پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں وکیلوں نے ڈاکٹرز سے تصادم کے بعد ہنگامہ آرائی کر کے ہسپتال کے اندر اور باہر ہر جگہ شدید توڑ پھوڑ کی۔ اس سانحے کے دوران طبی امداد نہ ملنے سے دو مریض جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ حکومتی سطح پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب نے اس واقعے کا نوٹس لے کر تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق تاحال 27 مرد اور 4 خواتین وکلا گرفتار کیے جا چکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہ واقعہ اس وقت ہوا جب وکلا نے ینگ ڈاکٹرز پر الزام عائد کیا کہ وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں وہ ان سب کا مذاق اڑا رہے تھے جس کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا پر مہم بھی چلائی۔
بعد ازاں آج وکیلوں کی ایک بڑی تعداد مذکورہ ویڈیو کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے باہر اکٹھی ہوئی، جس کے بعد یہ احتجاج پرتشدد ہوگیا اور مظاہرین نے ہسپتال کے داخلی و خارجی راستے بند کردیے۔
وکلا کی جانب سے ہسپتال میں گھس کر توڑ پھوڑ اور ڈاکٹروں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے باہر احتجاج کرنے والے کئی وکیل ہسپتال کا گیٹ کھلوا کر اندر داخل ہوتے ہیں اور ایمرجنسی وارڈز کے شیشے توڑ دیتے ہیں۔ بعد ازاں وکلا نے ہسپتال کے احاطے میں کھڑی گاڑیوں کے شیشے بھی توڑ دیے۔
ہنگامہ آرائی کی وجہ سے کئی مریض ہسپتال نہیں پہنچ سکے جب کہ ہسپتال میں زیر علاج مریضوں کے ساتھ ڈاکٹروں کو دکھانے کے لیے آنے والے مریضوں اور ان کے اہلِ خانہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جاں بحق ہونے والے مریضوں میں محمد انور اور گلشن بی بی شامل ہیں۔
وکلا کی جانب سے ہسپتال کے آئی سی یو، سی سی یو اور آپریشن تھیٹر کی جانب بھی پیش قدمی کی گئی جبکہ ہسپتال کے کچھ عملے کی جانب سے بھی وکلا پر تشدد کیا گیا۔
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں تشدد کے واقعے کے بعد ڈاکٹر بھی وکیلوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور ان کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ دونوں متصادم گروہوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا جب کہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا۔
ہنگامے کے بعد پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے آس پاس جیل روڈ پر موجود مارکیٹ کو بند کروا دیا گیا اور رینجرز کی نفری بھی جائے وقوعہ پر طلب کر لی گئی۔
مذکورہ واقعے کے بعد لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر اور سیکریٹری پی آئی سی ہسپتال پہنچے اور وکلا کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کی۔
صوبائی وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان پر بھی تشدد
اس موقے پر پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان جب ہسپتال پہنچے تو ان پر بھی مشتعل افراد نے تشدد کیا۔ سوشل میڈیا پر موجود ایک ویڈیو سامنے میں فیاض الحسن چوہان پر تشدد اور انہیں بالوں سے پکڑتے ہوئے دیکھا گیا۔
اس حوالے سے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کا بیان تھا کہ ’وکلا نے انہیں اغوا کرنے کی کوشش کی۔‘ نیز انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے ظلم کیا ہے انہیں ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا اور ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی، وہ نشان عبرت بنائے جائیں گے۔ صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد کو بھی وکلا کے دھکوں اور بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑا۔
