فرخ منظور
لائبریرین
وہ اہلِ درد جو غم کو شعار کرتے ہیں
اُنھی کا اہلِ جہاں اعتبار کرتے ہیں
یہ ایک جان تھی ، دوبھر ہوئی رقیبوں کو
لو آج اِس کو بھی ہم نذرِ یار کرتے ہیں
کسے خبر ہے کہ ہوش و خرد پہ کیا گزرے
وہ اپنی زلف کو پھر تاب دار کرتے ہیں
اگر نہیں گل و لالہ ، سرشک خون تو ہیں
اِنھی سے دشت کو باغ و بہار کرتے ہیں
یہ دور وہ ہے کہ جس کی زباں پہ ہو دشنام
اُسی کو دوش پہ اپنے سوار کرتے ہیں
مقامِ صبر سے وہ بے نوا فقیروں کو
سنا ہے اپنے لیے اختیار کرتے ہیں
یہ خواجگی ہے تو اک دن غریب کی آہیں
وہی کریں گی جو خس میں شرار کرتے ہیں
اُدھر بھی کھینچ بلاتا ہے حسن کا جلوہ
ہم اپنا رخ جو کبھی سوے دار کرتے ہیں
کوئی ہو مانگنے والا کہ چرخِ زیریں پر
وہ روز آ کے یہی انتظار کرتے ہیں
جنھیں خود اپنا زیاں بھی نظر نہیں آتا
اُنھیں اب اہلِ نظر میں شمار کرتے ہیں
نہیں جو خوب اُسے خوب کس طرح کہہ دیں
یہی خطا ہے جو ہم بار بار کرتے ہیں
مرے عزیز ، یہ دنیا بدل نہیں سکتی
اِسی کو اپنے لیے سازگار کرتے ہیں
(جاويد احمد غامدی)
اُنھی کا اہلِ جہاں اعتبار کرتے ہیں
یہ ایک جان تھی ، دوبھر ہوئی رقیبوں کو
لو آج اِس کو بھی ہم نذرِ یار کرتے ہیں
کسے خبر ہے کہ ہوش و خرد پہ کیا گزرے
وہ اپنی زلف کو پھر تاب دار کرتے ہیں
اگر نہیں گل و لالہ ، سرشک خون تو ہیں
اِنھی سے دشت کو باغ و بہار کرتے ہیں
یہ دور وہ ہے کہ جس کی زباں پہ ہو دشنام
اُسی کو دوش پہ اپنے سوار کرتے ہیں
مقامِ صبر سے وہ بے نوا فقیروں کو
سنا ہے اپنے لیے اختیار کرتے ہیں
یہ خواجگی ہے تو اک دن غریب کی آہیں
وہی کریں گی جو خس میں شرار کرتے ہیں
اُدھر بھی کھینچ بلاتا ہے حسن کا جلوہ
ہم اپنا رخ جو کبھی سوے دار کرتے ہیں
کوئی ہو مانگنے والا کہ چرخِ زیریں پر
وہ روز آ کے یہی انتظار کرتے ہیں
جنھیں خود اپنا زیاں بھی نظر نہیں آتا
اُنھیں اب اہلِ نظر میں شمار کرتے ہیں
نہیں جو خوب اُسے خوب کس طرح کہہ دیں
یہی خطا ہے جو ہم بار بار کرتے ہیں
مرے عزیز ، یہ دنیا بدل نہیں سکتی
اِسی کو اپنے لیے سازگار کرتے ہیں
(جاويد احمد غامدی)