جاویداقبال
محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
بھائی یہ مضمون آج کے "روزنامہ جنگ" میں پڑھااچھالگاتواب آپ سب ساتھیوں کی خدمت میں حاضرہے۔امیدہے پڑھ کرآپ اردوکی ترقی کے لیے ضرورباضرورسوچیں گے۔(انشاء اللہ)
وغیرہ وغیرہ
شوکت تھانی
(ماضی کے خزانے)
روزنامہ جنگ کراچی۔24 جون 1958 ء
کراچی میں میونسپل حدودکے اندرموٹرہارن بجانے کی ممانعت ہے اوراگرکوئی ہارن بجادے توپولیس اسکاچالان کردیتی ہے اسی طرح جب تک میونسپل حدودمیں انگریزی بولنے کی ممانعت نہ کی جائے گی اس وقت تک قومی زبان اردو کاکراچی میں پنپنابہت مشکل ہے اس لئے کہ یہاں توبتیس دانتوں کے بیچ میں ایک زبان ہے اورانگریزی بولنے کاخصوصیت کے ساتھ لوگوں کوایسا شوق ہے کہ اردوبھی انگریزی ہی میں بولتے ہیں۔تلفظ توتلفظ انگریزی بولنے میں املاتک کی غلطیاں یہ لوگ کرتے ہیں مگربولتے ضرورہیں انگریزی ، حدیہ ہے کہ اپنے باپ تک کوبات کہتے ان سعادتمندوں کوشرم آتی ہے فادرہی کہتے ہیں گویااگرباپ کوباپ کہہ دیاتوولدیت مشکوک ہوئے گی۔البتہ اگرفادرکہہ دیاتوخلف الرشیدسمجھے جائیں گے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
اردوپاکستان کی قومی زبان تسلیم ہوچکی ہے مگریہ عجیب قومی زبان ہے کہ دفاترکی زبان انگریزی ہی ہے۔تمام دفتری کاروائیاں انگریزی میں ہوتی ہیں کچہریوں میں انگریزی چلتی ہے وکیل انگریزی اڑاتے ہیں۔عدالتیں انگریزی میں فیصلہ سناتی ہیں۔جہاں دوپاکستانی مل بیٹھے انگریزی بکھرناشروع ہوجاتی ہے اورزبانی جمع خرچ کے طورپرکہہ دیاگیاکہ اردوپاکستان کی قومی اورسرکاری زبان ہے گویاہے تواردوقومی اورسرکاری زبان مگروہ بیٹھ کرآرام کرے اوراس کی جگہ کام کرتی رہے انگریزی۔سرکاری زبان کو کیاضرورت ہے کہ وہ تکلیف اٹھائے جبکہ اس کی خدمت کرنے کے لئے انگریزی موجودہے۔اردو کوتوچاہیے کہ وہ اپناوقاراوردبدبہ لئے بس چھپرکھٹ آرام کرتی رہے۔وہ بس سرکاری زبان ہے رہ گئی درباری زبان وہ خواہ کچھ بھی ہو۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
اب میونسپل کارپوریشن میں ایک تجویزپیش ہونے والی ہے کہ اردوہماری قومی اورپاکستان کی مسلمہ سرکاری زبان ہے ۔لہذا ہربہی خواہ اردو کافرض ہے کہ وہ اس کی نشوونمااورترقی کے لئے جدوجہد کرے اورمیونسپل کارپوریشن کوچاہیئے کہ وہ اردوکواپنی دفتری زبان تسلیم کرے اورتمام دفتری کاروائی صرف اردومیں ہواکرے امیدہے کہ یہ تجویزمنظورتوضرورہوجائے گی اورمتفقہ طورپرمنظورہوگی۔مگراس منظوری سے کچھ نہیں ہوتا۔منظورہونے کوتو یہ بھی منظورہوچکاہے کہ اردوپاکستان کی سرکاری زبان ہے مگرچل رہی ہے اس کی جگہ پرانگریزی جوانگریزوں کے ترکہ میں ہم کوملی ہے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
