وقار یونس ہیڈ کوچ کے عہدے سے مستعفی، سلیکشن کمیٹی بھی تحلیل!

arifkarim

معطل
وقار یونس ہیڈ کوچ کے عہدے سے مستعفی، سلیکشن کمیٹی بھی تحلیل
484853-WaqarYounusWeb-1459778021-490-640x480.jpg

کرکٹ بورڈ میرا گھر ہے اس کی بدنامی کا باعث نہیں بننا چاہتا، وقار یونس، فوٹو؛ فائل
لاہور: قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جب کہ پی سی بی نے سلیکشن کمیٹی بھی تحلیل کردی۔

لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس نے اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کیا جب کہ ان کا کہنا تھا کہ 19 ماہ پوری ایمانداری سے کام کیا، بہت بوجھل دل سے کے ساتھ عہدہ چھوڑ رہا ہوں، میرا کنٹریکٹ ختم ہونے میں اب بھی 3 ماہ باقی ہیں جس کے عوض میری تقریباً 50 لاکھ کی رقم ہے لیکن کرکٹ بورڈ سے اپیل ہے کہ اس پیسے کو فرسٹ کلاس کرکٹ پر لگایا جائے اور کرکٹ کی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے۔
وقار یونس نے کہا کہ پی سی بی نے میری رپورٹ لیک کرکے زیادتی کی لیکن کرکٹ بورڈ میرا گھر ہے اس کی بدنامی کا باعث نہیں بننا چاہتا اور استعفیٰ بھی ملکی بدنامی کے باعث دیا۔ انہوں نے کہا کہ میری تجاویز پر عمل کیا گیا تو آنے والے کوچ کے لیے آسانیاں ہوں گی، جب بھی ضرورت پڑی کرکٹ کی خدمت کے لیے دستیاب ہوں جب کہ کرکٹرز سے درخواست ہے کہ میری خدمات نہ بھلائی جائیں۔
دوسری جانب پی سی بی نے سلیکشن کمیٹی کو بھی تحلیل کردیا جب کہ نئے کوچ کی تلاش کا کام سابق کرکٹرز وسیم اکرم اور رمیز راجہ کے سپرد کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پی سی بی کی جانب سے میڈیا ترجمان مقرر کیا جائے گا جس کی باقاعدہ بریفنگز ہوں گی جب کہ دورہ انگلینڈ سے قبل قومی ٹیم کا تربیتی کیمپ ایبٹ آباد میں لگے گا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ شاہد آفریدی کی کپتان چھوڑنے کےبعد ٹی ٹوئنٹی کے لیے نئے کپتان کا اعلان بھی جلد کردیا جائے گا
واضح رہے کہ ایشیا کپ اور ورلڈٹی ٹوئنٹی میں قومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کےبعد ہیڈ کوچ سمیت تمام آفیشل کو شدید تنقید کا سامنا ہے جس کے باعث کرکٹ بورڈ نے اعلیٰ سطح پر تبدیلیوں کا فیصلہ کیا ہے جب کہ قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی بھی اپنی کپتانی سے مستعفی ہوچکے ہیں۔
حوالہ
 

arifkarim

معطل
لاہور: قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جب کہ پی سی بی نے سلیکشن کمیٹی بھی تحلیل کردی۔
بس اب پی سی بی کی تحلیل باقی ہے۔ نواز شریف اسے بھی تحلیل کر دو اور قوم کی جان چھوڑ کر واپس پاناما شفٹ ہو جاؤ جہاں آپ اور آپ کے اہل و عیال کی جائداد و اثاثے موجود ہیں۔ :heehee:
 

یاز

محفلین
چلیں کچھ جنبش تو ہوئی۔ ویسے یہاں بھی بس شلجموں سے مٹی جھاڑی جائے گی۔ کچھ عرصے میں وہی سب لوگ کرکٹ سے چمٹے نظر آئیں گے۔
 

یاز

محفلین

arifkarim

معطل
چلیں کچھ جنبش تو ہوئی۔ ویسے یہاں بھی بس شلجموں سے مٹی جھاڑی جائے گی۔ کچھ عرصے میں وہی سب لوگ کرکٹ سے چمٹے نظر آئیں گے۔
میرا کنٹریکٹ ختم ہونے میں اب بھی 3 ماہ باقی ہیں جس کے عوض میری تقریباً 50 لاکھ کی رقم ہے لیکن کرکٹ بورڈ سے اپیل ہے کہ اس پیسے کو فرسٹ کلاس کرکٹ پر لگایا جائے اور کرکٹ کی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے۔
یعنی فی ماہ قریباً 20 لاکھ روپے کھانے والوں کو قوم کی امیدوں، امنگوں کی کیا پرواہ۔ اصل کرکٹ وہی تھی جو ویسٹ انڈیز نے مالی تنگی کے باوجود کھیل کر جیتی۔
 
وقار یونس بھائی نے تاریخی سخاوت کرتے ہوئے اپنے تین ماہ کی تنخواہ بورڈ کو معاف کر دی جو کہ لگ بھگ 5 لاکھ کے قریب ہے۔
میں سوچ رہا جب مورخ یہ لکھے گا تو اس پر کیا بیتے گی، بیچارہ ایسی سخاوت دیکھ کر کنگ ہو جائے گا۔ وقار بھائی وقار است جی۔
 

حسیب

محفلین
یہ ٹیم باب وولمروں سے بھی نہ سدھر سکی۔
باب وولمر کی کوچنگ میں ٹیم رینکنگ میں دوسرے نمبر تک بھی پہنچی تھی

ضروری نوٹ : میرے خیال میں کسی بھی ٹیم کی اصل کارکردگی اس کی رینکنگ پوزیشن سے ہی ظاہر ہوتی ہےکوئی بھی سیریز یا ٹرافی آپ چند میچوں میں اچھی کارکردگی دیکھا کر جیت سکتے ہیں لیکن رینکنگ میں اوپر جانے کے لیے آپ کو متواتر اچھی کارکردگی دیکھانی پڑتی ہے
 

arifkarim

معطل
اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ یہ ٹیم باب وولمروں سے بھی نہ سدھر سکی۔ علاج یہ ہے کہ کوچ رکھا ہی نہ جائے۔ یوں کچھ روپلی ہی بچ جائے گی۔
میرے خیال میں پاکستانی باؤلنگ کو سپنر کی کمی کے علاوہ اور کوئی خاص خطرہ نہیں۔ البتہ بیٹنگ کوچ کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالہ سے زیادہ دور نہیں، سری لنکن کوچ منگوایا جا سکتا ہے جیسا کہ دلشان یا سنگا کارا۔
 
میرے خیال میں پاکستانی باؤلنگ کو سپنر کی کمی کے علاوہ اور کوئی خاص خطرہ نہیں۔ البتہ بیٹنگ کوچ کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالہ سے زیادہ دور نہیں، سری لنکن کوچ منگوایا جا سکتا ہے جیسا کہ دلشان یا سنگا کارا۔

دلشان ؟؟؟ حیرت سے سر گھمانے والی اسمائیلی۔
مہیلا جے وردھنے کو بُلایا جائے اگر بلانا ہے ۔چونکہ اس نے انگلینڈ کیساتھ کام بھی کیا۔ یوں بھی وہ سنگا، دلشان سے تیز کرکٹر تھا۔
ویسے کیوں ان بیچاروں کی ساکھ کو راکھ میں ملانا چاہ رہے ہیں۔ لہذا یہاں سے کسی کو موقع دے دیں۔
 

یوسف سلطان

محفلین
انہوں نے کہا کہ میری تجاویز پر عمل کیا گیا تو آنے والے کوچ کے لیے آسانیاں ہوں گی
کہ کیسے ٹیم کو مزید برباد کیا جاوے :heehee:
جب بھی ضرورت پڑی کرکٹ کی خدمت کے لیے دستیاب ہوں
اللہ نہ کرے اگے ہی بڑی ہوندی پئی اے :battingeyelashes:
جب کہ کرکٹرز سے درخواست ہے کہ میری خدمات نہ بھلائی جائیں۔
تسی ٹینشن نہ لوو جی ، خیری سلا بھلائیں گئے ، پورا ملک نہیں بھولے کا خدمات کو :notworthy:
اللہ سوہنے دے حوالے :wave::whew:
 
