وفاقی وزیر اقلیتی امور شہبازبھٹی کو فائرنگ کرکے قتل کردیاگیا

سویدا

محفلین
ميں آپ کو ياد دلا دوں کہ پاکستان کے پرچم ميں سفيد رنگ پاکستان ميں رہنے والےغیر مسلموں کی نمايندگی کرتا ہے۔ يہ قائد اعظم کا پاکستان کے ليے خواب تھا، ايک ايسا ملک جہاں ہر شہری کو اس کے مذہبی عقائد سے قطع نظر يکساں نمايندگی حاصل ہو۔ شہباز بھٹی کا قتل نہ صرف يہ کہ پاکستان کی حکومت کی رٹ پر براہراست حملہ ہے بلکہ پاکستان اور قائداعظم کے بنيادی نظريے کو رد کرنے کی بھی کوشش ہے۔

واضح رہے کہ بے گناہ مظلوم شہباز بھٹی، مولانا احمد مدنی اور ان کے بیٹے کے قتل اور اس جیسے سے گذشتہ کئی واقعات کے پیچھے ریمنڈ ڈیوس جیسے افراد ہی ملوث ہیں۔
ہم بحیثیت پاکستانی قوم اس ناخوش گوار واقعے کی جتنی بھی مذمت کریں کم ہے، پاکستان کی باشعور عوام نظریہ پاکستان اور فکر قائد سے بخوابی واقف ہے نیز اس بات سے بھی کہ پاکستان میں اقلیتوں کو وہی حق حاصل ہے جس کسی بھی عام مسلمان شہری کو حاصل ہے ، لیکن ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگ پاکستان کی سالمیت اور بقا کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں ، بلیک واٹر اور امریکن سی آئی اے کی پاکستان میں سرگرمیوں کے حوالے سے کافی عرصے سے میڈیا میں خبریں تھیں ، لیکن جھوٹ ایک نہ ایک دن کھل ہی جاتا ہے اور امریکہ ، بلیک واٹر ، سی آئی اے کا کردار ریمنڈ ڈیوس کے ذریعے سب پر آشکارا ہوگیا،پاکستان کی رٹ کو ریمنڈ ڈیوس جیسے افراد اور طالبان پر امریکہ کی شفقت آمیز سرپرستی سے خطرہ ہے ۔


اور مذہب کے نام پر معاشرے ميں عدم تحفظ اور تشدد کو فروغ دينے والی غلط سوچ کو مکمل نظرانداز کيا ہے۔

مذہبی رہنما کا قتل ہو یا اقلیتی فرد کا یا کسی لبرل ذہن رکھنے والے شخص کا ، ان سب کے پیچھے مقصد ایک ہی کار فرما ہے اور وہ یہ کہ پاکستانی قوم کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے ظاہری طور پر رسمی ہم دردی کا اظہار اور پس پردہ قتل وغارت گری اور بم دھماکے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ريمنڈ ڈيوس کيس کے حوالے سے بعض رائے دہندگان کی سوچ خاصی حيران کن ہے۔جس طريقے سے کچھ تجزيہ نگار اندھادھند پاکستان ميں ہونے والی تمام تر دہشت گردی کا ذمہ دار "ريمنڈ ڈيوس جيسے کرداروں" کو قرار دے رہے ہیں، اس سے تو يہ تاثر ملتا ہے کہ وہ کوئ ايسا گمنام شخص تھا جسے اچانک ہی دريافت کر ليا گيا ہے اور اس کی ملک میں موجودگی اور حدودواربعہ کے بارے میں کسی کو بھی کچھ پتا نہيں تھا۔

