لاریب مرزا
محفلین
ادائیں حشر جگائیں، وہ اتنا دلکش ہے
خیال حرف نہ پائیں، وہ اتنا دلکش ہے
بہشتی غنچوں سے گوندھا گیا صراحی بدن
گلاب خوشبو چرائیں، وہ اتنا دلکش ہے
بنا کے خوش ہوا اتنا کہ آپ لیتا ہے
خدا خود اپنی بلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
قدم ارم میں دھرے، خوش قدم تو حور و غلام
چراغ گھی کے جلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
دہکتا جسم ہے آتش پرستی کی دعوت
بدن سے شمع جلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
کڑکتی بجلیاں جب جسم بن کے رقص کریں
تو مور سر کو ہلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
حسین پریاں چلیں ساتھ کر کے "سترہ" سنگھار
اسے نظر سے بچائیں، وہ اتنا دلکش ہے
وہ پنکھڑی پہ اگر چلتے چلتے تھک جائے
تو پریاں پیر دبائیں، وہ اتنا دلکش ہے
اداس غنچوں نے جاں کی امان پا کے کہا
یہ لب سے تتلی اڑائیں، وہ اتنا دلکش ہے
کمر کو کس کے دوپٹے سے جب چڑھائے پینگ
دلوں میں زلزلے آئیں، وہ اتنا دلکش ہے
وہ آبشار میں بندِ قبا کو کھولے اگر
تو جھرنے پیاس بجھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
نہا کے جھیل سے نکلے تو رند پانی میں
مہک شراب سی پائیں، وہ اتنا دلکش ہے
کنواری دیویاں شمعیں جلا کے ہاتھوں پر
حیا کا رقص دکھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
جنہوں نے سایہ بھی دیکھا وہ حور کا گھونگھٹ
محال ہے کہ اٹھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
چمن کو جائے تو دس لاکھ نرگسی غنچے
زمیں پہ پلکیں بچھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
جو دیکھ لیں اسے تو مصر بھر کے شاہی غلام
چھری پہ ہاتھ چلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
خطیب دیکھیں گزرتا تو تھک کے لوگ کہیں
حضور خطبہ سنائیں، وہ اتنا دلکش ہے
حلال ہوتی ہے "پہلی نظر" تو حشر تلک
حرام ہو جو ہٹائیں، وہ اتنا دلکش ہے
شریر مچھلیاں کافر کی نقل میں دن بھر
مچل مچل کے نہائیں، وہ اتنا دلکش ہے
غزال نقشِ قدم چوم چوم کر پوچھیں
کہاں سے سیکھی ادائیں، وہ اتنا دلکش ہے
حسین تتلیاں پھولوں کو طعنے دینے لگیں
کہا تھا ایسی قبائیں، وہ اتنا دلکش ہے
اگر لفافے پہ لکھ دیں، "ملے یہ ملکہ کو"
تو خط اسی کو تھمائیں، وہ اتنا دلکش ہے
عقیق، لولو و مرجان، ہیرے، لعلِ یمن
اسی میں سب نظر آئیں، وہ اتنا دلکش ہے
گلاب، چمپا کلی، یاسمین، گیندا، کنول
اسے ادا سے لبھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
ستارے توڑ کے لانے کی کیا ضرورت ہے
ستارے دوڑ کے آئیں، وہ اتنا دلکش ہے
جفا پہ اس کی فدا کر دوں سوچے سمجھے بغیر
ہزاروں، لاکھوں وفائیں، وہ اتنا دلکش ہے
چمن میں اس نے جہاں دونوں بازو کھولے تھے
وہاں کلیسا بنائیں، وہ اتنا دلکش ہے
ہم اس کے چہرے سے نظریں ہٹا نہیں سکتے
گلے سے کیسے لگائیں، وہ اتنا دلکش ہے
نجومی دیر تلک بے بسی سے دیکھیں ہاتھ
پھر اس کو ہاتھ دکھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
بدل کے ننھے فرشتے کا بھیس جن بولا
مجھے بھی گود اٹھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
ہمیں تو اس کی جھلک مست مور کرتی ہے
شراب اسی کو پلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
بہانے جھاڑو کے پلکوں سے چار سو پریاں
قدم کی خاک چرائیں، وہ اتنا دلکش ہے
وہ چومے خشک لبوں سے جو شبنمِ گل کو
تو پھول پیاس بجھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے بھیگے لب اس کے
ہوا میں شہد ملائیں، وہ اتنا دلکش ہے
مکین چاند کے بیعت کو جب بلاتے ہیں
دھنک کی پالکی لائیں، وہ اتنا دلکش ہے
وہ جتنا جسم تھا، اتنا غزل میں ڈھال لیا
طلسم کیسے دکھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
غلام بھیجتا، سر آنکھوں پر بٹھا لیتے
اسے کہاں پہ بٹھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
سفید جسم جو لرزے ذرا سا بارش میں
تو ابر کانپ سے جائیں وہ اتنا دلکش ہے
تمام آئینے حیرت میں غرق سوچتے ہیں
اسے یہ کیسے بتائیں، وہ اتنا دلکش ہے
زبان وصف سے عاجز، حروف مفلس تر
قلم گھسیٹ نہ پائیں، وہ اتنا دلکش ہے
طلسمِ حسن ہے موجود لفظوں سے افضل
لغت جدید بنائیں، وہ اتنا دلکش ہے
صنم کی تجھ کو قسم قیس روک دے یہ غزل
رفیق مر ہی نہ جائیں، وہ اتنا دلکش ہے....
