با ادب
محفلین
ہمیں اندازہ تو تھا کہ اس مستقبل مخالف تحریک بپا کرنے کا اگر کوئی سرخیل ہو سکتا تھا تو وہ اپنی ننھی پھپو کے علاوہ کوئی نہیں تھا ۔ پھر جس دوران یہ تحریک زور پکڑ رہی تھی اسی دوران ننھی پھپو کے خاندان بھر میں پراسرار دورے بھی جاری تھے ۔ چناچہ ہمارا خیال تقویت پکڑتا گیا کہ وہ محلاتی سازشیں جو اب پورے محلے میں پھیلتی جارہی ہیں ان کے پیچھے ننھی پھپو کا ہی چہرہ ہے اور
ویسے بھی ۔۔ ع
تیر جب بھی کماں سے نکلا ہے
حلقہء دوستاں سے نکلا ہے
جیسے جمہوری حکومت کے اختتامی سالوں اور آمریت کی ابتدا سے کچھ پہلے ، کچھ بااثر شخصیات ادھر سے ادھر با مقصد دورے کرتی نظر آتی ہیں ، اسی طرح ننھی پھپو خاندان بھر میں ہر تقریب ، ہر واقعہ، ہر جھگڑے سے پہلے ادھر سے ادھر منڈلاتی نظر آتی ہیں، خاندان کے کچھ منہ پھٹ لوگوں کا خیال ہے کہ ننھی پھپو کے تواتر کے ساتھ دورے، خاندان بھر میں خفیہ دوسری شادی، منگنی ٹوٹنے اور زبردستی طلاق جیسے سنگین مسائل کو جنم دیتے ہیں ۔ اس سے پیشتر کے ننھی پھپو ہماری اعلیٰ تعلیم کی راہ میں اپنے اعلیٰ فنِ تعمیر سے ایک دیوار کھڑی کردیں ، ہم نے طے کیا کہ ہم ننھی پھپو سے بنفس نفیس اس موضوع پر بات کریں گے ۔ لہذا شام کی چائے پر ہم نے بقلم خود ننھی پھپو کو مذاکرات کی دعوت دی ۔
ننھی پھپو نے شروع میں تو یہ ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کی کہ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ، مگر گفتگو آگے چلی تو انہوں نے برملا اپنی "تحریک نفاذِ ناخواندگی" کا اعلان کردیا۔ پھپو کا خیال تھا کہ اپنی آواز کو ہائی نوٹس پر لیجا کر وہ ہمیں دھمکا لیں گی، مگر ہم نے بھی طے کرلیا تھا کہ جو عزت افزائی وکالت کی ڈگری ملنے کے بعد جج صاحبان سے ہونے کی امید ہے، اس کی ابتدائی مشقیں گھر ہی سے کرکے جائیں گے۔ پھپو کو وکالت سے کیا بیر تھا یہ تو انہوں کُھل کر نہیں بتایا مگر ہمیں سمجھانے کی غرض سے وکیلوں کی بخشش کے حوالے سے اپنے سنگین خدشات کا اظہار کرنے لگیں ،
" تم دیکھ لینا ، روزِ محشر ان وکیلوں کی زبانیں گز گز بھر لمبی کر کےان پر آرڈر ، آرڈر کے آہنی ہتھوڑے مارے جائیں گے اور مقدمات کی فائلیں ، پھانسی کی رسیوں سے ان کے چہرے پر لپیٹ کر آگ میں بھونا جائے گا"
ہم نے انہیں سمجھایا کہ "پھپو آپ اپنا اعتراض احسن طریقے سے بھی پیش کرسکتی ہیں ، اس معمولی اعتراض کیلئے ہمیں روحانی بلیک میلنگ کی ضرورت ہر گز نہیں ہے "
پھپو کے دعوؤں کی بنیاد چونکہ محض مورثی جذبات اور روایات پر تھی ، اس لئے ہمیں انہیں رام کرنے میں چنداں دشواری نہیں ہوئی ، ہم نے نہایت اطمینان سے ان کی بات سنی اور پھر اپنے دلائل کا آغاز کیا، جن کی طوالت سے پھپو کو بخوبی اندازہ ہوگیا کہ اُن کے اعتراض ہی کی طرح ،ہمارے شوق کا تعلق بھی دلیل سے نہیں ہے ، اور جن ارادوں کے ستون دلیل کے بجائے جذبات پر قائم ہوں ان سے کسی طور ٹکر نہیں لی جاسکتی ۔
ہم نے وکیلوں کی وہ وکالت کی کہ پھپو کو یقین ہو گیا کہ وکیل نہ صرف یہ کہ بخشے جائیں گے بلکہ حافظوں اور شہیدوں کی طرح وکیلوں کے لئے بھی اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ وہ اپنے ساتھ اپنے بزرگوں کی بخشش بھی کروا سکیں ۔پھپو جہاں دیدہ خاتون تھیں ہمارے راستے میں بندھ باندھنے کے بجائے انہوں نے ہماری ہاں میں ہاں ملانے میں ہی دوجہان کی کامیابی دیکھی اور اسی کے ساتھ اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازنے لگیں ، ہم نے اپنی تعلیم کی راہ میں حائل اس پہلے ہی مقدمے میں کامیابی کے بعد سے اپنے آپ کو ایک مایہ ناز وکیل تصور کرنا شروع کردیا تھا، پھپو کے مشوروں کے بعدتو ہمارے دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ گئے۔ بقول ننھی پھپو ان کا مشاہدہ ہے کہ جب تک وکیل اور شاعر خود اپنے آپ کو اپنے معاصرین میں سب سے اعلیٰ تصور نہ کرے کوئی اور یہ کارِ خیر انجام نہیں دیتا ، اسی لئے جیسے دنیا میں ڈھائی قلندر اور ڈھائی شاعر مشہور ہیں ہمیں بھی "ڈھائی وکیل " کا اعلان کردینا چاہیئے ۔