پولیس نے بیس سے زائد وکیلوں کو حراست میں لے کر قانونی کاروائی شروع کر دی ہے۔ واقعے پر کابینہ کمیٹی برائے امن وامان کا اجلاس طلب کر لیا گیا جب کہ ڈاکٹروں نے ہسپتال میں کام چھوڑ دیا جس کے باعث ایمرجنسی بھی بند کر دی گئی ڈاکٹروں نے ہڑتال کا بھی اعلان کردیا ہے۔
واقعہ کیسے پیش آیا:
پی آئی سی میں موجود عینی شاہد لاہور کے صحافی اور نجی ٹی وی کے بیورو چیف سلیم شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پی آئی سی میں موجود تھے جب اچانک ڈھائی تین سو وکلا گیٹ سے داخل ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں پتھر اور ڈنڈے تھے۔ کوریج کے لیے موبائل نکالا تو انہوں نے وہ چھین لیا اور پولیس کو بھی دھکے دیے۔ بعد میں انہوں نے پتھراؤ شروع کردیا۔
وارڈز کے شیشے ٹوٹنے سے اندر موجود مریض زخمی ہوئے اور چیخ وپکار شروع ہوگئی۔ مشتعل وکلا نے ایمرجنسی کے گیٹ توڑے اور اندر داخل ہوگئے۔ آئی سی یو میں خاتون کا آپریشن تھا، وکلا کے خوف سے ڈاکٹر وہاں سے ہٹے تو خاتون بھی دم توڑ گئیں۔
وکلا نے آپریشن تھیٹر میں بھی تباہی مچائی اور آلات توڑ ڈالے۔ دندناتے ہجوم کو کوئی نہیں روک پایا۔ کچھ دیر بعد پولیس آئی تو ان پر بھی پتھراؤ کیا گیا۔ بعض ڈاکٹروں نے ڈنڈے اٹھائے اور مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر انہیں بھی مار کھانا پڑی۔
سلیم شیخ نے بتایا کہ مشتعل وکلا نے پولیس وین کو آگ لگا دی اور درجنوں گاڑیاں توڑ ڈالیں۔ کئی ڈاکٹر اور مریضوں سمیت لواحقین بھی شدید زخمی ہوگئے۔ ڈی آئی جی لاہور رائے بابرنے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وکلا کے ایک گروہ نے پنجاب انسٹیوٹ اف کارڈیالوجی پر حملہ کیا، شیشے توڑے اور جلاؤ گھیراؤ بھی کیا۔ پولیس نے موقعے پر پہنچ کر حالات پر قابو پایا اور بیس سے زائد وکلا کو حراست میں لے لیا گیا۔
ہسپتال انتظامیہ کی درخواست پر قانونی کارروائی کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ مشتعل وکلا نے مریضوں اور ان کے لواحقین کا بھی خیال نہیں کیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ وکلا اور ڈاکٹروں کے درمیان کچھ عرصے پہلے ہونے والے تنازعے کے باعث کیا یہ واقعہ پیش آیا؟ تو انہوں نے بتایا کہ پہلے والے جھگڑے میں دونوں فریقین کے درمیان صلح ہوچکی تھی، اب اچانک حملہ کردیا گیا ہے۔
ہسپتال انتظامیہ کا موقف:
چیف ایگزیکٹو پی آئی سی پروفیسر ثاقب شفیع کا موقف تھا کہ بہت تکلیف کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ ملک جمہوریت کے قابل نہیں، احتجاج کے حق کو اس طرح استعمال کرنا دہشت گردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کون سا پڑھا لکھا طبقہ ہے جسے انسانیت کا بھی خیال نہیں؟ اس ہنگامہ آرائی سے ایمرجنسی خالی ہوچکی ہے، توڑ پھوڑ کے باعث آپریشن تھیٹرز میں کام روک دیا گیا ہے جس کا نقصان مریضوں کو ہی ہوگا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سینئر وکلا اور جج صاحبان اس واقعے کا نوٹس لیں نیز وکلا کو مہذب شہری بننے کے لیے کوشش کرنی چاہئیے۔‘
پی آئی سی کی لیڈی ڈاکٹر مریم احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹروں کی طرح وکیل بھی پڑھے لکھے لوگ ہیں لیکن آج ان کا یہ رویہ دیکھ کر دکھ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ بطور ڈاکٹر وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری ایک ساتھی ڈاکٹر جو ڈیوٹی پر تھیں اور جو حاملہ ہیں ان پر بھی وکلا نے تشدد کیا جس سے ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔‘ انہوں نے کہا کہ حکومت کو ہستپال کی سکیورٹی یقینی بنایا چاہیے۔ ہم غیر محفوظ ہیں۔ ایسے حالات میں کون خواتین ڈاکٹروں کو ہسپتال میں ڈیوٹی پر بھیجے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں میں سیکیورٹی کا موثر پلان بنایا جائے اور اس واقعہ میں ملوث وکیلوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرات نہ کر سکے۔