وہ اعلٰی ظرف، نگوں ہو کے بھی، جھکا نہ لگے ۔۔ غزل اصلاح کے لئے

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*******............********............********
رسیلے لہجے سے کچھ بھی کہے، برا نہ لگے
وہ اعلٰی ظرف، نگوں ہو کے بھی، جھکا نہ لگے

مری ہتھیلی پہ، رخسار کی تپش ہے ابھی
وہ لمحہ قرب کا، گزرا ہوا ذرا نہ لگے

ملا تھا بوسہ محبّت کا کل جو، ہاتھوں پر
نمی ہے تازہ، نشاں بھی مٹا ہوا نہ لگے

ضمیر لفظ، جو معنی، سخن کو دے نہ سکا
وہی ، وہ نظروں سے کہہ دے، تو بے مزا نہ لگے

شفق سے ہونٹ ذرا کھول دے، وہ رشکِ قمر
تو پھر خزاؤں کا موسم، رکا تھما ، نہ لگے

بے اعتنائی، طبیعت میں اُس کی شامل ہے
وہ میرا ہے تو مگر، مجھ میں مبتلا نہ لگے

نئی کتاب بھی ،کمرے کی شیلف میں ہے مگر
مجھے، بغیر ترے، جی کو کچھ بھلا نہ لگے

حدیں یہاں پہ نئی ، ضبط کی تلاش کریں
ستم کی بستی میں شاید، حدِ خدا نہ لگے

طلب کی دھوپ میں، پگھلے ہیں خواہشیں میری
زِیاں بھی ایسا کہ جس میں دوا، دعا نہ لگے

بڑے سکون سے ہوں، یعنی اپنے گھر میں ہوں
یہ اور بات کہ، اب گھر بھی آشنا نہ لگے

دعا کرو کہ، ہو ساتھی ،جسے کہوں کاشف
رچا بسا ہے مرے حال میں ،جدا نہ لگے

سیّد کاشف
*******............********............********
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بشیر بدر کی غزل میں ذرا رد و بدل کر کے خوب غزل کہی ہے۔ ان کا شعر مشہور ہے
یہ زعفرانی پلاوور اسی کا حصہ ہے
جو کوئی دوسرا پہنے تو دوسرا ہی لگے

بہر حال، کوئی بہت اہم غلطی تو محسوس نہیں ہو رہی۔
وہ اعلٰی ظرف، نگوں ہو کے بھی، جھکا نہ لگے
یہاں جھکا ہوا مراد ہے۔ محض ’جھکا‘ سے بات واضح ہوتی نہیں لگتی۔

مجھے، بغیر ترے، جی کو کچھ بھلا نہ لگے
کیا یوں رواں نہیں ہوتا؟
ترے بغیر مرے جی کو کچھ ۔۔۔۔۔

طلب کی دھوپ میں، پگھلے ہیں خواہشیں میری
زِیاں بھی ایسا کہ جس میں دوا، دعا نہ لگے
خواہشیں مؤنث ہیں، اگر پگھلے سے مراد ’پگھلتی ہیں‘ تو الفا بدل کر وہی لکھو۔
دوا، دعا درمیان میں کوما ہونے کے باوجود یہی زیادہ لگتا ہے کہ دوا دعا کی رح نہیں لگتی۔ یوں نہیں جو کہنا چاہ رہے ہو کہ نہ دعا لگے نہ دوا!!

دعا کرو کہ، ہو ساتھی ،جسے کہوں کاشف
رچا بسا ہے مرے حال میں ،جدا نہ لگے
واضح نہیں، شاید یوں کہنا چاہ رہے ہو کہ ایسا کوئی ملے جسے ساتھی کہہ سکوں
دوسرا مصرع عجیب سا ہے اور روانی کا طالب
 

الف عین

لائبریرین
نشیر بدر کی مین میں ذرا رد و بدل کر کے خوب غزل کہی ہے۔ ان کا شعر مشہور ہے
یہ زعفرانی پلاوور اسی کا حصہ ہے
جو کوئی دوسرا پہنے تو دوسرا ہی لگے

بہر حال، کوئی بہت اہم غلطی تو محسوس نہیں ہو رہی۔
وہ اعلٰی ظرف، نگوں ہو کے بھی، جھکا نہ لگے
یہاں جھکا ہوا مراد ہے۔ محض ’جھکا‘ سے بات واضح ہوتی نہیں لگتی۔

مجھے، بغیر ترے، جی کو کچھ بھلا نہ لگے
کیا یوں رواں نہیں ہوتا؟
ترے بغیر مرے جی کو کچھ ۔۔۔۔۔

طلب کی دھوپ میں، پگھلے ہیں خواہشیں میری
زِیاں بھی ایسا کہ جس میں دوا، دعا نہ لگے
خواہشیں مؤنث ہیں، اگر پگھلے سے مراد ’پگھلتی ہیں‘ تو الفا بدل کر وہی لکھو۔
دوا، دعا درمیان میں کوما ہونے کے باوجود یہی زیادہ لگتا ہے کہ دوا دعا کی رح نہیں لگتی۔ یوں نہیں جو کہنا چاہ رہے ہو کہ نہ دعا لگے نہ دوا!!

دعا کرو کہ، ہو ساتھی ،جسے کہوں کاشف
رچا بسا ہے مرے حال میں ،جدا نہ لگے
واضح نہیں، شاید یوں کہنا چاہ رہے ہو کہ ایسا کوئی ملے جسے ساتھی کہہ سکوں
دوسرا مصرع عجیب سا ہے اور روانی کا طالب
 
استاد محترم
بشیر بدر صاحب کی غزل حال فی الحال میں میری نظر سے نہیں گزری، اور پھر مجھے یاد بھی نہیں۔:)
اصلاحات کے بعد ان شا اللہ دوبارہ حاضر ہوتا ہوں۔
جزاک اللہ۔:)
 
Top