ان مشوروں کو تسلیم کرنےمیں سب سے بڑی دشواری ان وکیلوں کا انتخاب تھا جنہیں ہم اپنے ہم پلہ قرار دے سکیں ، ہم نے فوراََ پھپو سے پوچھا ، " پھپو پھر پہلے درجے پر کس وکیل کو رکھیں ؟" ۔ پھپو نے غضبناک انداز میں ہمیں گھورا اور فرمایا " ایسی روایات میں پہلا درجہ ہمیشہ اپنے پاس رکھا جاتا ہے ، تمہیں صرف باقی کے ڈیڑھ وکیل منتخب کرنے ہیں "۔ ہم نے عرض کیا "پھپو جان ، کرہِ ارض پر بڑے بڑے وکیل موجود ہیں ان میں سے فقط ڈیڑھ وکیل کیسے انتخاب کئے جاسکتے ہیں ؟"۔ پھپو نے بہت فراغ دلی کا مظاہرہ کیا، کہنے لگیں، "اچھا چلو تم یوں کہہ کر اس میں اضافہ کرلینا کہ دنیا میں ڈھائی قلندر ڈھائی شاعر اور وکیل ساڑھے تین ہیں "۔ ہماری سمجھ میں نہ آسکا کہ وکیلوں کی تعداد میں اس بے بہا اضافہ پر پھپو کا شکریہ کیسےادا کیا جائے۔بہرحال ہمیں اپنے بعد کے ڈھائی وکیل منظور کروانے تھے۔
ہم نے جان اینجل بیس اور تھامس میسرو وغیرہ کا نام لیا تو پھپو نے بھویں سکیڑتے ہوئے کہا، "ہمیں فرنگیوں سے کیا واسطہ؟، اپنے یہاں کے وکیلوں کی بات کرو"
ہم نے عرض کیا ، "لطیف کھوسہ؟"
پھپو نے کہا" دعویٰ جھوٹا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور!"
ہم نے عرض کیا "شریف الدین پیرزادہ ؟"
کہنے لگیں "ہاں ! وہ دوسرے وکیل ہوئے"
ہم نے عرض کیا" خالد انور؟"
پھپو نے کہا " ہاں تین ہوگئے"
اس سے پہلے کہ ہم کوئی اور نام لیتے پھپو کہنے لگیں ، "ہاں ! اور ادھا وکیل اعتزاز احسن ہوا" ، ہم نے کہا پھپو غضب خدا کا، اعتزاز احسن ادھا وکیل ؟ کہنے لگیں ، "ہاں ! وکلاء تحریک میں اعتزاز احسن سے کچھ لغزشیں سرزرد ہوئی تھیں اور ویسے بھی وکیل سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے لگے تو وکیل کس بات کا ؟" ہم نے کہا پھپو اس کلیہ کے تحت تو کوئی وکیل بچے گا ہی نہیں ! " کہنے لگیں " تو یہ جو ہم نے ساڑھے تین وکیل کا کلیہ انتخاب کیا ہے اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اپنے سوا سب کو غیر وکیل قرار دیا جاسکے"۔ ننھی پھپو کی اپنی ہی منطق تھی، مگر ہمیں اس بات کی خوشی تھی کہ اس معرکہ کے بعد خاندان بھر کے دیگر متحارب گروہوں پر ہماری دھاک جم چکی تھی، پھپو کا ہمارے موقف کو تسلیم کر لینے کا مطلب ہے کہ اب کسی کی طرف سے مخالفت کی گنجائش نہیں چاہے وہ ایک فرد ہو ، کئی منتشر افراد ہوں یا منظم گروہ، ہماری قلعہ بندی کو پار کرنا ،ناممکن ہے۔ لیکن پھپو نے ایک کام کی بات سمجھا دی کہ اپنے لیئے جس شعبہ کا انتخاب کرنا ہو پہلے ان سے متعلق لوگوں سے ملکر اس شعبہ کی زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرلی جائے
اپنے نیک عزائم کو لوگوں سے پوشیدہ رکھتے ہوئے ہم نے بار کونسل کے چکر لگانے بھی شروع کردیئے تا کہ اس متبرک شعبے سے متعلق مفید معلومات حاصل کی جائے۔بار کونسل کے کئی دوروں کے بعد ہم پر یہ راز کھلا کہ دیگر مخلوقات کی طرح وکیلوں کی بھی کئی اقسام پائ جاتی ہیں ۔ جن کی حتمی تفصیلات بارکونسل کے مستقل چپڑاسیوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔کچھ ناکام وکیلوں کی مدد سے ہم تاحال وکیلوں کی جن اقسام کو دریافت کر پائے وہ ہمارے عزم و ہمت میں زلزلہ پیدا کردینے کیلئے کافی تھیں ۔
سب سے پہلے تو اصلی وکیل، یہ وکیلوں کی وہ کمیاب قسم ہے جو شاذ شاذ ہی نظر آتے ہیں ، ابتدا میں تو یوں محسوس ہوا گویا یہ قسم ناپید ہوچکی ہے مگر بار کونسل میں کئی بار کی حاضری کے دوران احساس ہوا کہ ابھی یہ قسم باقی ہے ، یہ بارکونسل میں بہت کم نظر آتے ہیں اور نظر آتے بھی ہیں تو فقط وہاں سے گزرتے ہوئے ، عموماََ ان کے جلو میں دو نہایت تابع فرماں قسم کے ننھے وکیل یعنی جونیئر ہوتے ہیں، جن میں سے ایک کے ہاتھ میں مقدموں کی فائلیں اور دوسرے کے ہاتھوں میں کوئی پی ایل ڈی کی موٹی سی کتاب یا اصل وکیل کی ڈائری ہوتی ہے ، جو اس کے لئے کسی کتاب سے کم نہیں ہوتی یہ دونوں اصل وکیل کے دائیں بائیں چلتے ہوئے انتہائی ہنر مندی سے ایک ایسی مثلث تشکیل دے لیتے ہیں جس میں اصلی وکیل اور انکے درمیان شرقاََ غرباََ ڈیڑھ قدم کا فاصلہ اور آپس میں شمالََ جنوباََ ٹھیک تین قدم کا فاصلہ برقرار رہتا ہے ۔
