اکمل زیدی
محفلین
ابھی صبح آفس آتےہوئے : ۔ ۔ ۔ گاڑیاں رکی ہویں تھیں روڈ بلاک تھا روڈ کے دونوں طرف پاکستانی فوج کے چوکس جوان تھے ان سے زیادہ پولس اور ٹریفک والے چوکس لگ رہے تھے شاید کسی جرنیل کرنیل کو گذرنا تھا ایمبولینس پیچھے بین کر رہی تھی مگر آگے جانا بین تھا میں حسب معمول ارد گرد کا جائزہ لے رہا تھا اچانک روڈ کے دوسری طرف دیکھا ٹریفک پولس والے نے ایک جوان کو دبوچا ہوا تھا اور بال پکڑ کر بری طرح زدوکوب کر رہا تھا جس میں اس کا ساتھی اور پولس والا اپنے پیٹی بند بھائی کا ھاتھ بٹانے میں لگے ھوئے تھےآخر کو وہ بھی فرض شناس تھے بائک کچھ آگے بڑھائی گئ تھی جو اس جوان کی شامت کا سبب بنی مگر اتنی سی بات پر اس بری طرح سے مارنا سمجھ نہیں آیا میں نے جلدی سے اپنا فون نکالا کے ویڈیو بناوں مگر فاصلہ کافی تھا اور وہ اسے مارتے ہوے سائڈ پر لے گئے میں انتہائی غصے کے عالم میں یہ سب دیکھ رہا تھا ایک بندہ بھی کچھ کہنے کا رسک نہیں لے رہا تھا عجب بے حسی یا بے کسی کا منظر تھا میں کچھ سو چ کر بائک کو لمبا گھما کر اس سمت کو چل دیا، پٹ لونگا میں بھی مگر صدائے احتجاج ضرور بلند کرونگا یہ کیا مذاق ہے کسی کی کوئی عزت ہی نہیں ہے کیا حملہ کرتے ہوے پکڑا ہے کیا کوئ پرسان حال ہی نہیں ہے انہیں سوچوں میں میں ہم جا ئے وقوعہ پر پہنچے اور پہنچتے ہی ٹھنڈ پڑ گئ دل میں نہیں جذبات میں کیونکہ جن کے ساتھ واقعہ ہوا تھا وہ اس گناہ عظیم کی معافی تلافی کر کے جا چکے تھے اور ایک دوسرے صاحب جنہوں نے ذمہ داری محسوس کرتے ہوے وہاں خرکار سوری میرا مطلب ہے سرکار کو اس ناانصافی پر کہا تھا انہیں حد درجے کی مغلظات سے نواز رہے تھے وہ ٹریفک پولس والا اس عظیم انساں کے خاندان کے بارے میں اپنی مفروضہ معلومات سے لوگوں کو مستفیذ کر رہا تھا اور وہ بندہ انتہائی غم و غصہ میں اپنے جذبات پر قابو کیے اس کےکول ڈاءون ہونے کا انتظار کیے سن رہا تھا ۔ ۔ ہم بھی تماشائیوں میں کھڑے تھے کیونکہ اس تماشے کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا مار کھانے کا حوصلہ تو تھا ۔۔۔۔مگر ۔ ۔ ۔ ۔