محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ولندیزیوں کے دیس میں
(1)
کہتے ہیں کہ ایک ایسا وقت بہت دور نہیں جب روئے زمین پر صرف پانچ بادشاہ رہ جائیں گے، تاش کے چار بادشاہ اور پانچواں انگلستان کا بادشاہ۔ ۱۹۵۲ء تک تو یہی محسوس ہوتا تھا۔پھر یوں ہوا کہ ملکہ برطانیہ محترمہ الزبیتھ دوم نے تخت سنبھالا اور تخت و تاج سے یوں چمٹیں کہ آج تقریباً ساٹھ سال سے زیادہ ہوگئے، اور ان کا بیٹا شہزادہ چارلس بھی بوڑھا ہوچلا ہے اور اس کی بادشاہت کی تمام امیدیں دم توڑتی ہوئی نظر آتی ہیں، وہ تخت چھوڑنے پر تیار نہیں، ساتھ ہی اس کہاوت کے سچ ہونے میں بھی شبہہ ہونے لگا تھا ۔آج صبح جب ہم نے اخبار کھولا اور ہالینڈ کے نئے بادشاہ ولیم الیگزینڈر کو اپنی خوبصورت بیوی ملکہ میگزما کے ساتھ کھڑے دیکھا تو ہمیں لگا کہ شاید پانچواں بادشاہ یہی شاہ ولیم الیگزینڈر ہو۔
یہی نہیں بلکہ ہماری سوچوں نے ہمارے ذہن کو آج سے تقریباً بائیس تیئیس سال پیشتر اپنے پہلے ولندیزی سفر کی جانب دھکیل دیا۔ رنگارنگ ولندیزی ٹیولپس، ولندیزی لکڑی کے جوتے، ولندیزی پون چکیاں اور ولندیزی حُسن ، کیا کیا نہ یاد آیا۔ ہم نے ہالینڈ کے کل چھ سفر کیے اور آج تک اس کےنشے میں ہیں۔
یہ اوائل فروری ۱۹۹۰ ء کا ذکر ہے، ہم اسلام آباد میں اپنی آخری شامیں گزار رہے تھے، وہ بھی اس طرح کہ ہمیں اپنے آبائی شہر کراچی سے فلپس پاکستان کی نوکری کی پیش کش موصول ہوچکی تھی اور ہم تھوڑا تھوڑا کرکے اپنے گھر کے سامان کو پیک کرنے کی ناکام کوشش کررہے تھے جو ایک کارِ گراں نظر آتا تھا۔ ۹ فروری بروز جمعۃ المبارک ہم نے تنگ آکر صبح سویرے آب پارہ مارکیٹ کے پیچھے واقع کال سنٹر سے فلپس کمپنی کے ڈائرکٹر ہیومن ریسوریس (جو اس زمانے میں ڈائرکٹر پرسنیل کہلاتے تھے ) کو فون گھمادیا۔
’’السلام علیکم سر! ہم محمد خلیل الرحمٰن بول رہےہیں اسلام آباد سے‘‘
’’ہاں کہو خلیل! کیا بات ہے؟‘‘ وہ ہمیں پہچان کر بولے۔
’’ وہ۔۔ دراصل ۔۔۔بات یہ ہے کہ ۔۔یہاں ہمارے گھر کی پیکنگ پوری طرح نہیں ہوپائی ہے ۔۔لہٰذا ہم چند دن کی رخصت چاہتے ہیں ۔‘‘
’’ کمال کرتے ہومیاں! پیر سے ہالینڈ میں تمہاری ٹریننگ شروع ہے ، جس کے لیے تمہیں ہفتے کی رات کراچی سے روانہ ہوجانا ہے، لہٰذا فوراً پہنچو۔‘‘
مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ہم نے بھاگم بھاگ پہلے جاکر اپنی خالہ زاد کواسلام آباد یونیورسٹی میں پکڑا ( جو ابھی مکمل ’پھرا ہوا دماغ ‘ یعنی پی ایچ ڈی نہیں ہوئی تھیں غالباً) اور انھیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔اور ان کی رائے کے ساتھ گھر کو اُن کے حوالے کردیا۔اپنی گاڑی کو خود اپنے ہاتھوں سے گویا ٹرک اڈے پر لے جاکر ٹرک پر چڑھوایا اور گھر پہنچے۔