اصلی وکیل اپنے مقدمات کی پیروی خود کریں یا کسی جونیئر کو بھیجیں ہر دو صورت میں انہیں مقدمے کی ٹھیک ٹھیک صورتحال معلوم ہوتی ہے ۔ اور یہ مقابلے کے وکیل سے ایک قدم آگے کی سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں گفتگو کم کرتے ہیں سوچتے زیادہ ہیں ان کے منہ سے نکلنے والا ایک ایک جملہ آئین کی پُر پیچ ندیوں میں نہایا ہوا، اور قانون کی موٹی موٹی کتابوں کی ہوا سے سکھایا ہوا ہوتا ہے ۔ اس پہلی قسم کے وکیلوں کو انسانوں کے بجائے کتابوں کے درمیان رہنا زیادہ پسند ہوتا ہے ۔سوائے جج حضرات کے ، یہ عام زندگی میں کسی سے نہیں الجھتے ، چونکہ یہ قسم شاذ و نادر نظر آتی ہے لہذا ان کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں۔
ان کے علاوہ وکیلوں کی ایک قسم نسلی وکیل بھی ہے ، یہ وکیلوں کی وہ قسم ہے جو نسل در نسل وکالت سے وابستہ ہے ان میں کچھ صرف ددیال کی طرف سے واکالت ورثے میں پاتے ہیں اور کچھ نجیب الطرفین وکیل ہوتے ہیں ادھر ابا اور دادا وکیل اور ادھر اماں اور نانا وکیل ۔ وکالت ان کی رگوں میں دوڑ تی ہے ۔ اور اگر انہیں وکالت سے دلچسپی نہ بھی ہو تب بھی یہ کامیاب وکیل ثابت ہوتے ہیں ۔ گھرانے کا گھرانا وکیل ہوتا ہے نہار منہ مقدموں کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ خاندان میں کوئی جج بھی ہوجائے تو سونے پہ سہاگہ ۔ نسلی وکیلوں کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، انہیں بچپن ہی سے وکالت کے داؤ پیچ سکھائے جاتے ہیں جس سے یہ اسکول میں اساتذہ اور ساتھ پڑھنے والے بچوں کی زندگی مشکل کردیتے ہیں بعد کو یہی مشق شدہ تربیت جج صاحبان کے لئے دردِ سر بنتی ہے ۔ ایسے واقعات بھی سننے میں آئے ہیں کہ بھر ی عدالت میں مقدمے کی پیروی کے دوران دلائل دیتے ہوئے وکیل صاحب نے "آئی آبجیکٹ مائی لارڈ" کے بجائے روانی میں " آئی آبجیکٹ بڑے ماموں" کہہ دیا۔
ایک اعتبار سے یہ مظلوم بھی ہوتے ہیں کہ کسی مقدمے کی بیروری میں تاخیر سے پہنچنے پر جو ڈانٹ جج صاحب سے کمرہِ عدالت میں پڑتی ہے وہی ڈانٹ رات کو کھانے کی میز پر انہیں جج صاحب سے بحثیت والدِ محترم دوبارہ سننے کو ملتی ہے ۔ ایک مرتبہ بارکونسل میں کچھ شور شرابے کی آوازیں سننے کو ملیں، دیکھا تو ایک خاتون وکیل کو دیگر خواتین وکلاء گھیرے کھڑی ہیں، اور ادھر مردانے میں بھی صنف کے فرق کے ساتھ یہی منظر ہے ، کچھ دنوں بعد بارکونسل کی دیواروں نے ہم سے بیان کیا کہ طلاق کے ایک مقدمے میں لڑکے والوں نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں، اور انہی وکیل کی اہلیہ جو خود بھی وکیل ہیں انہیں لڑکی والوں نے اپنا مقدمہ سونپ دیا۔
اس نوجوان وکیل جوڑے کے درمیان عدالت کے کمروں میں ہونے والا اختلاف ان کے گھر تک پہنچ گیا ، جوں جوں مقدمے میں شدت آتی گئی ان کے درمیان بھی تلخیاں بڑھتی گئیں ، جن لوگوں کا مقدمہ تھا انہوں نے تو بعد میں صلح صفائی کرلی مگر خاتون وکیل نے اپنے شوہر پر طلاق کا مقدمہ دائر کردیا۔ بقول شخصے، اگر جج صاحب ایک کے نانا اور ایک کے دادا نہ ہوتے تو اس نو بیہاتا جوڑے میں علیحدگی ہو ہی جاتی۔
نسلی وکیلوں کو جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں بہت سے نقصانات بھی ہیں ، ان کے مقابلے میں وکیلوں کی ایک دوسری قسم جسے "کسلی وکیل" کہا جاتا ہے ہمیشہ آرام سے رہتی ہے ۔ ان کی نسبت ان کی کسل مندی کی بنیاد پر ہے ۔ یہ انتہائی سست اور کاہل قسم کے وکیل ہوتے ہیں ، ایک تو عدالتی نظام کی رفتار پر پہلے ہی تنقید کی جاتی ہے ، کسلی وکیل اس رفتار کو اور سست کردیتے ہیں ، ذرا ذرا سی بات بلکہ بات بے بات پیروئی کی نئی تاریخ لینا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ " تاریخ پہ تاریخ ۔۔۔ تاریخ پہ تاریخ"جیسے مشہور فلمی ڈائیلاگ انہیں کسلی وکیلوں کی مرہونِ منت ہیں ۔ یہ زیادہ تر وقت اپنے دفاتر میں گزارتے ہیں بار کونسل میں کم آتے ہیں ۔ عدالتوں میں اس سے بھی کم جاتے ہیں ۔ یہ کبھی کبھی بار کونسل کے سوفوں میں یوں دھنس کے بیٹھے نظر آتے ہیں کہ کوٹ پشت سے اٹھ کر گدی سے ہوتا ہوا سر کے اوپر آکر ایک موکلہ سا بنا لیتا ہے جس سے منہ نکال کر یہ بے دلی اور نفرت سے چاک و چوبند وکیلوں کو گھورتے ہیں ۔ ویسے تو یہ تمام لوگوں کو گھورتے ہیں مگر ان کےغضب کا سب سے زیادہ شکار ، "پسلی وکیل " ہوتے ہیں ۔
