فراز وہ تو پتھر پہ بھی گزرے نہ خدا ہونے تک

محمد بلال اعظم

لائبریرین
وہ تو پتھر پہ بھی گزرے نہ خدا ہونے تک
جو سفر میں نے نہ ہونے سے کیا ، ہونے تک

زندگی! اس سے زیادہ تو نہیں عمر تری
بس کسی دوست کے ملنے سے جدا ہونے تک

ایک اِک سانس مری رہن تھی دِلدار کے پاس
نقدِ جاں بھی نہ رہا قرض ادا ہونے تک

مانگنا اپنے خدا سے بھی ہے دریوزہ گری
ہاتھ شل کیوں نہ ہوئے دستِ دُعا ہونے تک

اب کوئی فیصلہ ہو بھی تو مجھے کیا لینا
میں تو کب سے ہوں سرِ دار ، سزا ہونے تک

داورا ! تیری مشیت بھی تو شامل ہو گی
ایک اچھے بھلے انساں کے برا ہونے تک

دستِ قتل سے ہوں نادم کہ لہو کو میرے
عمر لگ جائے گی ہمرنگِ حنا ہونے تک

دشت سے قلزمِ خوں تک کی مسافت ہے فرازؔ
قیس سے غالبِ آشفتہ نوا ہونے تک
 

Smukhtar

محفلین
میں نے یہ غزل یو ٹیوب پر فرازصاحب کی آواز میں سنی تھی، چند دن پہلے مگر اب ڈھونڈ نہیں پا رہا ہوں. اس غزل کو یو ٹیوب پر فرازصاحب کی آواز میں ڈھونڈھنے میں دوستوں کی مدد درکار ہے.جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ کوئی غیر ملکی مشاعرہ تھا جس میں انہوں نے یہ غزل سنائی تھی
 

محمداحمد

لائبریرین
میں نے یہ غزل یو ٹیوب پر فرازصاحب کی آواز میں سنی تھی، چند دن پہلے مگر اب ڈھونڈ نہیں پا رہا ہوں. اس غزل کو یو ٹیوب پر فرازصاحب کی آواز میں ڈھونڈھنے میں دوستوں کی مدد درکار ہے.جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ کوئی غیر ملکی مشاعرہ تھا جس میں انہوں نے یہ غزل سنائی تھی
 
Top