اِدھر ہمارے پڑوسی ہماری اس حالت کو دیکھ چکے تھے اور انھوں نے اپنے ایک جاننے والے کو بلا کر ہماری ان سے ملاقات کروادی تھی جنھوں نے بروز ہفتہ اپنی کمپنی کے ٹرک کے ہمراہ ہمارے گھر آنے کی حامی بھر لی تھی۔ انھیں ہمارے گھر کا مکمل سامان پیک کرنے کے لیے دودن درکار تھے۔ ہم نے گھر کی چابی ڈاکٹر فرحانہ کے حوالے کی اور انھیں اللہ کے حوالے کرتے ہوئے اپنی بیگم صاحبہ اور ننھی دُرِ شہوار کے ہمراہ اُسی رات اسلام آباد کو خیر باد کہہ دیا اور کراچی پہنچ گئے۔
کراچی میں اسی طرح سامان کی رسید علی بھائی کے حوالے کرتے ہوئے انھیں ڈاکٹر فرحانہ سے رابطہ قائم کرنے کا کہہ کر ہم نے ہفتے کی صبح بندر روڈ پر واقع فلپس مرکز پہنچ کر حاضری کے رجسٹر پر دستخط کردیئے تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔اپنے ڈپارٹمنٹ کے جنرل منیجر جناب شوکت اسلام رضوی صاحب سے ملاقات کی جو ابتک کے ہمارے سب سے محبوب سربراہ ِ محکمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شوکت صاحب نے ہمیں سہیل صالح صاحب سے رابطہ کرنے کا کہہ دیا اور ہم سہیل صاحب کی میز پر ان کے سامنے ایک عدد کاپی پینسل لے کرٹک گئے ۔ انھوں نے پہلے تو ہمیں فلپس پاکستان کے متعلق ایک لیکچر پلایا جسے ابھی ہم ہضم بھی نہیں کرپائے تھے کہ انھوں نے ایک دوسرا لیکچر شروع کردیا جو فلپس ہالینڈ کے بارے میں تھا۔ ہالینڈ کے بارے میں ہماری اب تک کی معلومات بہادر لڑکے کی کہانی تک محدود تھیں یا پھر پون چکیوں تک۔ادھر تاریخ میں بھی ہند چینی میں ولندیزیوں کی فتوحات کے بارے میں پڑھا تھا جو بھول چکے تھے۔
یہ تمام معلومات ہم اپنے نازک ذہن میں تو کیا محفوظ کرسکتے ، البتہ ہم نے اسے صفحۂ قرطاس پر ضرور منتقل کرلیاتاکہ سند بھی رہے اور بوقتِ ضرورت کام بھی آئے۔ اِدھر گھر پہنچ کر ہم نے اپنے ذاتی کتب خانے سے رجوع کیا تو مختار مسعود صاحب کی آوازِ دوست اور سلور برڈِٹ کمپنی کی تین حصوں پر مشتمل ’’ تہذیب کی کہانی ‘‘ اور انہی کی ’’ تاریخِ ہند وپاکستان‘‘ ہاتھ میں آئیں۔
مختار مسعود اپنی کتاب آوازِ دوست میں لکھتے ہیں:
’’ اسکول میں انعام تقسیم ہوئے تو ایک کتاب جس کا عنوان بہادر لڑکا تھا میرے حصے میں آئی۔ یہ ایک ولندیزی بچے کی کہا نی تھی جو سرما کی ایک شام سمندری پُشتے پر جارہا تھا کہ اُس کی نظر ایک چھوٹے سے سوراخ پر پڑی۔ اُس نے سوچا کہ اگر وہ گاؤں جاکر اس کی خبر کرے گاتو اتنی دیر میں پانی کے زور سے پشتے میں شگاف ہوجائے گا اور پھر وہ ساری بستیاں اور وہ سارے کھیت جو سطحِ سمندر سے نیچے ہیں غرق ہوجائیں گے۔ وہ اس سوراخ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا۔ رات آئی تو وہ اسی حالت میں سوگیا۔ پہلے سردی اور پھر موت سے اس کا جسم اکڑ گیا مگر ننھا سا ہاتھ جوں کا توں پشتے کے چھوٹے سے سوراخ پر رکھا رہا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ اُن کا محسن ایک بہادر لڑکا ہے۔ میرے سفر کی یہ پہلی منزل تھی۔ اس کا نقش دوسری ساری منزلوں سے گہرا اور روشن ہے۔ یہ منزل جرأت اور قربانی کی منزل تھی، اس کے بہت سے نام ہیں۔اور وہ نام جس سے اس کی ساری عظمتیں عیاں ہوتی ہیں شہادت کہلاتا ہے۔‘‘