جی ہاں ، "پسلی وکیل"یہ وہ وکیل ہیں جن کیلئے محاورے کا ڈیڑھ پسلی بھی زیادہ معلوم ہوتا ہے ۔ معصوم معصوم چہروں والے یہ ننھے وکیل ، اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے پڑھائی میں بہت آگے ہوتے ہیں ۔ یہ بچپن میں غذا سے حاصل ہونے والی توانائی کا بڑا حصہ، اپنی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں استعمال کرتے ہیں لہذا جسمانی نشونما کی رفتار سست پڑجاتی ہے ۔ اگر ایسے چار چھ پسلی وکیل ایک جگہ جمع ہوں اور پس منظر سے عدالت کی عمارت ہٹا دی جائے ، تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسکول کے بچے سالانہ ٹیبلو کی تیاری کررہے ہیں ۔
ایسے وکیل عموماََ جرائم کے مقدموں سے دور رہتے ہیں ، عموماََ ایسے مقدمات کا انتخاب کرتے ہیں جس میں کسی زور آور موکل سے واسطہ نہ پڑےمثلاََ مالی بے ضابتگی، نام کی تبدیلی ، ملکیت کی منتقلی، اور صلاح نامہ وغیرہ ۔ان کے بالکل مخالف ، وکیلوں کی ایک سب سے خطرناک قسم پائی جاتی ہے جسے "ٹسلی وکیل " کہا جاتا ہے ۔ یہ "ٹسلی" لفظ ٹسل سے ہے ۔ بمعنی اڑ جانا، ضد کرنا، کینہ رکھنا، جھگڑا کرنا ، دشمنی رکھنا، اس لفظ میں یہ تمام کیفیات یکجا ہیں ۔ اس نوع کے وکلا ء کے پاس زیادہ تر مقدمات اپنے ہی قائم کردہ ہوتے ہیں ۔جو انہوں نے اپنے قرب و جوار کے لوگوں پر مختلف اوقات اور مختلف کیفیات میں دائر کئے ہوتے ہیں ۔جن میں عام طور سے محلے کا دھوبی ، حجام، گاڑی کا مکینک، بچوں کے اسکول کا ہیڈ ماسٹر، سسرالی رشتہ دار، الغرض جہاں جہاں ان کی ٹسل ہوجائے یہ وہیں مقدمہ داغ دیتے ہیں ۔ یہ وکیل اپنی وکالت کی سند کا بے دریغ استعمال اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں ۔ بعض اوقات تو مقدمہ ہارنے کے بعد مقابلے کے وکیل تک پر مقدمہ داغ دیتے ہیں ۔
البتہ وکیلوں کی سب سے زرخیز قسم وصلی وکیل ہوتے ہیں ۔ یہ صرف عدالتی شادیاں یعنی کورٹ میرج کرواتے ہیں۔ ان کے پاس کبھی مقدمات کی کمی نہیں ہوتی ۔ بلکہ عدالتی شادیوں کے نتیجے میں عداوتی مقدمات کا ایسا بیج بو تے ہیں جس سے دوسرے وکیلوں کا دال دلیہ بھی جاری ہوجاتا ہے ۔ حالانکہ بارکونسل میں ان کی زیادہ آؤ بھگت نہیں ہوتی مگر اعداد و شمار سے ثابت کرنا مشکل نہیں کہ یہی طبقہء وکیلاں ساٹھ فیصد وکیلوں کیلئے معاشی راہیں ہموار کرتا ہے ۔
سب سے آخر میں ان کا تذکرہ بے جا نہیں جو وکیل ہیں ہی نہیں ۔ یعنی ، نقلی وکیل ، یہ بھی ایک بڑی جمعیت رکھتے ہیں ۔ ان کے پاس وکالت کی سند نہیں ہوتی مگر یہ روز صبح سویرے کالے کوٹ پہنے عدالتوں ، بارکونسلوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔ ان کے سب وکیلوں سے بہت گہرے مراسم ہوتے ہیں ، سب انہیں وکیل ہی سمجھتے ہیں ۔ یہ صبح سویرے عدالتوں میں کیسز ڈھونڈنے آتے ہیں ۔لوگ انہیں وکیل سمجھ کر اپنا مقدمہ ان کے حوالے کرتے ہیں ۔ یہ مقدمہ کی نوعیت دیکھ کر اپنے جاننے والے مناسب وکیل سے مقدمہ لڑواتے ہیں ۔ موکل سے معاوضہ خود لیتے ہیں اور اس میں سے کچھ حصہ اصل وکیل کو بھی دیتے ہیں ۔ نہ کتابوں سے مغز ماری، نہ ججوں کا سامنا، نہ کالج کی فیس ، نہ پڑھائی کو بوجھ۔ لیجیئے صاحب ہینگ لگی نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آیا۔
ظاہر ہے ان چشم کشا تفصیلات کے بعد وکیل بننے کی ہمارے خواب چکنا چور ہی ہوگئے، اب ہمیں سنجیدگی سے کسی اور شعبہ کا انتخاب کرنا تھا ۔ اب دل میں یہ خیال پیدا ہوا رہا ہے کہ مولوی بن جائیں ۔ لہذا کچھ مدرسوں کے چکر لگاتے ہیں ۔ دیکھیں کیا صورتحال بنتی ہے ۔
از حسن.علی امام
ویسے بھی ۔۔ ع
تیر جب بھی کماں سے نکلا ہے
حلقہء دوستاں سے نکلا ہے
جیسے جمہوری حکومت کے اختتامی سالوں اور آمریت کی ابتدا سے کچھ پہلے ، کچھ بااثر شخصیات ادھر سے ادھر با مقصد دورے کرتی نظر آتی ہیں ، اسی طرح ننھی پھپو خاندان بھر میں ہر تقریب ، ہر واقعہ، ہر جھگڑے سے پہلے ادھر سے ادھر منڈلاتی نظر آتی ہیں، خاندان کے کچھ منہ پھٹ لوگوں کا خیال ہے کہ ننھی پھپو کے تواتر کے ساتھ دورے، خاندان بھر میں خفیہ دوسری شادی، منگنی ٹوٹنے اور زبردستی طلاق جیسے سنگین مسائل کو جنم دیتے ہیں ۔ اس سے پیشتر کے ننھی پھپو ہماری اعلیٰ تعلیم کی راہ میں اپنے اعلیٰ فنِ تعمیر سے ایک دیوار کھڑی کردیں ، ہم نے طے کیا کہ ہم ننھی پھپو سے بنفس نفیس اس موضوع پر بات کریں گے ۔ لہذا شام کی چائے پر ہم نے بقلم خود ننھی پھپو کو مذاکرات کی دعوت دی ۔
