قرۃالعین اعوان
لائبریرین
وہی اضطرابِ فراق ہے ، وہی اشتیاقِ وصال ہے
تیری جستجو میں جو حال تھا تجھے پاکے بھی وہی حال ہے
نہ مالِ زیست کی فکر ہے نا تباہیوں کا خیال ہے
مجھے صرف اس کا ملال ہے کہ تمہیں بھی میرا ملال ہے
تیری آرزو کا ہی فیض ہے تیری یاد ہی کا کمال ہے
کبھی مجھ کو تیرا خیال تھا مگر آج اپنا خیال ہے
نہیں کوئی رہنما تو کیا ہے خلاف ساری فضا تو کیا
مجھے فکرِ سود و زیاں ہو کیوں تیری یاد شاملِ حال ہے
میرا حال آج زبوں ہے کیوں میرا درد آج فزوں ہے کیوں
میرے مہرباں میرے چارہ گر تیری آبرو کا سوال ہے
قابل اجمیری
تیری جستجو میں جو حال تھا تجھے پاکے بھی وہی حال ہے
نہ مالِ زیست کی فکر ہے نا تباہیوں کا خیال ہے
مجھے صرف اس کا ملال ہے کہ تمہیں بھی میرا ملال ہے
تیری آرزو کا ہی فیض ہے تیری یاد ہی کا کمال ہے
کبھی مجھ کو تیرا خیال تھا مگر آج اپنا خیال ہے
نہیں کوئی رہنما تو کیا ہے خلاف ساری فضا تو کیا
مجھے فکرِ سود و زیاں ہو کیوں تیری یاد شاملِ حال ہے
میرا حال آج زبوں ہے کیوں میرا درد آج فزوں ہے کیوں
میرے مہرباں میرے چارہ گر تیری آبرو کا سوال ہے
قابل اجمیری