(شہزاد قیس)
خیال حرف نہ پائیں، وہ اتنا دلکش ہے
بہشتی غنچوں سے گوندھا گیا صراحی بدن
گلاب خوشبو چرائیں، وہ اتنا دلکش ہے
بنا کے خوش ہوا اتنا کہ آپ لیتا ہے
خدا خود اپنی بلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
قدم ارم میں دھرے، خوش قدم تو حور و غلام
چراغ گھی کے جلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
دہکتا جسم ہے آتش پرستی کی دعوت
بدن سے شمع جلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
کڑکتی بجلیاں جب جسم بن کے رقص کریں
تو مور سر کو ہلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
حسین پریاں چلیں ساتھ کر کے "سترہ" سنگھار
اسے نظر سے بچائیں، وہ اتنا دلکش ہے
وہ پنکھڑی پہ اگر چلتے چلتے تھک جائے
تو پریاں پیر دبائیں، وہ اتنا دلکش ہے
اداس غنچوں نے جاں کی امان پا کے کہا
یہ لب سے تتلی اڑائیں، وہ اتنا دلکش ہے
کمر کو کس کے دوپٹے سے جب چڑھائے پینگ
دلوں میں زلزلے آئیں، وہ اتنا دلکش ہے
وہ آبشار میں بندِ قبا کو کھولے اگر
تو جھرنے پیاس بجھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
نہا کے جھیل سے نکلے تو رند پانی میں
مہک شراب سی پائیں، وہ اتنا دلکش ہے
کنواری دیویاں شمعیں جلا کے ہاتھوں پر
حیا کا رقص دکھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
جنہوں نے سایہ بھی دیکھا وہ حور کا گھونگھٹ
محال ہے کہ اٹھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
چمن کو جائے تو دس لاکھ نرگسی غنچے
زمیں پہ پلکیں بچھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
جو دیکھ لیں اسے تو مصر بھر کے شاہی غلام
چھری پہ ہاتھ چلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
خطیب دیکھیں گزرتا تو تھک کے لوگ کہیں
حضور خطبہ سنائیں، وہ اتنا دلکش ہے
حلال ہوتی ہے "پہلی نظر" تو حشر تلک
حرام ہو جو ہٹائیں، وہ اتنا دلکش ہے
شریر مچھلیاں کافر کی نقل میں دن بھر
مچل مچل کے نہائیں، وہ اتنا دلکش ہے
غزال نقشِ قدم چوم چوم کر پوچھیں
کہاں سے سیکھی ادائیں، وہ اتنا دلکش ہے
حسین تتلیاں پھولوں کو طعنے دینے لگیں
کہا تھا ایسی قبائیں، وہ اتنا دلکش ہے
اگر لفافے پہ لکھ دیں، "ملے یہ ملکہ کو"
تو خط اسی کو تھمائیں، وہ اتنا دلکش ہے
عقیق، لولو و مرجان، ہیرے، لعلِ یمن
اسی میں سب نظر آئیں، وہ اتنا دلکش ہے
گلاب، چمپا کلی، یاسمین، گیندا، کنول
اسے ادا سے لبھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
ستارے توڑ کے لانے کی کیا ضرورت ہے
ستارے دوڑ کے آئیں، وہ اتنا دلکش ہے
جفا پہ اس کی فدا کر دوں سوچے سمجھے بغیر
ہزاروں، لاکھوں وفائیں، وہ اتنا دلکش ہے
چمن میں اس نے جہاں دونوں بازو کھولے تھے
وہاں کلیسا بنائیں، وہ اتنا دلکش ہے
ہم اس کے چہرے سے نظریں ہٹا نہیں سکتے
گلے سے کیسے لگائیں، وہ اتنا دلکش ہے
نجومی دیر تلک بے بسی سے دیکھیں ہاتھ
پھر اس کو ہاتھ دکھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
بدل کے ننھے فرشتے کا بھیس جن بولا
مجھے بھی گود اٹھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
ہمیں تو اس کی جھلک مست مور کرتی ہے
شراب اسی کو پلائیں، وہ اتنا دلکش ہے
بہانے جھاڑو کے پلکوں سے چار سو پریاں
قدم کی خاک چرائیں، وہ اتنا دلکش ہے
وہ چومے خشک لبوں سے جو شبنمِ گل کو
تو پھول پیاس بجھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے بھیگے لب اس کے
ہوا میں شہد ملائیں، وہ اتنا دلکش ہے
مکین چاند کے بیعت کو جب بلاتے ہیں
دھنک کی پالکی لائیں، وہ اتنا دلکش ہے
وہ جتنا جسم تھا، اتنا غزل میں ڈھال لیا
طلسم کیسے دکھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
غلام بھیجتا، سر آنکھوں پر بٹھا لیتے
اسے کہاں پہ بٹھائیں، وہ اتنا دلکش ہے
سفید جسم جو لرزے ذرا سا بارش میں
تو ابر کانپ سے جائیں وہ اتنا دلکش ہے
تمام آئینے حیرت میں غرق سوچتے ہیں
اسے یہ کیسے بتائیں، وہ اتنا دلکش ہے
زبان وصف سے عاجز، حروف مفلس تر
قلم گھسیٹ نہ پائیں، وہ اتنا دلکش ہے
طلسمِ حسن ہے موجود لفظوں سے افضل
لغت جدید بنائیں، وہ اتنا دلکش ہے
صنم کی تجھ کو قسم قیس روک دے یہ غزل
رفیق مر ہی نہ جائیں، وہ اتنا دلکش ہے....
(شہزاد قیس)