ننھی پھپو نے شروع میں تو یہ ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کی کہ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ، مگر گفتگو آگے چلی تو انہوں نے برملا اپنی "تحریک نفاذِ ناخواندگی" کا اعلان کردیا۔ پھپو کا خیال تھا کہ اپنی آواز کو ہائی نوٹس پر لیجا کر وہ ہمیں دھمکا لیں گی، مگر ہم نے بھی طے کرلیا تھا کہ جو عزت افزائی وکالت کی ڈگری ملنے کے بعد جج صاحبان سے ہونے کی امید ہے، اس کی ابتدائی مشقیں گھر ہی سے کرکے جائیں گے۔ پھپو کو وکالت سے کیا بیر تھا یہ تو انہوں کُھل کر نہیں بتایا مگر ہمیں سمجھانے کی غرض سے وکیلوں کی بخشش کے حوالے سے اپنے سنگین خدشات کا اظہار کرنے لگیں ،
" تم دیکھ لینا ، روزِ محشر ان وکیلوں کی زبانیں گز گز بھر لمبی کر کےان پر آرڈر ، آرڈر کے آہنی ہتھوڑے مارے جائیں گے اور مقدمات کی فائلیں ، پھانسی کی رسیوں سے ان کے چہرے پر لپیٹ کر آگ میں بھونا جائے گا"
ہم نے انہیں سمجھایا کہ "پھپو آپ اپنا اعتراض احسن طریقے سے بھی پیش کرسکتی ہیں ، اس معمولی اعتراض کیلئے ہمیں روحانی بلیک میلنگ کی ضرورت ہر گز نہیں ہے "
پھپو کے دعوؤں کی بنیاد چونکہ محض مورثی جذبات اور روایات پر تھی ، اس لئے ہمیں انہیں رام کرنے میں چنداں دشواری نہیں ہوئی ، ہم نے نہایت اطمینان سے ان کی بات سنی اور پھر اپنے دلائل کا آغاز کیا، جن کی طوالت سے پھپو کو بخوبی اندازہ ہوگیا کہ اُن کے اعتراض ہی کی طرح ،ہمارے شوق کا تعلق بھی دلیل سے نہیں ہے ، اور جن ارادوں کے ستون دلیل کے بجائے جذبات پر قائم ہوں ان سے کسی طور ٹکر نہیں لی جاسکتی ۔
ہم نے وکیلوں کی وہ وکالت کی کہ پھپو کو یقین ہو گیا کہ وکیل نہ صرف یہ کہ بخشے جائیں گے بلکہ حافظوں اور شہیدوں کی طرح وکیلوں کے لئے بھی اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ وہ اپنے ساتھ اپنے بزرگوں کی بخشش بھی کروا سکیں ۔پھپو جہاں دیدہ خاتون تھیں ہمارے راستے میں بندھ باندھنے کے بجائے انہوں نے ہماری ہاں میں ہاں ملانے میں ہی دوجہان کی کامیابی دیکھی اور اسی کے ساتھ اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازنے لگیں ، ہم نے اپنی تعلیم کی راہ میں حائل اس پہلے ہی مقدمے میں کامیابی کے بعد سے اپنے آپ کو ایک مایہ ناز وکیل تصور کرنا شروع کردیا تھا، پھپو کے مشوروں کے بعدتو ہمارے دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ گئے۔ بقول ننھی پھپو ان کا مشاہدہ ہے کہ جب تک وکیل اور شاعر خود اپنے آپ کو اپنے معاصرین میں سب سے اعلیٰ تصور نہ کرے کوئی اور یہ کارِ خیر انجام نہیں دیتا ، اسی لئے جیسے دنیا میں ڈھائی قلندر اور ڈھائی شاعر مشہور ہیں ہمیں بھی "ڈھائی وکیل " کا اعلان کردینا چاہیئے ۔
ان مشوروں کو تسلیم کرنےمیں سب سے بڑی دشواری ان وکیلوں کا انتخاب تھا جنہیں ہم اپنے ہم پلہ قرار دے سکیں ، ہم نے فوراََ پھپو سے پوچھا ، " پھپو پھر پہلے درجے پر کس وکیل کو رکھیں ؟" ۔ پھپو نے غضبناک انداز میں ہمیں گھورا اور فرمایا " ایسی روایات میں پہلا درجہ ہمیشہ اپنے پاس رکھا جاتا ہے ، تمہیں صرف باقی کے ڈیڑھ وکیل منتخب کرنے ہیں "۔ ہم نے عرض کیا "پھپو جان ، کرہِ ارض پر بڑے بڑے وکیل موجود ہیں ان میں سے فقط ڈیڑھ وکیل کیسے انتخاب کئے جاسکتے ہیں ؟"۔ پھپو نے بہت فراغ دلی کا مظاہرہ کیا، کہنے لگیں، "اچھا چلو تم یوں کہہ کر اس میں اضافہ کرلینا کہ دنیا میں ڈھائی قلندر ڈھائی شاعر اور وکیل ساڑھے تین ہیں "۔ ہماری سمجھ میں نہ آسکا کہ وکیلوں کی تعداد میں اس بے بہا اضافہ پر پھپو کا شکریہ کیسےادا کیا جائے۔بہرحال ہمیں اپنے بعد کے ڈھائی وکیل منظور کروانے تھے۔
ہم نے جان اینجل بیس اور تھامس میسرو وغیرہ کا نام لیا تو پھپو نے بھویں سکیڑتے ہوئے کہا، "ہمیں فرنگیوں سے کیا واسطہ؟، اپنے یہاں کے وکیلوں کی بات کرو"
ہم نے عرض کیا ، "لطیف کھوسہ؟"
پھپو نے کہا" دعویٰ جھوٹا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور!"
