ون ویلنگ یا موت کا کھیل

گوہر

محفلین
تحریر: محمد الطاف گوہر
mrgohar@yahoo.com
جوانی دیوانی ہوتی ہے اور اپنے راستے میں آنے والی کسی رکاوٹ کی پرواہ نہیں کرتی چاہے اسے اپنی جان سے ہی کیوں نہ ہاتھ دھونے پڑجائیں۔ صدیوں سے نوجوان گھڑ سواری میں آگے نکلنے کے ساتھ ساتھ فن و طاقت کا مظاہرہ کرنے کا شوق پالے ہوئے ہیں ۔ آج کے سائنسی دور میں نت نئی ایجادات نے معاملات زندگی بہت آسان کردیئے ہیں ۔ پرانی سواری کی جگہ نئی سواری نے لے لی ہے مگر جوانوں کے شوق آج بھی اپنی جگہ پر جوں کے توں ہیں ۔ عید ہو یامیلہ ، ہر تہوار نوجوانوں کی سرگرمیوں سے بھرپور ہوتا ہے ان سرگرمیوں میں چند ایک شوق ایسے بھی ہیں جو بعض اوقات جان لیوا ثابت ہوتے ہیں ۔ ون ویلنگ آج کے دور کا ایک غمناک المیہ ہے۔
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق جشن آزادی، 14 اگست 2009 کے موقع پر ملک کے مختلف شہروں میں موٹرسائیکل کو ایک پہیہ پر چلانے کے باعث ہونے والے حادثات میں 14 افراد ہلاک جبکہ ہوائی فائرنگ‘ موٹرسائیکلوں کے ٹکرانے اور سلپ ہونے سے 300 سے زائد افراد زخمی ہوگئے ۔جبکہ دیگر علاقوں میں بھی ایک پہیہ پر موٹرسائیکل چلاتے ہوئے 3 افراد ہلاک ہوگئے۔ فیصل آباد میں تیز رفتاری اور ون ویلنگ کرتے ہوئے 4 افراد ہلاک اور 98 زخمی ہوگئے۔ادھر لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں 17 سالہ نوجوان ایک پہیہ پر موٹرسائیکل چلاتے ہوئے فٹ پاتھ سے ٹکرا گیا اور موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔ گجرات میں بھی ایک نوجوان ون ویلنگ کے باعث ہلاک ہوا۔ سرگودھا میں ایک پہیہ پر موٹرسائیکل چلانے والوں کے خلاف پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 80 نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔علاوہ ازیں کراچی کے مختلف علاقوں میں جشن آزادی کی تقریبات منانے کے دوران ہونے والی ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔63 ویں جشن آزادی کی تقریبات کے موقع پر منچلے نوجوانوں کی جانب سے موٹر سائیکل ریلیاں نکالی گئیں جس کے دوران متعدد مقامات پر ہوائی فائرنگ بھی کی گئی جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے ۔کراچی میں جشن آزادی کی تقریبات منانے کے دوران نوجوانوں کی جانب سے اہم شاہراہوں اور سڑکوں کو بلاک کرکے رقص بھی کیا گیا جس کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا ۔

