فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
امريکی حکومت کا يہ کام نہيں ہے کہ دنيا بھر ميں ذاتی تشہير يا سياسی مقاصد کے ليے مذہب اور سياست کے لبادے ميں ہماری پاليسيوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو بند کرنے کی سعی کرے۔ ميں نے حراست سے نکلنے کے بعد رپورٹ کيے جانے والے بيان کا حوالہ اس تناظر ميں ديا تھا کہ وہ شروع دن سے عراق ميں صدام حکومت کے خلاف امريکی کاروائ کی وجہ سے امريکہ مخالف جذبات رکھتا تھا۔ اسی ليے يہ تاثر اور سوچ بالکل غير منطقی ہے کہ اب وہ ہمارے مفادات کے ليے کام کرنے پر راضح ہو گا جبکہ ہم اس کی دہشت گرد تنظيم کو بے اثر کرنے اور اس کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کے ليے ايک عالمی جدوجہد کا اہم حصہ ہيں۔
تاہم البغدادی سے قطع نظر مجموعی طور پر امريکی حکومت عراق سے اپنی افواج کے انخلاء کے بعد کسی دہشت گرد تنظيم کے اس طرح منظر عام پر نمودار ہونے کے حوالے سے نا صرف يہ کہ ادراک رکھتی تھی بلکہ بارہا اس کا اظہار بھی کيا گيا تھا۔ اور اس کی وجہ يہ خدشہ تھا کہ عراق ميں ايک نيا سياسی نظام اپنے ارتقائ مراحل ميں تھا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے فعال اور مستحکم نہيں تھے کہ آئ ايس جيسی دہشت گرد تنظيم سے نبرد آزما ہو سکيں۔
ميں چاہوں گا کہ سال 2011 ميں امريکی اور حکومت کے درميان جاری ايک اہم تنازعے کے ضمن ميں عالمی شہہ سرخيوں پر ايک سرسری نگاہ ڈاليں جب عراق ميں امريکی افواج کی موجودگی کے ٹائم فريم ميں ردوبدل اور اس ضمن ميں قواعد وضوابط کی بنياد پر دونوں حکومتوں ميں ٹھن گئ تھی۔ امريکی افواج کو ايک مخصوص مدت کے ليے عراق ميں روکنے کے پيچھے يہی منطق تھی کہ خطے ميں دہشت گردوں کو قدم جمانے کا موقع نا مل سکے۔
يہ سفارتی تعطل اس وقت ختم ہوا جب عراقی وزير اعظم نوری المالکی نے امريکی گزارشات کو يہ کہہ کر يکسر مسترد کر ديا تھا کہ عراق ميں امريکی افواج کی موجودگی کی صورت ميں انھيں مقامی عدالتوں ميں مقدمات کی صورت ميں کسی قسم کا قانونی تحفظ فراہم نہيں کيا جائے گا۔ عراقی وزيراعظم کے فيصلے سے يہ واضح ہو گيا کہ يہ عراق کی حکومت تھی جس نے امريکی شرائط پر افواج کے عراق ميں قيام پر رضامندی سے صاف انکار کر ديا تھا۔
http://www.nbcnews.com/id/44998833/...ty-issue-scuttled-us-troop-deal/#.U7QY9rHyQ-w
ميں يہ بھی واضح کرنا چاہوں گا کہ سال 2011 ميں جاری تشدد کے واقعات ہی وہ محرک تھا جس کے سبب امريکی حکومت مزيد کچھ عرصے کے ليے فوج کا کچھ حصہ عراق ميں رکھنے پر زور دے رہی تھی۔ دونوں حکومتوں کے درميان کئ ماہ تک اس حوالے سے بحث جاری رہی کہ آيا امريکی افواج کو مزيد کچھ دير کے ليے عراق ميں رکنا چاہيے کہ نہيں – باوجود اس کے کہ سياسی لحاظ سے دونوں حکومتوں کے ليے يہ بڑا حساس معاملہ تھا۔
حتمی تجزيے ميں آئ ايس آئ ايس جيسی دہشت گرد تنظيم کا عراق ميں منظر عام پر آنا اور تشدد کے واقعات ميں حاليہ اضافے کے ليے امريکی حکومت کو مورد الزام قرار نہيں ديا جا سکتا ہے کيونکہ عراقی کی منتخب جمہوری حکومت کی جانب سے امريکی افواج کو مزید قيام کی اجازت نہيں دی گئ تھی۔
امريکی افواج کے عراق سے انخلاء کے بعد وہاں کی فعال اور خودمختار حکومت رياست کے تحفظ اور سيکورٹی کے ليے ذمہ دار ہے۔
تاہم امريکی حکومت اور صدر اوبامہ نے بذات خود بارہا اس بات پر زور ديا ہے کہ ہم بدستور عراق کے ساتھ طويل المدتی بنيادوں پر سفارتی تعلقات برقرار رکھيں گے۔ اب يہ عراق کی قيادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ صورت حال کی نزاکت کے مطابق فوری طور پر آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کريں۔ ہم ان سے درخواست کرتے ہيں کہ وہ آئين کے مطابق جلدازجلد ايک ايسی نئ حکومت کے تشکيل کے ليے ٹھوس اقدامات اٹھائيں جس ميں سب کی نمايندگی شامل ہو۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu