محمد حسین
محفلین
وقت تھمتا نہ سانس رکتی ہے
شمعِ دل ہے کہ جلتی بجھتی ہے
روز تبد یل دنیا دیکھتا ہوں
اِک نئی راہ روز کھلتی ہے
سامنے آنے والے رُوپوں میں
اصلیت آدمی کی چُھپتی ہے
جینے کی ابتداء ہے حودغرضی
رش میں بندے کی سانس گُھٹتی ہے
عقل سے ماورائی ملتی ہے،جب
عشق میں دنگت اپنی گُھلتی ہے
اہمیت خود کو خود نہ دے جو حسین
بات کیا دنیا اُس کی سُنتی ہے؟
شمعِ دل ہے کہ جلتی بجھتی ہے
روز تبد یل دنیا دیکھتا ہوں
اِک نئی راہ روز کھلتی ہے
سامنے آنے والے رُوپوں میں
اصلیت آدمی کی چُھپتی ہے
جینے کی ابتداء ہے حودغرضی
رش میں بندے کی سانس گُھٹتی ہے
عقل سے ماورائی ملتی ہے،جب
عشق میں دنگت اپنی گُھلتی ہے
اہمیت خود کو خود نہ دے جو حسین
بات کیا دنیا اُس کی سُنتی ہے؟