يقينی طور پر حقيقت يہ نہيں ہے۔ جو شخص اپنے نام کا کارڈ اور اپنے پاسپورٹ کے ساتھ سفر کر رہا ہو وہ کوئ ايسا مشکوک کردار نہيں ہو سکتا جو اپنے آپ کو پوشيدہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس کے علاوہ پاکستانی ميڈيا پر جن دستاويزات کو دکھايا گيا ہے اس سے يہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی اور امريکی افسران کے مابين مراسلے جاری تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی حکومت اور وزارت خارجہ پاکستانی ميں ان کی موجودگی سے پوری طرح آگاہ تھی۔ بلکہ حکومت پاکستان نے تو انھيں متعلقہ ويزہ بھی جاری کيا تھا۔

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا کہ يہ ذمہ داری کلی طور پر پاکستانی حکومت کی ہے کہ وہ امريکی سميت پاکستان کے اندر رہنے اور کام کرنے والے ہر غير ملکی شہری کو ضروری تفتيشی مراحل سے گزارے۔ پاکستان ايک خودمختار ملک ہے جو اس بات کا مکمل اختيار رکھتا ہے کہ کسی بھی غير ملکی شخص کا ويزہ منظور يا مسترد کرے۔ اس کام کی تکميل کے ليے درجنوں کی تعداد ميں حکومتی ادارے اور اہلکار موجود ہيں۔

ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں يہ بتا سکتا ہوں کہ پاکستان کی بے شمار ايجينسياں پاکستان کے اندر موجود ہر غير ملکی کی نقل وحرکت پر نظر رکھتی ہيں۔ يہاں تک کہ ہوٹلز، موٹلز اور گيسٹ ہاؤس بھی اس بات کے پابند ہيں کہ وہ رہائش پذير غير ملکيوں کے کوائف حکومتی اہلکاروں کو مہيا کريں۔ اسی طرح ائرپورٹس پر غير ملکيوں کے کوائف کے حوالے سے سيکورٹی کے انتظامات سے سب واقف ہيں۔

اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں کام کرنے والا ہر شخص رائج عالمی قوانين اور قواعد وضوابط کے عين مطابق کام کر رہا ہے اور اس ضمن ميں امريکی سفارت خانے کو حکومت پاکستان کی مکمل منظوری اور تعاون بھی حاصل ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

سویدا

محفلین
ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد بہت سے راز آشکارا ہونے لگے ہیں جن پر اب تک پردہ پڑا ہوا تھا۔ پاکستان کے لئے یہ انکشاف انتہائی تشویش کا باعث بنا کہ امریکی سی۔آئی۔اے نے نام نہاد ”وار آن ٹیرر“ کی آڑ میں پاکستان بھر میں جاسوسی کا ایک منظم نیٹ ورک قائم کرلیا ہے۔ وہ ”وار آن ٹیرر“ کے تقاضوں سے ہٹ کر خطے میں اپنے وسیع تر اہداف و مقاصد کے لئے سرگرم عمل ہے۔ اس کے سیکڑوں کرائے کے اہلکار، سفارتکاروں کا روپ دھارے پاکستان میں آچکے ہیں۔ باہمی مفاہمت کی شرائط کو نظرانداز کرکے وہ آئی۔ایس۔آئی کو اعتماد میں لئے بغیر اپنے ایجنڈے میں رنگ بھر رہی ہے۔ بجاطور پر یہ گہری تشویش کا لمحہ تھا۔ پاک فوج نے بھی اسے سنجیدگی سے لیا۔ آئی۔ایس۔آئی نے زیادہ واضح الفاظ میں اپنے تحفظات، سی۔آئی۔اے تک پہنچائے۔ اطلاعات کے مطابق رابطوں کا سلسلہ جاری ہے اور قرائن یہ بتاتے ہیں کہ نام نہاد وار آن ٹیرر کے حوالے سے اب باہمی تعاون کی نئی ضابطہ بندی ہوگی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سی۔آئی۔اے کو اپنا دامن سمیٹنا ہوگا، اپنے خفیہ آپریشنز کا سلسلہ منقطع کرنا ہوگا، اپنی کارروائیاں پاکستانی مفادات سے ہم آہنگ کرنا ہوں گی اور افغانستان سے بوریا بسترا باندھتے وقت پاکستان کو اعتماد میں لینا ہوگا۔
کیا یہ سب کچھ ہو پائے گا؟ کیا امریکی عسکری قیادت سے جنرل کیانی کی حالیہ ملاقاتیں ثمر آور ثابت ہوں گی؟ کیا آئی۔ایس۔آئی امریکی خوں آشام ایجنسی کو اپنی حدوں میں رہنے پر قائل کرسکے گی؟ عین ممکن ہے کہ امریکہ بدلے ہوئے حالات میں سی۔آئی۔اے کو کچھ وقت کے لئے آہستہ روی کا پیغام دے دے لیکن کیا ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ کسی ایسی مفاہمت کو مستحکم اور دیرپا ہونے دے گا؟ کیا معصوم پاکستانیوں کا امریکی قاتل، دو توانا خفیہ ایجنسیوں کے درمیان کسی فیصلہ کن جنگ کا سبب بننے والا ہے؟(جاری ہے)
عرفان صدیقی
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=511701
 