ہم نے عرض کیا "شریف الدین پیرزادہ ؟"
کہنے لگیں "ہاں ! وہ دوسرے وکیل ہوئے"
ہم نے عرض کیا" خالد انور؟"
پھپو نے کہا " ہاں تین ہوگئے"
اس سے پہلے کہ ہم کوئی اور نام لیتے پھپو کہنے لگیں ، "ہاں ! اور ادھا وکیل اعتزاز احسن ہوا" ، ہم نے کہا پھپو غضب خدا کا، اعتزاز احسن ادھا وکیل ؟ کہنے لگیں ، "ہاں ! وکلاء تحریک میں اعتزاز احسن سے کچھ لغزشیں سرزرد ہوئی تھیں اور ویسے بھی وکیل سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے لگے تو وکیل کس بات کا ؟" ہم نے کہا پھپو اس کلیہ کے تحت تو کوئی وکیل بچے گا ہی نہیں ! " کہنے لگیں " تو یہ جو ہم نے ساڑھے تین وکیل کا کلیہ انتخاب کیا ہے اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اپنے سوا سب کو غیر وکیل قرار دیا جاسکے"۔ ننھی پھپو کی اپنی ہی منطق تھی، مگر ہمیں اس بات کی خوشی تھی کہ اس معرکہ کے بعد خاندان بھر کے دیگر متحارب گروہوں پر ہماری دھاک جم چکی تھی، پھپو کا ہمارے موقف کو تسلیم کر لینے کا مطلب ہے کہ اب کسی کی طرف سے مخالفت کی گنجائش نہیں چاہے وہ ایک فرد ہو ، کئی منتشر افراد ہوں یا منظم گروہ، ہماری قلعہ بندی کو پار کرنا ،ناممکن ہے۔ لیکن پھپو نے ایک کام کی بات سمجھا دی کہ اپنے لیئے جس شعبہ کا انتخاب کرنا ہو پہلے ان سے متعلق لوگوں سے ملکر اس شعبہ کی زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرلی جائے
اپنے نیک عزائم کو لوگوں سے پوشیدہ رکھتے ہوئے ہم نے بار کونسل کے چکر لگانے بھی شروع کردیئے تا کہ اس متبرک شعبے سے متعلق مفید معلومات حاصل کی جائے۔بار کونسل کے کئی دوروں کے بعد ہم پر یہ راز کھلا کہ دیگر مخلوقات کی طرح وکیلوں کی بھی کئی اقسام پائ جاتی ہیں ۔ جن کی حتمی تفصیلات بارکونسل کے مستقل چپڑاسیوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔کچھ ناکام وکیلوں کی مدد سے ہم تاحال وکیلوں کی جن اقسام کو دریافت کر پائے وہ ہمارے عزم و ہمت میں زلزلہ پیدا کردینے کیلئے کافی تھیں ۔
سب سے پہلے تو اصلی وکیل، یہ وکیلوں کی وہ کمیاب قسم ہے جو شاذ شاذ ہی نظر آتے ہیں ، ابتدا میں تو یوں محسوس ہوا گویا یہ قسم ناپید ہوچکی ہے مگر بار کونسل میں کئی بار کی حاضری کے دوران احساس ہوا کہ ابھی یہ قسم باقی ہے ، یہ بارکونسل میں بہت کم نظر آتے ہیں اور نظر آتے بھی ہیں تو فقط وہاں سے گزرتے ہوئے ، عموماََ ان کے جلو میں دو نہایت تابع فرماں قسم کے ننھے وکیل یعنی جونیئر ہوتے ہیں، جن میں سے ایک کے ہاتھ میں مقدموں کی فائلیں اور دوسرے کے ہاتھوں میں کوئی پی ایل ڈی کی موٹی سی کتاب یا اصل وکیل کی ڈائری ہوتی ہے ، جو اس کے لئے کسی کتاب سے کم نہیں ہوتی یہ دونوں اصل وکیل کے دائیں بائیں چلتے ہوئے انتہائی ہنر مندی سے ایک ایسی مثلث تشکیل دے لیتے ہیں جس میں اصلی وکیل اور انکے درمیان شرقاََ غرباََ ڈیڑھ قدم کا فاصلہ اور آپس میں شمالََ جنوباََ ٹھیک تین قدم کا فاصلہ برقرار رہتا ہے ۔
اصلی وکیل اپنے مقدمات کی پیروی خود کریں یا کسی جونیئر کو بھیجیں ہر دو صورت میں انہیں مقدمے کی ٹھیک ٹھیک صورتحال معلوم ہوتی ہے ۔ اور یہ مقابلے کے وکیل سے ایک قدم آگے کی سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں گفتگو کم کرتے ہیں سوچتے زیادہ ہیں ان کے منہ سے نکلنے والا ایک ایک جملہ آئین کی پُر پیچ ندیوں میں نہایا ہوا، اور قانون کی موٹی موٹی کتابوں کی ہوا سے سکھایا ہوا ہوتا ہے ۔ اس پہلی قسم کے وکیلوں کو انسانوں کے بجائے کتابوں کے درمیان رہنا زیادہ پسند ہوتا ہے ۔سوائے جج حضرات کے ، یہ عام زندگی میں کسی سے نہیں الجھتے ، چونکہ یہ قسم شاذ و نادر نظر آتی ہے لہذا ان کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں۔