ضرورت اس کی واقعی جس طرح میونسپل حدودمیں ہارن بجاناممنوع ہے اسی طرح انگریزی بولناممنوع قراردے دیاجائے کہ جہاں کسی راہ گیرنے اپنے دوست کورخصت کرتے ہوئے کہا کہہ "بائی بائی" پولیس نے آکرپکڑلیاکہ آپ کانام کیاہے اورآپ کے باپ کانام کیاہے۔جہاں کسی نے کسی سے کچھ لیتے ہوئے کہا۔"تھینک یو" پولیس نے سیٹی بجاکرروک لیااوردرج کرلیاچالان کہ اب عدالت میں جواب دہی ہوگی ظاہرہے کہ عدالت میں یہ لوگ طرح طرح کے جھوٹ بولیں گے "جناب والا! ہم پریہ غلط الزام ہے ہم ہرگزانگریزی نہ بولے تھے ہم نے تواپنے دوست سے کہاتھاصرف دوست نہیں بلکہ آپس میں "بھائی بھائی" ہیں۔کانسٹیبل نے اس کو"بائی بائی"سمجھااورحضورہم نے "تھینک یو"ہرگزنہیں کہابلکہ یہ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے دوست نے ہم کوسگریت دے کرخالی ڈبیادکھائی توہم نے اس سے کہاکہ"پھینک دو"اب اگراس "پھینک دو" کوکانسٹیبل نے "تھینک یو" سناتو اس میں ہماراکیاقصور۔"
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
علی گڑھ میں ایک صاحب تھے جن کادعوی یہ تھاکہ انگریزی زبان دراصل اردوہی سے نکلی چنانچہ وہ زندگی بھر اس قسم کے الفاظ جمع کرتے رہے جن سے وہ ثابت کرسکتے تھے کہ یہ انگریزی کالفظ اردوکے کس لفظ سے بناہے مثلاانگریزی کے لفظ "ڈیکوریش"کے متعلق کہنے لگاکہ کیاآپ کاخیال یہ ہے کہ ڈیکوریشن انگریزی کالفظ ہے یہ دراصل سجاوٹ کے معنی میں اس لئے استعمال ہونے لگاکہ کسی نے سجاوٹ دیکھ کرکہہ دیاتھاکہ "دیکھوری شان" انگریزوں نے اسے لکھ لیااوراب سجاوٹ کوڈیکوریشن کہتے پھرتے ہیں۔پدرکوفادر،مادرکومدر،برادرکوبرادرکہنے والے یہ انگریزدراصل انگریزی نہیں بلکہ اردوہی بولتے ہیں مگرزبان پراردوالفاظ ایسی بگڑی ہوئی شکل سے چڑھتے ہیں کہ لوگ ان کوانگریزی سمجھتے ہیں۔ اب اس کاکیاعلاج کہ ہم لوگ احمق کو"ڈیوٹ" کہتے ہیں انگریزوں نے ڈیوٹ سن لیااوربے وقوف کو"ایڈیٹ" کہنے لگے۔ہم نے کیلا کسی کودے کرکہا"کچالوبنانا"وہ کچالوتوبھول گئے "بنانا"کہنے لگے کیلے کو۔دریائے ہگلی کے کنارے ایک کھیت میں کچھ کسان کام کررہے تھے ان سے اشارے میں ان انگریزوں نے پوچھاکہ اس جگہ کاکیانام ہے۔کسان سمجھے یہ پوچھاجارہاہے کہ یہ کھیت کب کٹا۔چنانچہ انہوں نے کہہ دیاکہ "کل کٹا" ان عقلمندوں نے "کلٹا"لکھ اورآج تک کلکتہ کو"کلکٹا"ہی کہتے ہیں۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
ہمارے ایک بزرگ محترم تھے مولوی نظام الدین حسن ان کی خاص چڑ تھی کہ انگریزی کے الفاظ اردوکی عبارت یاگفتگومیں استعمال کئے جائیں حدیہ ہے کہ اگراردومیں پتہ لکھتے ہوئے ان کولاٹوش روڈ لکھناہی پڑجائے توتاریخ میں لاٹوش صاحب کازمانہ دیکھ کرپتہ پرلکھ دیتے تھے کہ"سڑک موسومہ بنام ثابت السلطنت ازسنہ فلاں الغایتہ سنہ فلاں "سائیکل کوچرخی دوپہیہ ہی لکھتے تھے ۔