ویسے مہیلا جے وردھنے اور کمار سنگا کارا نے ریٹائر منٹ کیبعد ایک انٹرویو میں لنکن نیشنل ٹیم کی کوشنگ کے متعلق کہا تھا کہ
ان کے کچھ معاہدے ہیں،جنکو مکمل کرنے (مطلب بڈھے وارے پیسے کمانے) کیبعد وہ آبائی شہروں میں ینگ کرکٹرز کو کوچ کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔
اور غالباََ وہ ایسا ہی کچھ کرینگے۔ارواندا بھائی بھی ایسا کر رہے ہیں۔
 

یاز

محفلین
میرے خیال میں پاکستانی باؤلنگ کو سپنر کی کمی کے علاوہ اور کوئی خاص خطرہ نہیں۔ البتہ بیٹنگ کوچ کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالہ سے زیادہ دور نہیں، سری لنکن کوچ منگوایا جا سکتا ہے جیسا کہ دلشان یا سنگا کارا۔

میں شاید اپنی بات سمجھا نہیں پایا۔ میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ پاکستان کرکٹ کے مسائل ان تکنیکی باریکیوں سے کہیں بڑے اور گھمبیر ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ احتساب کا ہے کہ یہاں کسی کو ڈر نہیں کہ کوئی پوچھے گا۔ کھلاڑی اپنی من مانی کرتے ہیں اور بورڈ انتظامیہ بشمول سلیکشن کمیٹی ایسے فیصلے کرتے ہیں کہ چارلی چپلن یا امان اللہ جیسے کامیڈین کو بھی مات کرتے ہیں۔ ماضی قریب کی مثال ہی دیکھ لیں کہ کیسے انہوں نے رفعت اللہ مہمند کا مردہ قبر سے نکال کے اس کو ٹی20 کھلا لیا۔یا خرم منظور کو ٹی20 میں اور یونس خان کو ون ڈے ٹیم میں ڈال دیا۔

دنیا میں جن ٹیموں نے عروج دیکھا ہے، وہاں انتظامیہ کے معاملات پر ہولڈ کا اندازہ اس بات سے کر لیں کہ سٹیو واہ جیسے عظیم کھلاڑی کو اس کی خواہشات کے باوجود سلیکشن کمیٹی نے 2003 کے ورلڈکپ میں نہ کھلایا۔ یہی کام مائیکل بیون جیسے کھلاڑی کے ساتھ 2007 کے ورلڈکپ میں کیا گیا (یعنی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا)۔ بھارت میں 2007 تک ٹیم میں گروہ بندی اور بدانتظامی عروج پہ تھی اس لئے ٹنڈولکر، ڈراوڈ، سہواگ، کمبلے وغیرہ کے باوجود ٹیم کے کریڈٹ پہ کچھ نہیں تھا۔ 2007 میں بھارتی بورڈ کا سربراہ شردپوار نامی سیاست دان کو بنایا گیا، جس نے پلیئر پاور کا ایسا خاتمہ کیا کہ ڈراوڈ اور گنگولی جیسے کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر بٹھا دیا۔ اس کے بعد سے انڈین کرکٹ کارنامے سمیٹے جا رہی ہے۔
یہی حال انگلش انتظامیہ نے اپنی حالیہ تاریخ کے کامیاب ترین بلے باز کیون پیٹرسن کے ساتھ کیا، یعنی ڈسپلن کی خلاف ورزی پہ ٹیم سے باہر کر دیا۔

یہاں یہ عالم ہے کہ ورلڈکپ میں ذلیل و رسوا اور نامراد ہونے کے بعد بھی کرکٹ بورڈ کا چیئرمین شاہد آفریدی کا شکریہ ادا کر رہا ہے کہ انہوں نے رضاکارانہ طور پہ کپتانی چھوڑ دی۔(یعنی ہم تو ان کو اتارنے کی سکت نہ رکھتے تھے)۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
میں شاید اپنی بات سمجھا نہیں پایا۔ میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ پاکستان کرکٹ کے مسائل ان تکنیکی باریکیوں سے کہیں بڑے اور گھمبیر ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ احتساب کا ہے کہ یہاں کسی کو ڈر نہیں کہ کوئی پوچھے گا۔ کھلاڑی اپنی من مانی کرتے ہیں اور بورڈ انتظامیہ بشمول سلیکشن کمیٹی ایسے فیصلے کرتے ہیں کہ چارلی چپلن یا امان اللہ جیسے کامیڈین کو بھی مات کرتے ہیں۔ ماضی قریب مثال ہی دیکھ لیں کہ کیسے انہوں نے رفعت اللہ مہمند کا مردہ قبر سے نکال کے اس کو ٹی20 کھلا لیا۔یا خرم منظور کو ٹی20 میں اور یونس خان کو ون ڈے ٹیم میں ڈال دیا۔

