سید زبیر
محفلین
صابر ظفر
سر بزم تحیر رُو بروئے یار می رقصم
وفور عشق سے امشب ستارہ وار می رقصم
میں ایسا ہوں کہ وہ کبھی مجھ سے غافل نہیں رہتا
تو کیسا ہے ؟وہ جب کرتا ہے استفسار.می رقصم
مِری وحشت تو میرے پاؤں ٹکنے ہی نہیں دیتی
سرِخانہ،سرِمحفل سر بازار می رقصم
نظر ٹھہرے جہاں میری ،وہیں رہتا ہوں میں رقصاں
اسی باعث سدا پیش لب و رخسار می رقصم
ادھر تو دھیان ہی میرا نہیں اجرِ وفا کیا ہے
ترے قدموں میں رکھ کر جبُہ و دستار می رقصم
نچایا عشق نے جیسے بُلھے کو تھَیا تھَیا کر
اُسی دھج سے بوقت جستجوئے یار می رقصم
سبھی بستی مردوزن نجانے سو گئے کب سے
مگر جاڑے کی ایک شب میں ایک زندہ دار ،می رقصم
اِسی باعث تو میں تھکتا نہیں ناچتے گاتے
بہت کھینچا ہوا ہے عشق میں آزار ، می رقصم
کبھی ہیں جام پرنظریں ،کبھی گُلفام پر نظریں
میں ہوں مے نوش،می رقصم ، میں ہوں دلدار می رقصم
نہیں جانوں کہ وہ ہے دوسرے رَقاص پر شیدا
میں جانوں یہ کہ وہ کتنا ہے جانبدار ، می رقصم
کوئی بھیگا بدن ہے نیم عریاں سامنے میرے
سناتے ہیں میرے گھنگرو مجھے ملہار، می رقصم
دھلے پر دیکھ کر میرا ،مِرا ہمزاد خوش ہوگا
گھٹا برسی ہے ،میں کھولے ہوئے منقار ،می رقصم
یہ وہ دنیا نہیں جس کے لیے آیا تھا دنیا میں
مگر اوروں کے جیسا بن کے دنیا دار، می رقصم
بڑے چکر ہیں چاہت میں بڑے چرکے ہیں قسمت میں
تہِ شمشیر می رقصم ، تہ پرکار می رقصم
عجب خوفِ قیامت ہے کہ ہر پل تھر تھراتا ہوں
کہ لرزے زلزلے سے جس طرح کہسار ، می رقصم
مدارج رقص کے بے انتہا ہیں سامنے میرے
کسی کے بیچ می رقصم ، کسی کے پار می رقصم
بغیر اس کے تو ہوجاتا ہے خود کو دیکھنا مشکل
میں جب تکتا ہوں وہ آئینۂ رخسار، می رقصم
موذن اور امام اکثر مجھے چھپ چھپ کے تکتے ہیں
عبادت گاہ میں (مجھ پر خدا کی مار ) می رقصم
ترے اہلِ محلہ کا سلوک اچھا نہیں تو کیا
مجھے کب روک پائی ہے کوئی دھتکار ، می رقصم
ازل سے دائرہ اور دائرہ رقصاں رہا یعنی
میں دستِ غیب کے تابع تہِ پُرکارمی رقصم
قوافی مَیں نہیں لکھوں گا یہ' تو کون لکھے گا
اگر آزار ہے یہ تو بصد آزار ،می رقصم
ظفر ہیں بعد کی باتیں ، خریدا جائے گا مجھ کو
ابھی تو ازلِ شب ، زینت دربار می رقصم
کولاژ. میں مطبوعہ صابر ظفر کا کلام
سر بزم تحیر رُو بروئے یار می رقصم
وفور عشق سے امشب ستارہ وار می رقصم
میں ایسا ہوں کہ وہ کبھی مجھ سے غافل نہیں رہتا
تو کیسا ہے ؟وہ جب کرتا ہے استفسار.می رقصم
مِری وحشت تو میرے پاؤں ٹکنے ہی نہیں دیتی
سرِخانہ،سرِمحفل سر بازار می رقصم
نظر ٹھہرے جہاں میری ،وہیں رہتا ہوں میں رقصاں
اسی باعث سدا پیش لب و رخسار می رقصم
ادھر تو دھیان ہی میرا نہیں اجرِ وفا کیا ہے
ترے قدموں میں رکھ کر جبُہ و دستار می رقصم
نچایا عشق نے جیسے بُلھے کو تھَیا تھَیا کر
اُسی دھج سے بوقت جستجوئے یار می رقصم
سبھی بستی مردوزن نجانے سو گئے کب سے
مگر جاڑے کی ایک شب میں ایک زندہ دار ،می رقصم
اِسی باعث تو میں تھکتا نہیں ناچتے گاتے
بہت کھینچا ہوا ہے عشق میں آزار ، می رقصم
کبھی ہیں جام پرنظریں ،کبھی گُلفام پر نظریں
میں ہوں مے نوش،می رقصم ، میں ہوں دلدار می رقصم
نہیں جانوں کہ وہ ہے دوسرے رَقاص پر شیدا
میں جانوں یہ کہ وہ کتنا ہے جانبدار ، می رقصم
کوئی بھیگا بدن ہے نیم عریاں سامنے میرے
سناتے ہیں میرے گھنگرو مجھے ملہار، می رقصم
دھلے پر دیکھ کر میرا ،مِرا ہمزاد خوش ہوگا
گھٹا برسی ہے ،میں کھولے ہوئے منقار ،می رقصم
یہ وہ دنیا نہیں جس کے لیے آیا تھا دنیا میں
مگر اوروں کے جیسا بن کے دنیا دار، می رقصم
بڑے چکر ہیں چاہت میں بڑے چرکے ہیں قسمت میں
تہِ شمشیر می رقصم ، تہ پرکار می رقصم
عجب خوفِ قیامت ہے کہ ہر پل تھر تھراتا ہوں
کہ لرزے زلزلے سے جس طرح کہسار ، می رقصم
مدارج رقص کے بے انتہا ہیں سامنے میرے
کسی کے بیچ می رقصم ، کسی کے پار می رقصم
بغیر اس کے تو ہوجاتا ہے خود کو دیکھنا مشکل
میں جب تکتا ہوں وہ آئینۂ رخسار، می رقصم
موذن اور امام اکثر مجھے چھپ چھپ کے تکتے ہیں
عبادت گاہ میں (مجھ پر خدا کی مار ) می رقصم
ترے اہلِ محلہ کا سلوک اچھا نہیں تو کیا
مجھے کب روک پائی ہے کوئی دھتکار ، می رقصم
ازل سے دائرہ اور دائرہ رقصاں رہا یعنی
میں دستِ غیب کے تابع تہِ پُرکارمی رقصم
قوافی مَیں نہیں لکھوں گا یہ' تو کون لکھے گا
اگر آزار ہے یہ تو بصد آزار ،می رقصم
ظفر ہیں بعد کی باتیں ، خریدا جائے گا مجھ کو
ابھی تو ازلِ شب ، زینت دربار می رقصم
کولاژ. میں مطبوعہ صابر ظفر کا کلام