سویدا

محفلین
جنوری 2011ء پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کوئی نام نہاد سفارت کار نہیں ہے بلکہ درحقیقت سی آئی اے کا خون خوار کمانڈو ہے جس کے ہاتھوں پر چار معصوم پاکستانیوں کا خون ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ ایک ایسا آئینہ بن گیا ہے جس میں امریکہ کے سامراجی کردار اور ایک دوست ملک کو بلیک میل کرنے، عدم استحکام کا شکار کرنے اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے آلہٴ کار بنائے جانے کے ناپاک کھیل کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ جس نے پاکستانی قوم اور اس کی مقتدر قوتوں کو نہ صرف جھنجھوڑ دیا ہے بلکہ ملک اور قوم کے لیے امریکہ سے تعلقات کے پورے مسئلے پر بنیادی نظرثانی کو ناگزیر بنا دیا ہے۔
آگے چل کر مزید لکھتے ہیں :
سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا اصل جرم کیا ہے؟ پنجاب پولیس نے دو ایشوز پر فردِ جرم عائد کی ہے یعنی دو پاکستانی نوجوانوں کا جان بوجھ کر اور بلاجواز قتل (naked and deliberate murder)، اور دوسرا ناجائز اسلحہ کا قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسلحہ رکھنا اور استعمال کرنا۔ اسی طرح خواہ بڑی تاخیر کے بعد اور عدالت کے حکم پر امریکی قونصل خانہ کی اس گاڑی کے چلانے والوں پر غیرحاضری میں فردِ جرم، جو غلط سمت سے گاڑی لاکر ایک معصوم نوجوان عبیدالرحمن کی ہلاکت کا باعث ہوئی۔ پھر اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرکے لاہور میں امریکی قونصل خانے میں پناہ گزین ہوئے اور امریکی حکام کے مجرمانہ تعاون سے غالباً ملک سے باہر روانہ بھی کردیئے گئے ہیں۔ اس تیسرے قتل کے مجرموں کے باب میں پنجاب پولیس اور حکومت کا رویہ واضح طور پر نہایت غیرتسلی بخش ہے۔(جاری ہے)
پروفیسر خورشید احمد
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=511705
 

سویدا

محفلین
یہ دیکھیے !
اسلام آباد(مظہر طفیل) ریمنڈ ڈیوس کے فون ریکارڈ کے حوالے سے ملنے والی معلومات کی مناسبت سے 300 پاکستانیوں سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے، دی نیوز کو باوثوق ذرائع نے بتایا ہے کہ ” جن لوگوں سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے ان سے ملنے والی اطلاعات کی روشنی میں مزید لوگوں کو تحقیقات میں شامل کیاجارہا ہے، ایک سینئر سیکورٹی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی نیوز کو بتایا ہے کہ جن زیادہ تر لوگوں سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق تو مذہبی گروپوں سے ہے جبکہ ان میں سے کافی تعداد کاروباری حلقوں سے تعلق رکھنے والوں کی بھی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان میں سے کسی بھی شخص کو تاحال گرفتار نہیں کیا گیا۔ لیکن چونکہ یہ معاملہ انتہائی حساس اور بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہے اسلئے جو معلومات مل رہی ہیں وہ تاحال میڈیا سے خفیہ رکھی جارہی ہیں اور کسی کو ان معلومات تک رسائی نہیں دی جارہی۔ تاہم ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ ریمنڈڈیوس کی گرفتاری کے حوالے سے مکمل معلومات جلد ہی عوام کے سامنے پیش کردی جائیں گی۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=511856
 