والسلام
جاویداقبال
بھائی یہ مضمون آج کے "روزنامہ جنگ" میں پڑھااچھالگاتواب آپ سب ساتھیوں کی خدمت میں حاضرہے۔امیدہے پڑھ کرآپ اردوکی ترقی کے لیے ضرورباضرورسوچیں گے۔(انشاء اللہ)
وغیرہ وغیرہ
شوکت تھانی
(ماضی کے خزانے)
روزنامہ جنگ کراچی۔24 جون 1958 ء
کراچی میں میونسپل حدودکے اندرموٹرہارن بجانے کی ممانعت ہے اوراگرکوئی ہارن بجادے توپولیس اسکاچالان کردیتی ہے اسی طرح جب تک میونسپل حدودمیں انگریزی بولنے کی ممانعت نہ کی جائے گی اس وقت تک قومی زبان اردو کاکراچی میں پنپنابہت مشکل ہے اس لئے کہ یہاں توبتیس دانتوں کے بیچ میں ایک زبان ہے اورانگریزی بولنے کاخصوصیت کے ساتھ لوگوں کوایسا شوق ہے کہ اردوبھی انگریزی ہی میں بولتے ہیں۔تلفظ توتلفظ انگریزی بولنے میں املاتک کی غلطیاں یہ لوگ کرتے ہیں مگربولتے ضرورہیں انگریزی ، حدیہ ہے کہ اپنے باپ تک کوبات کہتے ان سعادتمندوں کوشرم آتی ہے فادرہی کہتے ہیں گویااگرباپ کوباپ کہہ دیاتوولدیت مشکوک ہوئے گی۔البتہ اگرفادرکہہ دیاتوخلف الرشیدسمجھے جائیں گے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
اردوپاکستان کی قومی زبان تسلیم ہوچکی ہے مگریہ عجیب قومی زبان ہے کہ دفاترکی زبان انگریزی ہی ہے۔تمام دفتری کاروائیاں انگریزی میں ہوتی ہیں کچہریوں میں انگریزی چلتی ہے وکیل انگریزی اڑاتے ہیں۔عدالتیں انگریزی میں فیصلہ سناتی ہیں۔جہاں دوپاکستانی مل بیٹھے انگریزی بکھرناشروع ہوجاتی ہے اورزبانی جمع خرچ کے طورپرکہہ دیاگیاکہ اردوپاکستان کی قومی اورسرکاری زبان ہے گویاہے تواردوقومی اورسرکاری زبان مگروہ بیٹھ کرآرام کرے اوراس کی جگہ کام کرتی رہے انگریزی۔سرکاری زبان کو کیاضرورت ہے کہ وہ تکلیف اٹھائے جبکہ اس کی خدمت کرنے کے لئے انگریزی موجودہے۔اردو کوتوچاہیے کہ وہ اپناوقاراوردبدبہ لئے بس چھپرکھٹ آرام کرتی رہے۔وہ بس سرکاری زبان ہے رہ گئی درباری زبان وہ خواہ کچھ بھی ہو۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
اب میونسپل کارپوریشن میں ایک تجویزپیش ہونے والی ہے کہ اردوہماری قومی اورپاکستان کی مسلمہ سرکاری زبان ہے ۔لہذا ہربہی خواہ اردو کافرض ہے کہ وہ اس کی نشوونمااورترقی کے لئے جدوجہد کرے اورمیونسپل کارپوریشن کوچاہیئے کہ وہ اردوکواپنی دفتری زبان تسلیم کرے اورتمام دفتری کاروائی صرف اردومیں ہواکرے امیدہے کہ یہ تجویزمنظورتوضرورہوجائے گی اورمتفقہ طورپرمنظورہوگی۔مگراس منظوری سے کچھ نہیں ہوتا۔منظورہونے کوتو یہ بھی منظورہوچکاہے کہ اردوپاکستان کی سرکاری زبان ہے مگرچل رہی ہے اس کی جگہ پرانگریزی جوانگریزوں کے ترکہ میں ہم کوملی ہے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