دنیا میں جن ٹیموں نے عروج دیکھا ہے، وہاں انتظامیہ کے معاملات پر ہولڈ کا اندازہ اس بات سے کر لیں کہ سٹیو واہ جیسے عظیم کھلاڑی کو اس کی خواہشات کے باوجود سلیکشن کمیٹی نے 2003 کے ورلڈکپ میں نہ کھلایا۔ یہی کام مائیکل بیون جیسے کھلاڑی کے ساتھ 2007 کے ورلڈکپ میں کیا گیا (یعنی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا)۔ بھارت میں 2007 تک ٹیم میں گروہ بندی اور بدانتظامی عروج پہ تھی اس لئے ٹنڈولکر، ڈراوڈ، سہواگ، کمبلے وغیرہ کے باوجود ٹیم کے کریڈٹ پہ کچھ نہیں تھا۔ 2007 میں بھارتی بورڈ کا سربراہ شردپوار نامی سیاست دان کو بنایا گیا، جس نے پلیئر پاور کا ایسا خاتمہ کیا کہ ڈراوڈ اور گنگولی جیسے کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر بٹھا دیا۔ اس کے بعد سے انڈین کرکٹ کارنامے سمیٹے جا رہی ہے۔
یہی حال انگلش انتظامیہ نے اپنی حالیہ تاریخ کے کامیاب ترین بلے باز کیون پیٹرسن کے ساتھ کیا، یعنی ڈسپلن کی خلاف ورزی پہ ٹیم سے باہر کر دیا۔

یہاں یہ عالم ہے کہ ورلڈکپ میں ذلیل و رسوا اور نامراد ہونے کے بعد بھی کرکٹ بورڈ کا چیئرمین شاہد آفریدی کا شکریہ ادا کر رہا ہے کہ انہوں نے رضاکارانہ طور پہ کپتانی چھوڑ دی۔(یعنی ہم تو ان کو اتارنے کی سکت نہ رکھتے تھے)۔

بقول عمران خان کے یہ سب مسائل 80، 90 کی دہائی میں بھی تھے لیکن اسوقت وہ ضدی بچے کی طرح بورڈ کے آگے اڑ کر اپنی من مانی کرتا تھا اور اسی لئے صرف ان کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرتا جو اسکے جھولی چک تھے۔ یوں کم از کم ٹیم باہم مل جل کر کھیل کا مظاہرہ کرتی تھی۔ اب کی طرح نہیں کہ ہر کھلاڑی اپنی مرضی سے کھیل رہا ہے۔
 

یاز

محفلین
بقول عمران خان کے یہ سب مسائل 80، 90 کی دہائی میں بھی تھے لیکن اسوقت وہ ضدی بچے کی طرح بورڈ کے آگے اڑ کر اپنی من مانی کرتا تھا اور اسی لئے صرف ان کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرتا جو اسکے جھولی چک تھے۔ یوں کم از کم ٹیم باہم مل جل کر کھیل کا مظاہرہ کرتی تھی۔ اب کی طرح نہیں کہ ہر کھلاڑی اپنی مرضی سے کھیل رہا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ یہ معلومات غلط ہوں، لیکن میں نے بہت پہلے کہیں پڑھا تھا کہ اس وقت کے کرکٹ بورڈ کا چیئرمین زاہد علی اکبر عمران خان کا خالو تھا، سلیکشن کمیٹی کا چیئرمین جاوید برکی کزن تھا ، جبکہ ماجد خان بھی عمران کا کزن تھا اور بورڈ کے کسی انتظامی عہدے پر تھا۔ اس سب کا فائدہ یہ ہوا کہ عمران خان کا کرکٹ ٹیم پہ مضبوط ہولڈ بنا رہا۔ ورنہ جاوید میانداد اور قاسم عمر جیسے شرپسند اس وقت بھی موجود تھے۔

ایک بار پھر کہتا چلوں کہ یہ غیرمصدقہ اور سنی سنائی بات ہے۔
 
Top