عثمان

محفلین
لو بھئی اس ریمنڈ ڈیوس شو کا سب سے زیادہ اگر کسی کو فائدہ ہوا ہے تو وہ مذہبی دہشت گرد اور ان کے ہمدرد ہیں۔ ایک طرف تو ریمنڈ ڈیوس پر خوب گلی گلی سیاست چمکاؤ۔ اور دوسری طرف مودا اغیار پر ڈال کر پاکستان بھر میں ہزاروں لوگوں کو خون میں نہلانے والے طالبانی غنڈوں ، مذہبی دہشت گردوں اور کالعدم دہشت گرد تنظیموں کو ان کے جرائم سے صاف بچا جاؤ۔ چوپٹری اور دو دو!
کم بخت ممتاز قادری سامنے آگیا۔ ورنہ گورنر کا مودا بھی کسی "عاشق رسول" کی بجائے ریمنڈ ڈیوس ہی پر ہوتا۔
یہ پشاور ، فیصل آباد اور قبائلی علاقے میں حالیہ دھماکوں کی کیا اطلاعات ہیں۔ ادھر بھی کوئی "ریمنڈ ڈیوس" ہی مصروف ہے؟
 

سویدا

محفلین
آپ کو سمجھنے میں غلط فہمی ہورہی ہے شاید
طالبان یا دہشت گرد مذہبی تنظیمیں ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگوں کی سرپرستی اور اعانت کے ساتھ ہی کام کررہی ہیں جرم اور ظلم میں دونوں برابر ہیں۔
ایک اوراہم جرم جو اس کے ان تمام آلات اور ریکارڈ سے سامنے آیا ہے، خاص طور پر موبائل ٹیلی فون اور برقی پیغامات ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں تخریب کاری میں ملوث کم از کم 32 افراد، ٹھکانوں اور تنظیموں سے اس کا رابطہ تھا اور اس واقعے سے صرف سات دن پہلے اس نے وزیرستان میں لوگوں سے رابطہ قائم کیا تھا۔ گویا وہ دہشت گردی میں خود ملوث تھا اور یا ان لوگوں کے ساتھ منسلک تھا، دوسرے الفاظ میں دہشت گردی یا دہشت گردی کی سرپرستی یا کم از کم اس میں اعانت مجرمانہ کے تحت بھی اس پر الزام آتا ہے اور ایک مقدمہ اس کے خلاف اس قانون کے تحت بھی درج ہونا چاہئے۔
از راہ کرم مزید تفصیل یہاں ملاحظہ فرمالیجیے
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?7418-عالمی-دھشت-گرد-امریکہ/page21
 

عثمان

محفلین
چلئے کم از کم آپ نے طالبان اور کالعدم تنظیموں کو دہشت گرد تو تسلیم کیا ورنہ یار لوگ تو انھیں "اسلام کا سپاہی" اور "مجاہد" سمجھنے پر مصر رہتے ہیں۔
رہا شہباز بھٹی تو اس کے قتل کے محرکات وہی ہیں جو گورنر کے قتل کے تھے۔ لاہور سے لے کر کراچی تک مذہبی دہشت گردوں کے جلسوں اور خطبات میں دی گئی دھمکیاں ریکارڈ پر ہیں۔ یہیں کسی دھاگے پر کچھ لوگ شہباز بھٹی سے لے کر شیری رحمان تک سب کو "فی النار" کرنے کے منتظر تھے۔
 