ان کے علاوہ وکیلوں کی ایک قسم نسلی وکیل بھی ہے ، یہ وکیلوں کی وہ قسم ہے جو نسل در نسل وکالت سے وابستہ ہے ان میں کچھ صرف ددیال کی طرف سے واکالت ورثے میں پاتے ہیں اور کچھ نجیب الطرفین وکیل ہوتے ہیں ادھر ابا اور دادا وکیل اور ادھر اماں اور نانا وکیل ۔ وکالت ان کی رگوں میں دوڑ تی ہے ۔ اور اگر انہیں وکالت سے دلچسپی نہ بھی ہو تب بھی یہ کامیاب وکیل ثابت ہوتے ہیں ۔ گھرانے کا گھرانا وکیل ہوتا ہے نہار منہ مقدموں کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ خاندان میں کوئی جج بھی ہوجائے تو سونے پہ سہاگہ ۔ نسلی وکیلوں کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، انہیں بچپن ہی سے وکالت کے داؤ پیچ سکھائے جاتے ہیں جس سے یہ اسکول میں اساتذہ اور ساتھ پڑھنے والے بچوں کی زندگی مشکل کردیتے ہیں بعد کو یہی مشق شدہ تربیت جج صاحبان کے لئے دردِ سر بنتی ہے ۔ ایسے واقعات بھی سننے میں آئے ہیں کہ بھر ی عدالت میں مقدمے کی پیروی کے دوران دلائل دیتے ہوئے وکیل صاحب نے "آئی آبجیکٹ مائی لارڈ" کے بجائے روانی میں " آئی آبجیکٹ بڑے ماموں" کہہ دیا۔
ایک اعتبار سے یہ مظلوم بھی ہوتے ہیں کہ کسی مقدمے کی بیروری میں تاخیر سے پہنچنے پر جو ڈانٹ جج صاحب سے کمرہِ عدالت میں پڑتی ہے وہی ڈانٹ رات کو کھانے کی میز پر انہیں جج صاحب سے بحثیت والدِ محترم دوبارہ سننے کو ملتی ہے ۔ ایک مرتبہ بارکونسل میں کچھ شور شرابے کی آوازیں سننے کو ملیں، دیکھا تو ایک خاتون وکیل کو دیگر خواتین وکلاء گھیرے کھڑی ہیں، اور ادھر مردانے میں بھی صنف کے فرق کے ساتھ یہی منظر ہے ، کچھ دنوں بعد بارکونسل کی دیواروں نے ہم سے بیان کیا کہ طلاق کے ایک مقدمے میں لڑکے والوں نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں، اور انہی وکیل کی اہلیہ جو خود بھی وکیل ہیں انہیں لڑکی والوں نے اپنا مقدمہ سونپ دیا۔
اس نوجوان وکیل جوڑے کے درمیان عدالت کے کمروں میں ہونے والا اختلاف ان کے گھر تک پہنچ گیا ، جوں جوں مقدمے میں شدت آتی گئی ان کے درمیان بھی تلخیاں بڑھتی گئیں ، جن لوگوں کا مقدمہ تھا انہوں نے تو بعد میں صلح صفائی کرلی مگر خاتون وکیل نے اپنے شوہر پر طلاق کا مقدمہ دائر کردیا۔ بقول شخصے، اگر جج صاحب ایک کے نانا اور ایک کے دادا نہ ہوتے تو اس نو بیہاتا جوڑے میں علیحدگی ہو ہی جاتی۔
نسلی وکیلوں کو جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں بہت سے نقصانات بھی ہیں ، ان کے مقابلے میں وکیلوں کی ایک دوسری قسم جسے "کسلی وکیل" کہا جاتا ہے ہمیشہ آرام سے رہتی ہے ۔ ان کی نسبت ان کی کسل مندی کی بنیاد پر ہے ۔ یہ انتہائی سست اور کاہل قسم کے وکیل ہوتے ہیں ، ایک تو عدالتی نظام کی رفتار پر پہلے ہی تنقید کی جاتی ہے ، کسلی وکیل اس رفتار کو اور سست کردیتے ہیں ، ذرا ذرا سی بات بلکہ بات بے بات پیروئی کی نئی تاریخ لینا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ " تاریخ پہ تاریخ ۔۔۔ تاریخ پہ تاریخ"جیسے مشہور فلمی ڈائیلاگ انہیں کسلی وکیلوں کی مرہونِ منت ہیں ۔ یہ زیادہ تر وقت اپنے دفاتر میں گزارتے ہیں بار کونسل میں کم آتے ہیں ۔ عدالتوں میں اس سے بھی کم جاتے ہیں ۔ یہ کبھی کبھی بار کونسل کے سوفوں میں یوں دھنس کے بیٹھے نظر آتے ہیں کہ کوٹ پشت سے اٹھ کر گدی سے ہوتا ہوا سر کے اوپر آکر ایک موکلہ سا بنا لیتا ہے جس سے منہ نکال کر یہ بے دلی اور نفرت سے چاک و چوبند وکیلوں کو گھورتے ہیں ۔ ویسے تو یہ تمام لوگوں کو گھورتے ہیں مگر ان کےغضب کا سب سے زیادہ شکار ، "پسلی وکیل " ہوتے ہیں ۔
