وقفہ جو یہاں مجھ کو ابھی تھا کوئی دن اور - مرزا عزیز بیگ سہارنپوری (مخمس بر غزلِ غالب)

حسان خان

لائبریرین
وقفہ جو یہاں مجھ کو ابھی تھا کوئی دن اور
تم کو بھی مناسب تھا ٹھہرنا کوئی دن اور
تم نے نہ مرا ساتھ نباہا کوئی دن اور
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں، اب رہو تنہا کوئی دن اور
در پر ترے اس خاض غرض سے ہوں جبیں سا
منظور ہے ہستی کا مجھے اپنی مٹانا
ہے سخت اگر سنگِ در اس کی نہیں پروا
مٹ جائے گا سر، گر ترا پتھر نہ گھسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
بگڑے ہوئے آثار ہیں کیا بات بناؤں
کچھ روٹھ گئے ہو بتا دو کہ مناؤں
اک بات ذرا سی ہے جو مانو تو بتاؤں
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ جاؤں
مانا کہ ہمیشہ نہیں، اچھا، کوئی دن اور
دیرینہ محبت کا کیا پاس نہ تم نے
حیرت ہے کہ کس دل سے جدا ہوتے ہو مجھ سے
باندھی ہے کمر ملکِ عدم کے ہیں ارادے
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب، قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
کس ذوق سے تھا محوِ تماشا ابھی عارف
اس بزم سے کس واسطے اٹھا ابھی عارف
کیوں ہو گیا پیوند زمیں کا ابھی عارف
ہاں اے فلکِ پیر، جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
واللہ تمہیں گھر کے اجالے کا سبب تھے
چھایا ہے اک اندھیر مری آنکھوں کے آگے
کس خاک کے پردے میں چھپے میری نظر سے
تم ماہِ شبِ چاردہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور
مانا کہ وہ آیا تھا فقط جان ہی لینے
ممکن تھا کہ حیلے سے اُسے ٹالتے رہتے
کچھ بات بنا دیتے تو کیوں چھوٹتے ہم سے
تم کون سے تھے ایسے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور
جلدی جو یہ کی جانے میں کیا جی میں سمائی
جاتے ہوئے ہر ایک سے کیوں آنکھ پھرائی
افسوس نہ اپنوں کی بھی الفت تمہیں آئی
مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیّر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور
ناراض ہی تم تھے تو دلِ غمزدہ تھا خوش
تم سامنے تو رہتے تھے ناخوش رہے یا خوش
جب تم نہ رہے یہ تو کہو دل رہے کیا خوش
گذری نہ بہر حال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ! گذارا کوئی دن اور
چھوڑے گی ابھی جان کہاں رشتۂ قالب
مرزاؔ ابھی سمجھے نہیں تم اس کے مطالب
کیا زیست ہے ایسے کی جو ہو موت کا طالب
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالبؔ
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور
(مرزا عزیز بیگ سہارنپوری)
 

طارق شاہ

محفلین
چھوڑے گی ابھی جان کہاں رشتۂ قالب
مرزاؔ ابھی سمجھے نہیں تم اس کے مطالب
کیا زیست ہے ایسے کی جو ہو موت کا طالب
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالبؔ
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
کیا اچھا ہے جناب!
خان صاحب ،تشکّر شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں
 

سید زبیر

محفلین
حسان خان ! لاجواب شراکت ،
واللہ تمہیں گھر کے اجالے کا سبب تھے
چھایا ہے اک اندھیر مری آنکھوں کے آگے
کس خاک کے پردے میں چھپے میری نظر سے
تم ماہِ شبِ چاردہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور
 


وقفہ جو یہاں مجھ کو ابھی تھا کوئی دن اور
تم کو بھی مناسب تھا ٹھہرنا کوئی دن اور
تم نے نہ مرا ساتھ نباہا کوئی دن اور
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں، اب رہو تنہا کوئی دن اور

در پر ترے اس خاض غرض سے ہوں جبیں سا
منظور ہے ہستی کا مجھے اپنی مٹانا
ہے سخت اگر سنگِ در اس کی نہیں پروا
مٹ جائے گا سر، گر ترا پتھر نہ گھسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور

بگڑے ہوئے آثار ہیں کیا بات بناؤں
کچھ روٹھ گئے ہو بتا دو کہ مناؤں
اک بات ذرا سی ہے جو مانو تو بتاؤں
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ جاؤں
مانا کہ ہمیشہ نہیں، اچھا، کوئی دن اور

دیرینہ محبت کا کیا پاس نہ تم نے
حیرت ہے کہ کس دل سے جدا ہوتے ہو مجھ سے
باندھی ہے کمر ملکِ عدم کے ہیں ارادے
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب، قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

کس ذوق سے تھا محوِ تماشا ابھی عارف
اس بزم سے کس واسطے اٹھا ابھی عارف
کیوں ہو گیا پیوند زمیں کا ابھی عارف
ہاں اے فلکِ پیر، جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

واللہ تمہیں گھر کے اجالے کا سبب تھے
چھایا ہے اک اندھیر مری آنکھوں کے آگے
کس خاک کے پردے میں چھپے میری نظر سے
تم ماہِ شبِ چاردہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور

مانا کہ وہ آیا تھا فقط جان ہی لینے
ممکن تھا کہ حیلے سے اُسے ٹالتے رہتے
کچھ بات بنا دیتے تو کیوں چھوٹتے ہم سے
تم کون سے تھے ایسے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور

جلدی جو یہ کی جانے میں کیا جی میں سمائی
جاتے ہوئے ہر ایک سے کیوں آنکھ پھرائی
افسوس نہ اپنوں کی بھی الفت تمہیں آئی
مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیّر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور

ناراض ہی تم تھے تو دلِ غمزدہ تھا خوش
تم سامنے تو رہتے تھے ناخوش رہے یا خوش
جب تم نہ رہے یہ تو کہو دل رہے کیا خوش
گذری نہ بہر حال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ! گذارا کوئی دن اور

چھوڑے گی ابھی جان کہاں رشتۂ قالب
مرزاؔ ابھی سمجھے نہیں تم اس کے مطالب
کیا زیست ہے ایسے کی جو ہو موت کا طالب
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالبؔ
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور​
 
Top