سویدا

محفلین
چلئے کم از کم آپ نے طالبان اور کالعدم تنظیموں کو دہشت گرد تو تسلیم کیا ورنہ یار لوگ تو انھیں "اسلام کا سپاہی" اور "مجاہد" سمجھنے پر مصر رہتے ہیں۔
رہا شہباز بھٹی تو اس کے قتل کے محرکات وہی ہیں جو گورنر کے قتل کے تھے۔ لاہور سے لے کر کراچی تک مذہبی دہشت گردوں کے جلسوں اور خطبات میں دی گئی دھمکیاں ریکارڈ پر ہیں۔ یہیں کسی دھاگے پر کچھ لوگ شہباز بھٹی سے لے کر شیری رحمان تک سب کو "فی النار" کرنے کے منتظر تھے۔
پتہ نہیں آپ کو میرے بارے میں یہ غلط فہمی کیوں رہی کہ میں خدا نخواستہ دہشت گردوں اور طالبان کی حمایت کررہا ہوں،ایسا ہرگز نہیں ہے
میرا موقف صرف اتنا ہے کہ نام نہاد طالبان اور مذہبی دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی امریکہ اور ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگ کررہے ہیں۔
توہین رسالت ہو یا توہین قرآن اس قسم کے مذہبی مسائل کو جان بوجھ کر ہوا دی جاتی ہے تاکہ عوام میں شدت پسندی اور تعصب پیدا ہو جب فضا اچھی طرح گرم ہوجاتی ہے اس کے بعد کسی مذہبی یا لبرل شخصیت کو مار گرایا جاتا ہے،پھر اس کے بعد ایک دوسرے پر الزامات
 

سویدا

محفلین
برادرم عثمان ! یہ بات بھی توجہ طلب ہے ، اس پر بھی ذرا غور فکر کیجیے گا:
ایک اوراہم جرم جو اس کے ان تمام آلات اور ریکارڈ سے سامنے آیا ہے، خاص طور پر موبائل ٹیلی فون اور برقی پیغامات ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں تخریب کاری میں ملوث کم از کم 32 افراد، ٹھکانوں اور تنظیموں سے اس کا رابطہ تھا اور اس واقعے سے صرف سات دن پہلے اس نے وزیرستان میں لوگوں سے رابطہ قائم کیا تھا۔ گویا وہ دہشت گردی میں خود ملوث تھا اور یا ان لوگوں کے ساتھ منسلک تھا، دوسرے الفاظ میں دہشت گردی یا دہشت گردی کی سرپرستی یا کم از کم اس میں اعانت مجرمانہ کے تحت بھی اس پر الزام آتا ہے اور ایک مقدمہ اس کے خلاف اس قانون کے تحت بھی درج ہونا چاہئے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ہر بات میں سازش کی بو محسوس کرنے والے بعض رائے دہندگان کی منطق اکثر سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے۔ ايک جانب تو يہ دعوی کيا جاتا ہے کہ پاکستان ميں ہونے والے ہر اہم قتل کے پيچھے سی –آئ – اے/بليک واٹر يا ریمنڈ ڈيوس جيسے کردار موجود ہوتے ہيں۔ پھر دوسری جانب حکومت پاکستان کو اس بنا پر تنقید کا نشانہ بنايا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے مبينہ امريکی کرائے کے قاتلوں کو ويزے جاری کيے گئے ہيں۔ اگر مفروضے کے طور پر ان دونوں احمقانہ دلائل کو تسليم بھی کر ليا جائے تو اس کا مطلب يہ نکلتا ہے کہ پاکستانی حکومت دراصل خود اپنے ہی وفاقی وزیروں، گورنر، اہم سياسی قائدين اور مختلف حکومتی اداروں پر حملوں کے واقعات کے ضمن ميں دانستہ مدد فراہم کر رہی ہے۔ دنيا کی کوئ بھی حکومت اپنی رٹ کو کمزور کرنے اور دانستہ اپنے ہی قائدين کو قتل کر کے ملک کو غير مستحکم نہيں کر سکتی۔

