حضرت شیخ الاسلام زندگی کی پانچ بہاریں کینیڈا کی عافیتوں میں گزارنے کے بعد وطن واپس تشریف لا چکے ہیں، تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ شیخ الاسلام اکیلے تشریف لائے ہیں یا ان کے ہمراہ بشارتوں اور الہام کا ایک لشکرِ جرار بھی ہے۔شیخ الاسلام نے جب سیاست کا آغاز کیا تھا تو کہا گیا اس کام کے لئے مدینہ جا کر رسول کریم ﷺ سے باقاعدہ اجازت لی گئی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اگر سیاست کا آغاز رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے ہوا تھا تو شیخ الاسلام سیاست چھوڑنے کا تصور بھی کیسے کر رہے ہیں۔کہیں وہ ماضی میں ایک خوفناک غلط بیانی کے مرتکب تو نہیں ہو چکے؟
جناب شیخ الاسلام کی اکثر کتب کے دیباچے میں ایک مضمون شامل ہے جس کا عنوان ہے’’ نابغہِ عصر‘‘۔میرا خیال ہے اینکر حضرات کو اس مضمون کا مطالعہ ابھی سے کر لینا چاہیے۔اس مضمون کے مطالعے سے آپ کو معلوم ہو گاکہ شیخ الاسلام کی ولادتِ با سعادت سے لے کر سیاست میں تشریف آوری تک ہر مرحلہ اسی الہامی اور بشارتی لبادے میں لپٹا ہوا ہے۔چنانچہ شیخ الاسلام نے اپنی پہلی تحریک کا آغاز باقاعدہ رسول اللہ ﷺ کے حکم مبارک پر کیا۔اور بغداد اور مدینہ جا کر نبی رحمتﷺ اور شیخ عبدالقادر جیلانی سے اجازت لینے کے بعد سیاسی سفر کا آغاز کیا۔
اب سولات کا ایک دفتر کھلا ہے۔مناسب ہو گا شیخ الاسلام نئے سفر شروع کرنے سے پہلے ان سوالات کا جواب دے دیں ۔
۱۔اگر تحریک کا آغاز رسول اللہ ﷺکے حکم پر ہوا تھا تو رسول اللہ ﷺ کی اجازت کے بعدشیخ عبد القادر جیلانی سے اجازت لینے کی کیا ضرورت تھی؟
2۔اگر سیاست شروع کرنے سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے مدینہ جا کر اجازت لے لی گئی تھی تو پھر سیاست کو چھوڑدینا کیا حکمِ رسولﷺ کی خلاف ورزی نہیں ہو گی؟
3۔اگر شیخ الاسلام نے نبی رحمتﷺ کے حکم پر سیاست شروع کی تھی تو پھر ان کا سیاسی تجربہ ناکام کیوں ہوا؟نیز یہ کہ جن لوگوں نے ان کو ووٹ نہیں دیا کیا وہ دائرہِ اسلام سے خارج ہو چکے ہیں ؟
4۔مدینہ جا کر شیخ الاسلام نے جو اجازت لی تھی کیا وہ اجازت حدیث قرار پائے گی؟اس اجازت کے باوجود اگر شیخ الاسلام سیاسی کامیابی حاصل نہ کر سکے تو ان کے مخالفین کیا منکرینِ حدیث قرار پائیں گے؟
5۔شیخ اسلام کبھی نواز شریف کے قصیدے پڑھتے تھے، پھر بے نظیر کے ساتھ مل کر اسلامی نظام کے لئے کوشاں رہے۔پرویز مشرف کو دیکھا تو فرمایا’’ہاں ہاں قوم کو آپ کی ضرورت ہے‘‘۔اگر ان کی تحریک کا آغاز رسول اللہﷺ کے حکم پر ہواتو پھر ان کی شخصیت میں اتنے تضادات کیوں؟
شیخ الاسلام کے ذمے ان سوالات کا جواب قرض بھی ہے اور فرض بھی۔امید ہے وہ ادائیگی فرض میں کوتاہی نہیں کریں گے۔یہ سوال بڑا بنیادی ہے کہ اگر شیخ الاسلام نے اپنی سیاست کا آغاز نبی رحمت ﷺ کے حکم پر کیا تھا اور اس کے لئے باقاعدہ اجازت لی تھی تو اب سیاست چھوڑ کر وہ کہیں ایک گناہ کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟
کل شام جب مارگلہ کے اس پار سورج ڈھل رہا تھا،جنگل ہٹ میں گرم قہوے کی چسکی لیتے ہوئے ایک صاحبِ علم نے سوال کیا:حضرت،علامہ،پروفیسر اور ڈاکٹر تو یہ بہت پہلے بن چکے تھے، یہ بتائیے کہ اعلی حضرت’ شیخ الاسلام ‘کب سے ہو گئے؟اسلم رئیسانی کے بلوچستان سے آئے ہمارے قانون دان دوست ہارون مینگل نے جواب دیا:’’صاحب ،جس طرح ڈگری ڈگری ہوتی ہے اسی طرح شیخ الاسلام بھی صرف شیخ الاسلام ہوتے ہیں‘‘۔
جنابِ نذیر ناجی نے کیا گرہ لگائی: اکیس دسمبر کو قیامت تو نہ آئی،شیخ الاسلام آ گئے۔اب رہنمائی کرنا تو شیخ الاسلام ہی کو زیبا ہے کہ ایسے واقعات کا تعلق مخلوق کے اپنے اعمال سے ہوتا ہے یا اسے محض مشیت ایزدی سمجھا جائے۔گنہ گار وں کی رائے تو یہ ہے کہ جس معاشرے کو حق مانگنے پر ضیاء الحق مل جاتا ہو ،ریاست بچانے کے لیے اگر اسے شیخ الاسلام مل گئے ہیں تو کون سی انہونی ہو گئی ہے۔
’سیاست نہیں ، ریاست بچاؤ‘ فی الحقیقت اس بات کا اعلان ہے کہ ہم نے اس قوم کو فکری طور پر بالغ نہیں ہونے دینا۔ہر بار جب اہلِ سیاست بے نقاب ہونے لگتے ہیں اور امکان پیدا ہے کہ اب کے انتخابات میں قوم ان شکم پرستوں کو رد کر دے گی،اچانک کوئی نہ کوئی مسیحا کہیں سے آتا ہے اور نیم خواندہ قوم بغلیں بجانے لگ جاتی ہے۔یحیی خان سے لے کر قبلہ پرویز مشرف تک اور بوگرہ سے لے کر معین قریشی تک ،یہ سب کے سب اپنے وقتوں کے مسیحا بن کر ہی تو اس قوم پر مسلط ہوئے تھے، انجام کیا ہوا؟اس وقت بھی اسلام آباد کی فضاؤں میں بہت سے ایسے مسیحاؤں کی آمد کی مہک شامل ہو چکی ہے جو آئیں گے،دو سال کے لئے الیکشن ملتوی کرا دیں گے، اس عرصے میں گندے عناصر کا احتساب ہو گا اور دو سال کے بعد جب میدانِ سیاست میں متقی اور نیک پاک لوگ بچ جائیں گے جو وعدہ شکن اور آئین شکن امیر المومنین کے دیے گئے آرٹیکل 62اور63پر پورا اترتے ہوں گے تب جا کر الیکشن ہوں گے اورپھر یہ نیک پاک لوگ حکومت بنا کر ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے اور ہم غٹا غٹ اسے پیا کریں گے۔جمہوریت کا علاج کوئی مشکوک قسم کا انقلاب نہیں بلکہ مزید جمہوریت ہے۔لیکن یہ بات شیخ الاسلام کو کون سمجھائے؟شیخ الاسلام کو توشرح صدر ہو گئی ہے کہ گنہ گارعوام ان کو ووٹ نہیں دیں گے اس لئے اب کی بار انہوں نے سیاست ہی کی نفی کر دی ہے۔جہنم میں جائے ایسی سیاست جس میں شیخ الاسلام کی اسلامی خلافت قائم نہ ہو سکے۔شیخ الاسلام کا نعرہ تو خوب ہے، نیم خواندہ ماحول میں ایسے نعرے مونا لیزا کی مسکراہٹ سے زیادہ قیامت خیز ثابت ہو سکتے ہیں،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شیخ الاسلام اندازے کی غلطی کا شکار ہو گئے ہیں۔وہ اس دور میں تشریف لائے ہیں جب میڈیا آزاد ہے اور لذتِ حریت میں تھوڑا سرکش بھی۔ایسے میں جب شیخ الاسلام کا ماضی زیر بحث آ ئے گا تو امید ہے کہ ٹاک شوزمیں ایسے معرکے بپا ہوں گے کہ الامان۔ذرا تصور کیجئے جب جنابِ مشاہد اللہ کسی ٹاک شو میں بیٹھ کر شیخ الاسلام کی بشارتوں کا احوال بیان کریں گے۔ایسے ایسے پہلو سامنے آئیں گے کہ جلترنگ بج اٹھیں گے۔اور اگر ایسا ہوا تو شیخ الاسلام کی تشریف آوری اہلِ مذہب کے لئے کسی خیر کا باعث نہیں بن سکے گی۔ (آصف محمود کا کالم، نئی دنیا 23 دسمبر 2012 ء)