کاشفی
محفلین
غزل
وہی طول ہے، وہی اضطراب، وہی نزول عذاب کا
مجھے اپنے روزِ سیاہ پر ہے گمان روزِ حساب کا
دل و جان و صبر و قرار، مطربِ عشق سب تری نذر ہیں
ابھی ایک نغمہ سُنا ہے میں نے ترے طلسمی رباب کا
ہو محیطِ دہر میں سر بلند کہ ڈر فنا کا فضول ہے
ہے نثار شوکتِ یک دقیقہ پہ سر ہر ایک حباب کا
یہی اعترافِ وفا ہے، دوست! جواب سمجھنے لگا ہے تو
کہ مرے سوا نہیں مستحق کوئی تیرے جوروعتاب کا
یہ شرابِ جام فروز، اور یہ ترا جمالِ زمانہ سوز!
مجھے ہوش کیا ہے کہ امتیاز کروں گناہ و ثواب کا
طرب و نشاط سے کیا غرض؟ مجھے غم سے دائمی ربط ہے
کہ ہے نشہ عہدِ قدیم سے مجھے اس پرانی شراب کا
جسے ڈھونڈھتا تھا ازل سے تو، وہ ترے ہی خانہء دل میں تھا
تری کم نگاہی، کلیم، بن گئی باعث اس کے حجاب کا
(عطا اللہ کلیم)
وہی طول ہے، وہی اضطراب، وہی نزول عذاب کا
مجھے اپنے روزِ سیاہ پر ہے گمان روزِ حساب کا
دل و جان و صبر و قرار، مطربِ عشق سب تری نذر ہیں
ابھی ایک نغمہ سُنا ہے میں نے ترے طلسمی رباب کا
ہو محیطِ دہر میں سر بلند کہ ڈر فنا کا فضول ہے
ہے نثار شوکتِ یک دقیقہ پہ سر ہر ایک حباب کا
یہی اعترافِ وفا ہے، دوست! جواب سمجھنے لگا ہے تو
کہ مرے سوا نہیں مستحق کوئی تیرے جوروعتاب کا
یہ شرابِ جام فروز، اور یہ ترا جمالِ زمانہ سوز!
مجھے ہوش کیا ہے کہ امتیاز کروں گناہ و ثواب کا
طرب و نشاط سے کیا غرض؟ مجھے غم سے دائمی ربط ہے
کہ ہے نشہ عہدِ قدیم سے مجھے اس پرانی شراب کا
جسے ڈھونڈھتا تھا ازل سے تو، وہ ترے ہی خانہء دل میں تھا
تری کم نگاہی، کلیم، بن گئی باعث اس کے حجاب کا
(عطا اللہ کلیم)