اس دليل ميں نہ ہی کوئ منطق ہے اور نہ ہی کوئ دانش کا پہلو۔

اس کے علاوہ گزشتہ چند برسوں کے دوران جتنے بھی دہشت گرد گرفتار يا ہلاک ہوئے ہيں يا خودکش حملہ آور پکڑے گئے ہيں، ان ميں سے کتنے امريکی ہیں؟ دہشت گردوں کی جانب سے درجنوں آڈيو اور ويڈيو پيغامات جو انھوں نے خود ريليز کيے ہيں جن ميں انھوں نے اپنے جرائم کا برملا اعتراف بھی کيا ہے انھيں محض چند چٹ پٹی سرخيوں کی خاطر نظرانداز نہیں کيا جا سکتا۔ امريکی حکومت کے پاس ايسی کوئ وجہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ہی اہم سفارتی عہديداروں کی پاکستان کے ساتھ طويل المدت اسٹريجيک شراکت کے ضمن ميں برسوں پر محيط سفارتی کاوشوں کو مليا ميٹ کر دے اور امريکی ٹيکس دہندگان کی جانب سے حاصل شدہ وسائل پر مبنی پاکستان پر صرف ہونے والے خطير امريکی امدادی پيکج کو ضائع کر دے۔ پاکستان میں جمہوری اداروں کا استحکام خود ہمارے مفاد ميں ہے۔ اس کے برعکس پاکستان ميں افراتفری اور بے چينی کی صورت حال سے افغانستان ميں ہماری کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے جہاں ہماری افواج اسی دشمن کے خلاف برسرپيکار ہيں جو پاکستان کے ليے بھی خطرہ ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بے مقصد سازشی کہانيوں کو نظرانداز کر کے اپنے مشترکہ دشمن کو پہچان ليا جائے جو اپنے مقاصد اور عزائم کو پورا کرنے کے ضمن ميں کسی تامل کا مظاہرہ نہيں کرتا۔ وہ دشمن آئے دن بے رحمانہ طريقے سے پاکستانی شہريوں کو قتل کر رہا ہے اور کھلے عام اس نظريے اور سوچ کو چيلنج کر رہا ہے جس کی بنياد قائداعظم نے 6 دہائيوں پہلے رکھی تھی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

عسکری

معطل
اچھا یار ہم احمق ہیں اور سازشی ہیں جا اپنی تنخواہ کھری کر اور دینے والے کو میرا ایک پیخام دے دینا کہ یہ جو ہر فورم پر تم جیسے لوگ چھوڑ رکھے ہیں اس کی وجہ سے بھی ہمارے دل میں امریکہ کے لیے نفرت بڑھ رہی ہے جو روز روز امریکہ کے جھوٹے قصیدے سنا سنا کر ہمیں مزید مشتعل کر رہے ہیںِ۔اور جو اپنی بیوی کے بھائیوں اور بیوی کو مار سکتا ہے وزیر اس کے آگے کیڑے مکوڑے اور عوام مچھر ہےِ کم از کم ہمیں اب امریکی تنخواہ دار تو نا سمجھآیں کہ ہماری حکومت کیسی ہےِ۔