آج نوجوان سڑکوں پر گھڑ سواری نہیں کرسکتے البتہ موٹر سائیکل یا بائیسکل سے اپنی تشنگی پورا کرتے ہیں ۔ ماضی میں گھڑ سوار جو فن و طاقت کا مظاہرہ کرتے تھے آج کا نوجوان موٹر سائیکل کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے ۔ نوجوان موٹر سائیکل کو تیز چلانے کے دوران اچانک اگلا پہیہ ہوا میں اٹھا دیتے ہیں اور سارا وزن پچھلے پہیے پر ڈال دیتے ہیں اور اس طرح موٹر سائیکل ایک پہیہ پر چلتی ہے ۔اس عمل کو ون ویلنگ کہا جاتا ہے ۔ ایک طرف اگر دورے دیکھنے والے یہ منظر بڑا دلربا محسوس ہوتا ہے تو دوسری طرف موٹر سائیکل چلانے والے کو ایک انجانی لذت کا احساس ہوتا ہے جواسے بار بار اس موت و زندگی کا کھیل کھیلنے پر مجبور کرتا ہے ۔ ون ویلنگ کرنے والے کو اس کا انجام معلوم نہیں کہ کھیل ہی کھیل میں کیا نقصان ہوسکتا ہے۔ نوجوان ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے شوق میں اکثر اپنے ہنستے بستے خاندان کو غمناک المیہ سے دوچار کر جاتے ہیں ۔ موٹر سائیکل کا توازن اگر برقرار نہ رہے تو اس کی انتہائی قیمتی جان پلک جھپک میں موت کا شکار ہوجاتی ہے ۔حکومت کی طرف سے ۱س موت و زندگی کے کھیل کو روکنے کی کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی لہذا جب کبھی کوئی تہوار، عید و میلہ کا موقع ہوتا ہے من چلے کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور اپنا ون ویلنگ کا شوق ضرور پورا کرتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس عمل سے نوجوانوں کو کیسے روکا جائے انسانی جان سے زیادہ قیمتی چیز اس دنیا میں کوئی نہیں قوم کے نئے معمار اگر اسی طرح اپنی جانیں گنواتے رہے تو اسکا کون اس کا ذمہ دار ہوگا ؟ نوجوان بچے ، والدین یا یہ معاشرہ ، یا قانون نافذ کرنے والے ادارے؟ اس عمل کو روکنے کے لئے ہر فرد کو اپنی سطح پر رہتے ہوئے کوشش کرنا ہوگی۔ متبادل میں بہت سے صحت مند کھیل ایسے بھی ہیں جو نوجوان اپنا کر اپنا شوق پورا کرسکتے ہیں۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موت کے کھیل کو روکنے کیلئے انتہائی سخت اقدامات ہونے چاہیں اور اسطرح کے اقدامات کئے جائیں کہ آئندہ کوئی بھی نوجوان غلطی سے بھی ون ویلنگ کا تصور نہ کر سکے ۔ علاوہ ازیں والدین اور دیگر افراد بھی اس کے تدارک کا خاطر خواہ حل کریں کہ ایک صحت مند معاشرہ ہی صحت مند عوامل کا محرک ہوسکتا ہے ۔
 

عثمان رضا

محفلین
روزنامہ آج کل سے تصویر


lahore_n1.jpg


ویسی جس کام سے روکا جائے ہم عموما وہی کرتے ہیں
 

dxbgraphics

محفلین
اللہ اس درد سے سب کو بچائے۔ تین سال پہلے 125 کو ایک پہیے پر چلانے کا شوق تھا اور علاقے کے لوگ بھی مرعوب تھے ۔ ایک دن مین روڈ پر 120 کی رفتار سے جی ٹی روڈ پر جارہا تھا کہ اچانک اگلا ٹائر پھٹااور قلابازیاں کھاتے ہوئے تقریبا 20،25 میٹر دور جاگرا۔اور پھر 10 سے پندرہ سیکنڈ تک کے لئے کچھ سمجھ نہ آیا کہ آخر کیا ہوا جب تھوڑا سا دیکھنے کے قابل ہوئے تو دیکھا کہ موٹرسائیکل کا اگلا ٹائر پھٹا ہوا ہے اور سارے بدن پر خراشیں تھی۔ پیچھے سے تمام ٹریفک کی بریکوں کی گونج سے عجیب سا ماحول تھا۔ ہیلمٹ کی وجہ سے سر زخموں سے محفوظ رہا ۔ پھر پیچھے آنے والی کار والے کیساتھ اللہ بھلا کرے اپنی گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گیا۔ پھر اس دن کے بعد 125 بیچ کر سی ڈی 70 چلاتا رہا ہوں۔ اور آج بھی جب وہ دن یاد کرتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اللہ اس خونی شوق سے سب کو بچائے۔ آمین
 

محمد وارث

لائبریرین
بجا لکھا آپ نے اور بالکل صحیح مسئلے کی طرف اشارہ کیا۔

ایسے نوجوان نہ صرف خود حادثوں کا شکار ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کیلیے بھی حادثے اور موت کا سبب بنتے ہیں!
 
انتہائی فضول اور جان لیوا شوق، صرف اپنے رعب جمانے کے لیے اور واہ واہ کروانے کے لیے
لیکن ایسی بے وقوفیوں سے سختی سے نمٹنا چاہیے
 

dxbgraphics

محفلین
واقعی پابندی لگنی چاہئے پیسے کا بھی ضیاع ہے۔ میں اپنی ایک کاواساکی موٹر سائیکل کا فریم سیڑھیوں کی جمپنگ میں توڑ بیٹھا تھا۔ چار سیڑیوں پر تختہ رکھ کر جمپ لگایا کرتا تھا۔
 

شہزاد وحید

محفلین
14 اگست والے دن تو ہر شہر میں موٹر سائیکل سواری نے ہنگامہ کیا ہوتا ہے۔ میں نے جیو پر خبر پڑھی تھی کہ ویلنگ کرتے ہوئے آٹھ افراد ہلاک ہوگئے تھے اور سو زخمی۔
 
Top