تاریخِ ہند و پاکستان میں لکھا ہے کہ:
’’ولندیز: پُرتگیزوں نے ہندوستان کی دولت سے خوب ہاتھ رنگے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی یورپ کی دوسری قوموں خاص طور پر انگریزوں اور ڈچ یعنی ولندیزوں نےبھی اس طرف توجہ کی۔ ۱۶۰۲ ء میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہوئی۔ ۱۶۱۹ء میں ولندیزوں نے بٹاویا کے شہر پر قبضہ کرلیاجو جاوا کے جزیرے میں واقع ہے۔ اور آج کل جاکارتا کہلاتا ہے۔ ۱۶۳۹ء میں انھوں نے گوا کی ناکہ بندی کی۔ اور اس سے دو برس کے بعد یعنی ۱۶۴۱ء میں ملاکا بھی ان کے ہاتھ آگیا۔ ۱۶۶۸ء میں انھوں نے پرتگیزوں کو سیلون سے بالکل بے دخل کردیا۔ یعنی پرتگیزوں کی آخری بستی پر بھی ان کا قبضہ ہوگیا۔ اب ولندیزوں نے تجارت کی غرض سے ہندوستان کی طرف توجہ کی۔ اور گجرات بنگال، بہار اور اڑیسہ میں اپنی تجارتی کوٹھیاں اور کارخانے قائم کرلیے۔
اسی طرح ’’تہذیب کی کہانی ‘‘ میں انگریزوں اور ولندیزیوں کی باہمی چپقلش اور پھر تجارتی دوستی اور ہندوستان اور ہند چینی کے علاقوں کی بندر بانٹ کے متعلق پڑھا اور جغرافیہ کی کتاب سے ہالینڈ کے تعلق سے پڑھا کہ ایک ایسا ملک ہے جو ایک محتاط اندازے کے مطابق سطحِ سمندر سے نیچے ہے اسی لیے جگہ جگہ پشتے بنا کر سمندر کو آبادیوں سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انصاف کی عالمی عدالت بھی دی ہیگ میں واقع ہے جو ہالینڈ کا ایک شہر ہے۔ ہمارے نانا ماموں جناب صمد شاہین ( ممتاز اد یب اور تنقید نگار محترمہ ممتاز شیرین کے شوہر) بھی محترمہ کے ہمراہ اپنی غیر ملکی پوسٹنگ کے دوران ایک عرصہ ہالینڈ میں گزار آئے تھے اور ان کے گھر میں بھی ہالینڈ کی کئی نشانیاں نظر آتی تھیں۔
یہ تھا وہ ہالینڈ جسے ہم جانتے تھے۔
مطالعے سے فارغ ہوئے تو اپنا سوٹ کیس نکال کر اپنی نصف بہتر کے حوالے کیا کہ وہ اس میں حوائجِ ضروریہ کی تمام اشیاء بہ اہتمام رکھ دیں بمع ہمارے شہرۂ آفاق زنانہ اوور کوٹ کے ، جسے ہم نے عرصہ چار سال پہلے اپنے جرمنی کے سفر کے لیے کراچی کے مشہور لنڈا بازار سے خریدا تھا۔ ( اس اوور کوٹ کی داستان کے لیے ہمارا سفرِ جرمنی ملاحظہ فرمائیے)۔ اُسی شام ہم کراچی سے ہالینڈ کے مشہور شہر ایمسڑ ڈیم کے لیے بذریعہ کے ایل ایم ( رائل ڈچ ایر لائن ) روانہ ہوئے۔ ہمارے اس سفرِ نیدرلینڈ نے قول شخصے تاریخ بدل ڈالی۔ اگلی صبح سویرے ہم نیدر لینڈ کے سب سے بڑے شہر ایمسٹر ڈیم کے اسکیپول ائرپورٹ پر اُترے۔ جہاز سے باہر نکل کر ایئرپورٹ ٹرمنل بلڈنگ میں پہنچے اور اپنے سامان کی تلاش میں سرگرداں ہوئے۔ اب سے پہلے ہم جرمنی اور سنگاپور کی سیر کرچکے تھے لہٰذا اپنے آپ کو قطعی پریشان نہیں پاتے تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ راستے کے نشانوں کا پیچھا کرتے ہوئے ہم ضرور اپنے سامان تک پہنچ جائیں گے، اور یہی ہوا۔ حصولِ سامان سے پہلے امیگریشن سے فارغ ہوئے اور پھر اطمینان سے اپنا سوٹ کیس اُٹھایا اور باہر نکلنے سے پہلے اپنے پاوچ سے وہ تار نکال کر اسے ایک مرتبہ پھر پڑھا جو ہماری رہنمائی کے لیے ہالینڈ سے بھیجا گیا تھا۔ تار میں لکھا تھا:
’’ جب محمد خلیل الرحمٰن امیگریشن سے فارغ ہوجائیں تو معلومات کی کھڑکی کے سامنے ’کومبی ٹریول ‘کے نمائیندے سے مل لیں، وہ انہیں منزلِ مقصود تک لے جائے گا۔‘‘
ہم نے اپنی صورتحال پر غور کیا اورمحسوس کیا کہ ہم نہ صرف امیگریشن سے فارغ ہوچکے ہیں بلکہ اپنا سامان بھی لے چکے ہیں۔ اب صرف ایک عدد ٹریولر چیک بھنوانے کے بعد ہم کومبی ٹریول کے نمائیندے سے ملنے کے لیے تیار تھے۔ یادش بخیر ان دنوں باہر جانے کے لیے ویزے کے ساتھ پاسپورٹ پر اس کا ندراج بھی ہوتا تھا کہ آپ نے کتنی رقم ٹریولر چیک کی مدد میں اپنے ساتھ رکھنے کے لیے حاصل کی ہے۔ سامنے ہی ایک بنک نظر آیا، ہم نے فوراً سے پیشتر اپنا پہلا امریکن ایکسپریس ٹریولر چیک بھنوایا اور مقامی نوٹوں کو بھی سنبھال کر اپنے پاوچ میں رکھنے کے بعد معلومات کی کھڑکی تک پہنچ گئے۔ سامنے ہی چھت سے ایک عظیم الشان مکعب لٹک رہا تھا جس پر ’’ جائے ملا قات‘‘ کے الفاظ نمایاں تھے۔ گورے بھی کِس قدر زود حِس واقع ہوئے ہیں کہ راہ سے بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھِلانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھتے، ہم نے سوچا اور معلومات کی کھڑکی میں منہ دے کر اس سے کچھ پوچھا ہی چاہتے تھے کہ سامنے کھڑے ہوئے ایک شخص پر نظر پڑی جو اپنے سامنے ایک عدد کاغذ پکڑے ہوئے تھا۔ اس کاغذ پر جلی حروف میں ’’ کومبی ٹریول‘‘ لکھا تھا۔ ہم نے اسے اپنا تار دِکھایا اور اس نے تار کو غور سے دیکھا ، پھر اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی فہرست کو دیکھا اور بالآخر ہمیں اپنے ساتھ ہی کھڑے ہونے کا اشارہ کردیا۔ہم اس کے ساتھ ہی کھڑے ہوگئے کہ اب دیکھیے قسمت سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ تار میں گو ہماری منزل کا پتہ بھی درج تھا لیکن وہ سب ہمارا گائڈ خوب جانتا تھا، لہٰذا ہم نے خاموشی ہی میں غنیمت جانی۔ کچھ دیر میں اس کے پاس یکے بعد دیگرے ، دو اور مسافر اسی طرح اپنے کاغذات دکھا کر کھڑے ہوئے۔ دوسرے مسافر کے آتے ہی اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاغذ کو تہہ کرکے اپنی جیب میں رکھا اور ہمیں لیے ہوئے کشاں کشاں باہر ایک وین کی جانب لے آیا۔ تیرہ افراد کے لیے مخصوص اس وین میں ڈرائیور سمیت ہم کل چار ہی افراد تھے۔ ہم نے اپنا سامان پچھلے دروازے سے وین میں پچھلی جانب رکھوادیا اور آکر وین میں بیٹھ گئے۔ ہم نے خاص طور پر ایک کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ سنبھال لی تاکہ راستے کے مناظر سے بھی لطف اندوز ہوتے چلیں۔ باہر نکل کر سردی کی وجہ سے اپنا اوور کوٹ تو پہن لیا لیکن ہم نے دیکھا کہ باہر فروری کے مہینے میں بھی خاصی سردی کے باوجود برف ندارد تھی۔ اپنے یورپ کے پچھلے سفر میں ہم نے جرمنی میں بے تحاشا برف دیکھی تھی لیکن ہالینڈ میں برف نہ دیکھ کر حیران ضرور ہوئے۔ بہرحال وین کا دروازہ بند ہوا اور ہم نے ایمسٹر ڈیم سے آئینڈ ھوون کی جانب ایک طویل سفر شروع کردیا جس کا ہمیں اندازہ نہ تھا۔ ہم تو اسے کوئی آدھے پون گھنٹے کا سفر سمجھے تھے جو کہیں ہائی وے پر تیزی سے سفر کرتے ہوئے تقریباً دو گھٹوں میں ختم ہوا۔اس دوران ہم راستے میں نہروں اور دریاؤں پر بنے خوبصورت پُل اور آبادیوں میں قائم پون چکیوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔دو گھنٹے بعد ڈرائیور نے ہمیں ایک خوبصورت سے بنگلے کی بجری سے ڈھکی پارکنگ میں اتارا، ہمارا سامان نکال کر ہمارے حوالے کیا، اور صاحبِ خانہ کو بلانے کے لیے دروازے پر لگی گھنٹی بجانے لگا۔ چند منٹ بعد اندر سے ایک گٹھے ہوئے جسم کا ایک شخص باہر نکلا اور ہم سے گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کیا، ہمارا سامان ڈرائیور سے لیا اور اسے جانے کی اجازت دیدی۔ ہمیں لیے ہوئے وہ بنگلے کے اندر ڈرائینگ روم میں پہنچا جہاں ایک موٹی تازی، خوبصورت سی خاتون تشریف فرماتھیں۔ ان خاتون کی عمر سے اندازہ ہوتا تھا کہ بزرگی کی حدود میں داخل ہوچکی ہیں، چہرے سے ایک خاص خوشی و شفقت ٹپک رہی تھی۔ ہمیں دروازے پر خوش آمدید کہنے والے حضرت نے اب تک انگریزی کا ایک بھی لفظ اپنے منہ سے نہ نکالا تھا لیکن ہمیں دیکھ کر خوشی سے ان کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں۔ میزبان خاتون نے خوبصورت اور شفاف انگریزی میں ہمیں خوش آمدید کہا اور اپنا تعارف کروایا۔ ان کا نام مسز فین ڈر لُو تھا اور انہیں فلپس کی جانب سے ہماری میزبانی کا شرف بخشا گیا تھا۔ ادھر ہم اس بڑے اور خوبصورت بنگلے کو اور اپنی میزبان کو دیکھ کر خوش ہورہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ اگلے پانچ ہفتے نہایت خوش گوار گزریں گے۔