ہر بات میں سازش کی بو محسوس کرنے والے بعض رائے دہندگان کی منطق اکثر سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے۔ ايک جانب تو يہ دعوی کيا جاتا ہے کہ پاکستان ميں ہونے والے ہر اہم قتل کے پيچھے سی –آئ – اے/بليک واٹر يا ریمنڈ ڈيوس جيسے کردار موجود ہوتے ہيں۔ پھر دوسری جانب حکومت پاکستان کو اس بنا پر تنقید کا نشانہ بنايا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے مبينہ امريکی کرائے کے قاتلوں کو ويزے جاری کيے گئے ہيں۔ اگر مفروضے کے طور پر ان دونوں احمقانہ دلائل کو تسليم بھی کر ليا جائے تو اس کا مطلب يہ نکلتا ہے کہ پاکستانی حکومت دراصل خود اپنے ہی وفاقی وزیروں، گورنر، اہم سياسی قائدين اور مختلف حکومتی اداروں پر حملوں کے واقعات کے ضمن ميں دانستہ مدد فراہم کر رہی ہے۔ دنيا کی کوئ بھی حکومت اپنی رٹ کو کمزور کرنے اور دانستہ اپنے ہی قائدين کو قتل کر کے ملک کو غير مستحکم نہيں کر سکتی۔

اس دليل ميں نہ ہی کوئ منطق ہے اور نہ ہی کوئ دانش کا پہلو۔

اس کے علاوہ گزشتہ چند برسوں کے دوران جتنے بھی دہشت گرد گرفتار يا ہلاک ہوئے ہيں يا خودکش حملہ آور پکڑے گئے ہيں، ان ميں سے کتنے امريکی ہیں؟ دہشت گردوں کی جانب سے درجنوں آڈيو اور ويڈيو پيغامات جو انھوں نے خود ريليز کيے ہيں جن ميں انھوں نے اپنے جرائم کا برملا اعتراف بھی کيا ہے انھيں محض چند چٹ پٹی سرخيوں کی خاطر نظرانداز نہیں کيا جا سکتا۔ امريکی حکومت کے پاس ايسی کوئ وجہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ہی اہم سفارتی عہديداروں کی پاکستان کے ساتھ طويل المدت اسٹريجيک شراکت کے ضمن ميں برسوں پر محيط سفارتی کاوشوں کو مليا ميٹ کر دے اور امريکی ٹيکس دہندگان کی جانب سے حاصل شدہ وسائل پر مبنی پاکستان پر صرف ہونے والے خطير امريکی امدادی پيکج کو ضائع کر دے۔ پاکستان میں جمہوری اداروں کا استحکام خود ہمارے مفاد ميں ہے۔ اس کے برعکس پاکستان ميں افراتفری اور بے چينی کی صورت حال سے افغانستان ميں ہماری کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے جہاں ہماری افواج اسی دشمن کے خلاف برسرپيکار ہيں جو پاکستان کے ليے بھی خطرہ ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بے مقصد سازشی کہانيوں کو نظرانداز کر کے اپنے مشترکہ دشمن کو پہچان ليا جائے جو اپنے مقاصد اور عزائم کو پورا کرنے کے ضمن ميں کسی تامل کا مظاہرہ نہيں کرتا۔ وہ دشمن آئے دن بے رحمانہ طريقے سے پاکستانی شہريوں کو قتل کر رہا ہے اور کھلے عام اس نظريے اور سوچ کو چيلنج کر رہا ہے جس کی بنياد قائداعظم نے 6 دہائيوں پہلے رکھی تھی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

سویدا

محفلین
ہر بات میں سازش کی بو محسوس کرنے والے بعض رائے دہندگان کی منطق اکثر سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے۔ ايک جانب تو يہ دعوی کيا جاتا ہے کہ پاکستان ميں ہونے والے ہر اہم قتل کے پيچھے سی –آئ – اے/بليک واٹر يا ریمنڈ ڈيوس جيسے کردار موجود ہوتے ہيں۔ پھر دوسری جانب حکومت پاکستان کو اس بنا پر تنقید کا نشانہ بنايا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے مبينہ امريکی کرائے کے قاتلوں کو ويزے جاری کيے گئے ہيں۔ اگر مفروضے کے طور پر ان دونوں احمقانہ دلائل کو تسليم بھی کر ليا جائے تو اس کا مطلب يہ نکلتا ہے کہ پاکستانی حکومت دراصل خود اپنے ہی وفاقی وزیروں، گورنر، اہم سياسی قائدين اور مختلف حکومتی اداروں پر حملوں کے واقعات کے ضمن ميں دانستہ مدد فراہم کر رہی ہے۔ دنيا کی کوئ بھی حکومت اپنی رٹ کو کمزور کرنے اور دانستہ اپنے ہی قائدين کو قتل کر کے ملک کو غير مستحکم نہيں کر سکتی۔

