکر گئے۔معلوم نہیں محترمہ بے نظیر بھٹو سیاسی مفاہمت کے لئے صدر مشرف کی وردی سے علیحدگی پر آخر تک کیوں مصر رہیں اور جنرل مشرف یہ کیوں نہ کہہ سکے کہ بی بی وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے۔
کاش ذوالفقار علی بھٹو بھی اس مقولے پر عمل کر کے جنرل ضیا سے سمجھوتہ کرلیتے تو آج ہمارے درمیان ہوتے۔
اور مجھے ترس آرہا ہے محمد علی جناح پر جو متحدہ ہندوستان کی وزارتِ عظمی ٹھکرا کر پاکستان لینے کی ضد پر اڑ گئے۔ حالانکہ وہ یہ کہہ کر چالیس کروڑ ہندوستانیوں کے وزیرِ اعظم بن سکتے تھے کہ حالات بدل گئے ہیں اور سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی ۔
کاش ماؤنٹ بیٹن یہ کہتے ہوئے تقسیمِ ہند کے منصوبے سے پھر جاتے کہ میں خون کی ندیاں بہتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ یا گاندھی جی اس بات پر برت نہ رکھتے کہ پاکستان کے حصے میں آنے والا اثاثہ جب تک نہیں بجھوایا جاتا میں نہ کھانا کھاؤں گا نہ پانی پئیوں گا۔ حلانکہ وہ یہ کہہ کر کسی بھی وقت برت توڑ سکتے تھے کہ میں نے پاکستان کو اثاثے دلوانے کا ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا۔
اس تناظر میں چھ ستمبر کے بعد اتحاد، تنظیم ، یقینِ محکم کا نعرہ بہت ہی فرسودہ لگے گا۔ نیا نعرہ ہونا چاہئیے اتحاد، تنظیم اور مکر ۔