ضرورت اس کی واقعی جس طرح میونسپل حدودمیں ہارن بجاناممنوع ہے اسی طرح انگریزی بولناممنوع قراردے دیاجائے کہ جہاں کسی راہ گیرنے اپنے دوست کورخصت کرتے ہوئے کہا کہہ "بائی بائی" پولیس نے آکرپکڑلیاکہ آپ کانام کیاہے اورآپ کے باپ کانام کیاہے۔جہاں کسی نے کسی سے کچھ لیتے ہوئے کہا۔"تھینک یو" پولیس نے سیٹی بجاکرروک لیااوردرج کرلیاچالان کہ اب عدالت میں جواب دہی ہوگی ظاہرہے کہ عدالت میں یہ لوگ طرح طرح کے جھوٹ بولیں گے "جناب والا! ہم پریہ غلط الزام ہے ہم ہرگزانگریزی نہ بولے تھے ہم نے تواپنے دوست سے کہاتھاصرف دوست نہیں بلکہ آپس میں "بھائی بھائی" ہیں۔کانسٹیبل نے اس کو"بائی بائی"سمجھااورحضورہم نے "تھینک یو"ہرگزنہیں کہابلکہ یہ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے دوست نے ہم کوسگریت دے کرخالی ڈبیادکھائی توہم نے اس سے کہاکہ"پھینک دو"اب اگراس "پھینک دو" کوکانسٹیبل نے "تھینک یو" سناتو اس میں ہماراکیاقصور۔"
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
علی گڑھ میں ایک صاحب تھے جن کادعوی یہ تھاکہ انگریزی زبان دراصل اردوہی سے نکلی چنانچہ وہ زندگی بھر اس قسم کے الفاظ جمع کرتے رہے جن سے وہ ثابت کرسکتے تھے کہ یہ انگریزی کالفظ اردوکے کس لفظ سے بناہے مثلاانگریزی کے لفظ "ڈیکوریش"کے متعلق کہنے لگاکہ کیاآپ کاخیال یہ ہے کہ ڈیکوریشن انگریزی کالفظ ہے یہ دراصل سجاوٹ کے معنی میں اس لئے استعمال ہونے لگاکہ کسی نے سجاوٹ دیکھ کرکہہ دیاتھاکہ "دیکھوری شان" انگریزوں نے اسے لکھ لیااوراب سجاوٹ کوڈیکوریشن کہتے پھرتے ہیں۔پدرکوفادر،مادرکومدر،برادرکوبرادرکہنے والے یہ انگریزدراصل انگریزی نہیں بلکہ اردوہی بولتے ہیں مگرزبان پراردوالفاظ ایسی بگڑی ہوئی شکل سے چڑھتے ہیں کہ لوگ ان کوانگریزی سمجھتے ہیں۔ اب اس کاکیاعلاج کہ ہم لوگ احمق کو"ڈیوٹ" کہتے ہیں انگریزوں نے ڈیوٹ سن لیااوربے وقوف کو"ایڈیٹ" کہنے لگے۔ہم نے کیلا کسی کودے کرکہا"کچالوبنانا"وہ کچالوتوبھول گئے "بنانا"کہنے لگے کیلے کو۔دریائے ہگلی کے کنارے ایک کھیت میں کچھ کسان کام کررہے تھے ان سے اشارے میں ان انگریزوں نے پوچھاکہ اس جگہ کاکیانام ہے۔کسان سمجھے یہ پوچھاجارہاہے کہ یہ کھیت کب کٹا۔چنانچہ انہوں نے کہہ دیاکہ "کل کٹا" ان عقلمندوں نے "کلٹا"لکھ اورآج تک کلکتہ کو"کلکٹا"ہی کہتے ہیں۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
ہمارے ایک بزرگ محترم تھے مولوی نظام الدین حسن ان کی خاص چڑ تھی کہ انگریزی کے الفاظ اردوکی عبارت یاگفتگومیں استعمال کئے جائیں حدیہ ہے کہ اگراردومیں پتہ لکھتے ہوئے ان کولاٹوش روڈ لکھناہی پڑجائے توتاریخ میں لاٹوش صاحب کازمانہ دیکھ کرپتہ پرلکھ دیتے تھے کہ"سڑک موسومہ بنام ثابت السلطنت ازسنہ فلاں الغایتہ سنہ فلاں "سائیکل کوچرخی دوپہیہ ہی لکھتے تھے ۔
والسلام
جاویداقبال