اس دليل ميں نہ ہی کوئ منطق ہے اور نہ ہی کوئ دانش کا پہلو۔

اس کے علاوہ گزشتہ چند برسوں کے دوران جتنے بھی دہشت گرد گرفتار يا ہلاک ہوئے ہيں يا خودکش حملہ آور پکڑے گئے ہيں، ان ميں سے کتنے امريکی ہیں؟ دہشت گردوں کی جانب سے درجنوں آڈيو اور ويڈيو پيغامات جو انھوں نے خود ريليز کيے ہيں جن ميں انھوں نے اپنے جرائم کا برملا اعتراف بھی کيا ہے انھيں محض چند چٹ پٹی سرخيوں کی خاطر نظرانداز نہیں کيا جا سکتا۔ امريکی حکومت کے پاس ايسی کوئ وجہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ہی اہم سفارتی عہديداروں کی پاکستان کے ساتھ طويل المدت اسٹريجيک شراکت کے ضمن ميں برسوں پر محيط سفارتی کاوشوں کو مليا ميٹ کر دے اور امريکی ٹيکس دہندگان کی جانب سے حاصل شدہ وسائل پر مبنی پاکستان پر صرف ہونے والے خطير امريکی امدادی پيکج کو ضائع کر دے۔ پاکستان میں جمہوری اداروں کا استحکام خود ہمارے مفاد ميں ہے۔ اس کے برعکس پاکستان ميں افراتفری اور بے چينی کی صورت حال سے افغانستان ميں ہماری کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے جہاں ہماری افواج اسی دشمن کے خلاف برسرپيکار ہيں جو پاکستان کے ليے بھی خطرہ ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بے مقصد سازشی کہانيوں کو نظرانداز کر کے اپنے مشترکہ دشمن کو پہچان ليا جائے جو اپنے مقاصد اور عزائم کو پورا کرنے کے ضمن ميں کسی تامل کا مظاہرہ نہيں کرتا۔ وہ دشمن آئے دن بے رحمانہ طريقے سے پاکستانی شہريوں کو قتل کر رہا ہے اور کھلے عام اس نظريے اور سوچ کو چيلنج کر رہا ہے جس کی بنياد قائداعظم نے 6 دہائيوں پہلے رکھی تھی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
بہت ہی آسان، عام فہم اوربدیہی بات ہے
ہمارے حکمرانوں کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہوتی نہ وہ اپنی مرضی سے آتے ہیں اور نہ اپنی مرضی سے جاتے ہیں
بے چارے جب مصیبت میں پھنستے ہیں تو امریکہ اور برطانیہ ہی انہیں پناہ دیتے ہیں
ہماری جمہوریت صرف دکھاوے کی ہے اور سب پتلی تماشہ ہے ، حکمرانوں کو صرف اپنی دولت شہرت کرسی اور بینک بیلنس کی فکر ہے
ہمارے ملک میں ہوتا وہی ہے جو آنجناب کے حکام بالا چاہتے ہیں
اوربے شمار مثالیں اس کی شاہد ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
پاکستان کے حکمران اور بہت سے سیاسی لیڈر اتنے محب وطن ہیں کہ اپنا مال و دولت پاکستان سے باہر رکھتے ہیں، جائیداد پاکستان سے باہر بناتے ہیں۔ اور تو اور دوسرے ملکوں کی شہریت بھی لے رکھی ہے۔

ان کی وطن پرستی تو یہیں ظاہر ہو جاتی ہے۔
 
Top