جی ہاں ، "پسلی وکیل"یہ وہ وکیل ہیں جن کیلئے محاورے کا ڈیڑھ پسلی بھی زیادہ معلوم ہوتا ہے ۔ معصوم معصوم چہروں والے یہ ننھے وکیل ، اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے پڑھائی میں بہت آگے ہوتے ہیں ۔ یہ بچپن میں غذا سے حاصل ہونے والی توانائی کا بڑا حصہ، اپنی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں استعمال کرتے ہیں لہذا جسمانی نشونما کی رفتار سست پڑجاتی ہے ۔ اگر ایسے چار چھ پسلی وکیل ایک جگہ جمع ہوں اور پس منظر سے عدالت کی عمارت ہٹا دی جائے ، تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسکول کے بچے سالانہ ٹیبلو کی تیاری کررہے ہیں ۔
ایسے وکیل عموماََ جرائم کے مقدموں سے دور رہتے ہیں ، عموماََ ایسے مقدمات کا انتخاب کرتے ہیں جس میں کسی زور آور موکل سے واسطہ نہ پڑےمثلاََ مالی بے ضابتگی، نام کی تبدیلی ، ملکیت کی منتقلی، اور صلاح نامہ وغیرہ ۔ان کے بالکل مخالف ، وکیلوں کی ایک سب سے خطرناک قسم پائی جاتی ہے جسے "ٹسلی وکیل " کہا جاتا ہے ۔ یہ "ٹسلی" لفظ ٹسل سے ہے ۔ بمعنی اڑ جانا، ضد کرنا، کینہ رکھنا، جھگڑا کرنا ، دشمنی رکھنا، اس لفظ میں یہ تمام کیفیات یکجا ہیں ۔ اس نوع کے وکلا ء کے پاس زیادہ تر مقدمات اپنے ہی قائم کردہ ہوتے ہیں ۔جو انہوں نے اپنے قرب و جوار کے لوگوں پر مختلف اوقات اور مختلف کیفیات میں دائر کئے ہوتے ہیں ۔جن میں عام طور سے محلے کا دھوبی ، حجام، گاڑی کا مکینک، بچوں کے اسکول کا ہیڈ ماسٹر، سسرالی رشتہ دار، الغرض جہاں جہاں ان کی ٹسل ہوجائے یہ وہیں مقدمہ داغ دیتے ہیں ۔ یہ وکیل اپنی وکالت کی سند کا بے دریغ استعمال اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں ۔ بعض اوقات تو مقدمہ ہارنے کے بعد مقابلے کے وکیل تک پر مقدمہ داغ دیتے ہیں ۔
البتہ وکیلوں کی سب سے زرخیز قسم وصلی وکیل ہوتے ہیں ۔ یہ صرف عدالتی شادیاں یعنی کورٹ میرج کرواتے ہیں۔ ان کے پاس کبھی مقدمات کی کمی نہیں ہوتی ۔ بلکہ عدالتی شادیوں کے نتیجے میں عداوتی مقدمات کا ایسا بیج بو تے ہیں جس سے دوسرے وکیلوں کا دال دلیہ بھی جاری ہوجاتا ہے ۔ حالانکہ بارکونسل میں ان کی زیادہ آؤ بھگت نہیں ہوتی مگر اعداد و شمار سے ثابت کرنا مشکل نہیں کہ یہی طبقہء وکیلاں ساٹھ فیصد وکیلوں کیلئے معاشی راہیں ہموار کرتا ہے ۔
سب سے آخر میں ان کا تذکرہ بے جا نہیں جو وکیل ہیں ہی نہیں ۔ یعنی ، نقلی وکیل ، یہ بھی ایک بڑی جمعیت رکھتے ہیں ۔ ان کے پاس وکالت کی سند نہیں ہوتی مگر یہ روز صبح سویرے کالے کوٹ پہنے عدالتوں ، بارکونسلوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔ ان کے سب وکیلوں سے بہت گہرے مراسم ہوتے ہیں ، سب انہیں وکیل ہی سمجھتے ہیں ۔ یہ صبح سویرے عدالتوں میں کیسز ڈھونڈنے آتے ہیں ۔لوگ انہیں وکیل سمجھ کر اپنا مقدمہ ان کے حوالے کرتے ہیں ۔ یہ مقدمہ کی نوعیت دیکھ کر اپنے جاننے والے مناسب وکیل سے مقدمہ لڑواتے ہیں ۔ موکل سے معاوضہ خود لیتے ہیں اور اس میں سے کچھ حصہ اصل وکیل کو بھی دیتے ہیں ۔ نہ کتابوں سے مغز ماری، نہ ججوں کا سامنا، نہ کالج کی فیس ، نہ پڑھائی کو بوجھ۔ لیجیئے صاحب ہینگ لگی نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آیا۔
ظاہر ہے ان چشم کشا تفصیلات کے بعد وکیل بننے کی ہمارے خواب چکنا چور ہی ہوگئے، اب ہمیں سنجیدگی سے کسی اور شعبہ کا انتخاب کرنا تھا ۔ اب دل میں یہ خیال پیدا ہوا رہا ہے کہ مولوی بن جائیں ۔ لہذا کچھ مدرسوں کے چکر لگاتے ہیں ۔ دیکھیں کیا صورتحال بنتی ہے ۔
از حسن.علی امام