ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احبابِ کرام ! آپ کو مژدہو کہ بس اب ہمارے پلندے میں کچھ ہی غزلیں باقی رہ گئی ہیں ۔ جیسے ہی موقع ملتا جائے گا یہاں لگاتا رہوں گا ۔ ایک پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔
وہ ایک شخص کہ سب جاچکے تو یاد آیا
کسی کو آئے نہ آئے مجھے تو یاد آیا
مقابلے پر اندھیرا نہیں ہوا بھی ہے
کئی چراغ یکایک بجھے تو یا د آیا
ہمارے ساتھ بھی موسم نے داؤ کھیلا تھا
خزاں کے ہاتھ سے پتے گرے تو یاد آیا
گئی رتوں کے پرندے ابھی نہیں لوٹے
شجر پہ تازہ شگوفے کھلے تو یاد آیا
کسی کی ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کا قرض مجھے
گلاب شاخ سے کانٹے چبھے تو یاد آیا
بہت زمانے سے کاغذ پہ دل نہیں رکھا
پرانے بیگ سے کچھ خط ملے تو یاد آیا
وہ ایک رسم تھی بڑھ کر گلے لگانے کی
تمام ہوچکے شکوے گلے تو یاد آیا
قدم قدم پہ وہ گزرا ہوا زمانہ ظہیر
کسی کو آئے نہ آئے مجھے تو یاد آیا
ظہیر احمد ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۴
کسی کو آئے نہ آئے مجھے تو یاد آیا
مقابلے پر اندھیرا نہیں ہوا بھی ہے
کئی چراغ یکایک بجھے تو یا د آیا
ہمارے ساتھ بھی موسم نے داؤ کھیلا تھا
خزاں کے ہاتھ سے پتے گرے تو یاد آیا
گئی رتوں کے پرندے ابھی نہیں لوٹے
شجر پہ تازہ شگوفے کھلے تو یاد آیا
کسی کی ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کا قرض مجھے
گلاب شاخ سے کانٹے چبھے تو یاد آیا
بہت زمانے سے کاغذ پہ دل نہیں رکھا
پرانے بیگ سے کچھ خط ملے تو یاد آیا
وہ ایک رسم تھی بڑھ کر گلے لگانے کی
تمام ہوچکے شکوے گلے تو یاد آیا
قدم قدم پہ وہ گزرا ہوا زمانہ ظہیر
کسی کو آئے نہ آئے مجھے تو یاد آیا
ظہیر احمد ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۴