فرخ صاحب حسبِ وعدہ۔
غزل کے کل اشعار تو سات ہی ہیں لیکن ایک شعر جو سرخ کر رہا ہوں وہ میرے پاس کتاب (غزلوں کی ایک انتخاب کی کتاب) میں اور طرح سے بہرحال دونوں لکھ رہا ہوں (ہو سکتا ہے یہ دونوں شعر ہی اسی غزل کے ہوں) اور ترتیب بھی لگا دیتا ہوں۔
وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
بس ایک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے
بس ایک زخمِ نظارہ، حصہ مرا
بہاریں تری، آشیانے ترے
فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے
فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری، بادہ خانے ترے
ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے، سب زمانے ترے
عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے
۔