اب ان موٹے تازے صاحب کا تعارف کروایا گیا ، وہ ایک ترکی نژاد مسلمان تھے جو پیشے کے اعتبار سے مکینک تھے اور مسز فین ڈر لو کی گاڑیوں کی دیکھ بھال پر معمور تھے۔ پاکستانی ہونے کے ناطے وہ ہم پر ریشہ ختمی ہوئے جاتے تھے۔ ہمیں بھی جب علم ہوا کہ وہ ترکی سے تعلق رکھتے ہیں تو ہم نے بھی اپنے بھائی سے ایک مرتبہ پھر گرمجوشی کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ ان صاحب کو انگریزی کا ایک لفظ بھی نہ آتا تھا لیکن اس سفر میں اور بعد میں بھی جب جب ان سے ملاقات ہوئی وہ اسی گرمجوشی کے ساتھ ملے اور ہم سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔۔ ان صاحب کانام محمت تھا ۔
مسز فینڈر لُو نے اسمال ٹاک کے ساتھ ساتھ ہمیں کوکا کولا مشروب یا بیئر کی پیشکش کی جواباً ہم نے کافی کی فرمائش کی جسے فوراً قبول کرلیا گیا، ہمارے لیے کافی کے پاٹ سے گرم گرم کافی انڈیل کر ہم سے پوچھ کر اس میں شکر اور کریم ملاکر گرم گرم کپ ہمارے سامنے پیش کیا گیا۔ ہم نے بڑے مزے لے لے کر کافی ختم کی ۔ اس دوران میزبان کے ساتھ موسم پر گفتگو جاری رہی ، ساتھ ہی تھوڑی تھوڑی دیر بعد محمت صاحب کے ساتھ خوشی بھری نظروں کا تبادلہ بھی جاری رہا
ہم نے کافی ختم کی تو خاتون اُٹھیں اور ’’ چلو میں تمہیں تمہارے کمرے تک چھوڑ آؤں ‘‘ کہتے ہوئے دروازے کی سمت چلیں۔ ہم نے بھی اپنا سوٹ کیس اور بیگ سنبھالا اور ان کے پیچھے ہولیے۔ وہ ہمیں لے کر اپنی گاڑی کی جانب آئیں اور دروازہ کھول کر ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ہم نے اپنا سامان پچھلی ڈگی میں رکھا اور ان خاتون کے ساتھ اگلی نشست پر براجمان ہوگئے۔ دس پندرہ منٹ کی ڈرائیو نے ہمیں شہر کے اس پوش علاقے سے نکال کر مرکزی حصے میں پہنچا دیا جہاں پر ایک نسبتاً چھوٹے لیکن خوبصورت دومنز لہ گھر کے سامنے گاڑی رکی اور ہم اس خاتون کے ساتھ اُتر گئے۔ خاتون نے ہمیں اس گھر میں ایک کمرے تک پہنچایا ، پھر اپنا سامان اس کمرے میں رکھنے کے بعد ہمیں اس گھر کا ٹوور کروایا گیا۔ غسل خانہ گو کمرے کے اندر نہیں تھا لیکن دوسری منزل پر واقع ہمارے کمرے کے قریب ہی تھا۔ اس منزل پر ہمارے کمرے کے علاوہ دو اور کمرے تھے اور ایک عدد مناسب باورچی خانہ۔ باورچی خانے میں اس خاتون نے ریفریجریٹر کھول کر اس کے اندرایک گوشے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ یہ ہمارا گوشہ ہے اور اس میں رکھی ہوئی ناشتے کی تمام اشیاء بھی ہمارے لیے رکھی گئی ہیں۔ اسی طرح باورچی خانے میں رکھی ہوئی اشیاء بھی ساجھی تھیں جنھیں ہم بھی استعمال کرسکتے تھے۔ ساتھ ہی کوکا کولا کی بوتلوں کا ایک کریٹ اور بیئر کی بوتلوں کا ایک کریٹ بھی ہماری نظر کردیا گیا۔ بیئر کی بوتلوں کے عوض ، بعد میں ہم نے اپنے ایک ساتھی سے کوکا کولا کا ایک اور کریٹ مول لے لیا۔ خاتون نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ یہ سب اس لیے ہے کہ آج چونکہ اتوار ہے اور اتوار کو تمام مارکیٹیں بند ہوتی ہیں لہٰذا یہ سامان ان کی جانب سے ہمارے لیے اتوار کا دن گزارنے کے لیے ھدیتاً رکھا گیا ہے۔ ہم نے اندازہ لگایا کہ یہ سامان ہمارے لیے کئی ناشتوں کے لیے کافی ہوگا۔ ہمیں یہ جان کر بے حد خوشی بھی ہوئی کیونکہ ہم نے ابھی سے اپنی شاپنگ کے لیے پیسے بچانے کا ارادہ کرلیا تھا اور ہماری میزبان خاتون کا یہ فیاضانہ اقدام ہماری اس بچت کے پروگرام میں ممد و معاون ثابت ہوا چاہتا تھا۔
مسز فین ڈر لُو نے ہمیں سڑک گردی میں مدد کے لیے ایک عدد آئینڈ ہوون کا نقشہ بھی فراہم کیا جس پر ایک جانب ان کے گھر کے مکمل پتے کا اسٹکر چسپاں تھا۔ انھوں نے ہمیں کسی بھی قسم کی مدد کا یقین دلاتے ہوئے ہمیں گاڑی کی پیشکش بھی کی۔ ہم چونکہ یورپی ڈرائیونگ لائسنس نہیں رکھتے تھے اس لیے ہم نے گاڑی کی فراخ دلانہ پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے سائیکل کی فرمائش کی جسے فوری منظور کیا گیا اور ہمارے لیے ایک عدد سائیکل مہیا کردی گئی۔ ہم گاڑی کی پیشکش کو ٹھکرا چکے تھے لہٰذا مسز فین ڈر لُو کے جاتے ہی ہم نے معلومات کا کاغذ نکالا اور اس بس اسٹاپ کی تلاش میں روانہ ہوئے جہاں سے فلپس کی بس ہمیں ٹریننگ سنٹر تک لیجانے پر معمور تھی۔ ہمارا یہ مکان شہر کے سنٹرم یعنی صدر سے کافی قریب تھا اور ایک قدرے چھوٹی سڑک ہمیں سنٹرم تک لیجاتی تھی۔ اس سڑک کے دونوں جانب چھوٹے چھوٹے پب تھے جہاں سے موسیقی کا طوفان امڈ رہا تھا۔ سنٹرم پہنچے تو ہر طرف خاموشی اور سناٹے کا راج تھا۔ اتوار ہونے کی بنا ء پر ہر چھوٹی بڑی دکان بند تھی۔ ہم نے سنٹرم کا چاروں جانب سے جائزہ لیا۔ بس اسٹاپ کی لوکیشن کو نوٹ کیا اور پھر گھر واپس آگئے۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوچلا تھا، ہم نے باورچی خانے میں پہنچ کر وسائل کا جائزہ لیا اور چاول نکال کر ابالنے کے لیے رکھ دیئے۔ اسی اثنا میں پیاز کاٹ کر انڈا آملیٹ بنانے کا سامان مہیا کیا۔ انڈا آملیٹ اور چاول کے اس لنچ نے بہت لطف دیا۔ ساتھ ہی ہم نے کوک کی ایک بوتل سے استفادہ کیا اور کھانے کے بعد کافی بناکر اسکے ہلکے ہلکے گھونٹ لیتے ہوئے کچن کی بڑے شیشے والی کھڑکی سے باہر موسم کا مزہ لیتے رہے۔ باہر دن کی روشنی گو ہلکی تھی اور دھوپ کا نام و نشان بھی نہ تھا، پھر بھی یورپ کی یہ دوپہر بڑی خوبصورت تھی۔ کھانا کھاتے ہی ایسا خمار چڑھا کہ ہم فوراً ہم اپنے بستر پر جاکر دراز ہوگئےاور شام کی خبر لائے۔ شام کو اُٹھے تو اپنے بستر کے سامنے رکھے ہوئے ٹی وی کی جانب توجہ کی جس پر دوتین انگریزی چینل خاص طور پر فلم نیٹ اور ایم ٹی وی مل گئے اور ہم نے بستر پر ہی لیٹے لیٹے شام کا باقی حصہ گزارا۔ رات کو اُٹھے اور اسی طرح کھانے کا بندوبست کیا اور یوں ہالینڈ میں پہلا دن گزار کر اگلی صبح کے لیے تیار ہوگئے۔
(جاری ہے)