مہ جبین
محفلین
وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو تِرا آستاں بتایا
تجھے حمد ہے خدایا
تمِہیں حاکمِ برایا تمِہیں قاسمِ عطایا
تمہِیں دافعِ بلایا تمہِیں شافعِ خطایا
کوئی تم سا کون آیا
وہ کنواری پاک مریم وہ نَفَختُ فیِہ کا دَم
ہے عجب نشانِ اعظم، مگر آمنہ کا جایا
وہی سب سے افضل آیا
یہی بولے سدرہ والے چمنِ جہاں کے تھالے
سب ہی میں نے چھان ڈالے تِرے پایہ کا نہ پایا
تجھے یک نے یک بنایا
کبھی خندہ زیرِ لب ہے کبھی گریہ ساری شب ہے
کبھی غم کبھی طرب ہے نہ سبب سمجھ میں آیا
نہ اسی نے کچھ بتایا
کبھی خاک پر پڑا ہےسر چرخ زیرِ پا ہے
کبھی پیشِ در کھڑا ہے سرِ بندگی جھکایا
تو قدم میں عرش پایا
کبھی وہ تپک کے آتش کبھی ٹپک کے بارش
کبھی وہ ہجومِ نالش کوئی جانے ابر چھایا
بڑی جوششوں سے آیا
کبھی وہ چہک کہ بلبل کبھی وہ مہک کہ خود گل
کبھی وہ لہک کہ بالکل چمنِ جناں کھلایا
گلِ قدس لہلہایا
کبھی زندگی کے ارماں کبھی مرگِ نَو کا خواہاں
وہ جیا کہ مرگِ قرباں وہ موا کہ زیست لایا
کہے روح ہاں جِلایا
کبھی کم کبھی عیاں ہے کبھی سرد گہ تپاں ہے
کبھی زیرِ لب فغاں ہے کبھی چپ کہ دم نہ تھایا
رخ کام جاں دکھایا
یہ تصوراتِ باطل تِرے آگے کیا ہیں مشکل
تری قدرتیں ہیں کامل انہیں راست کر خدایا
میں انہیں شفیع لایا
اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