ھارون اعظم
محفلین
السلام علیکم،
آج کل مختلف اردو فورمز پر مختلف اختلافی مسائل پر ہونے والی بحث دیکھ کر کچھ پرانے واقعات ذہن میں تازہ ہوگئے۔ یہ 1999ء کی بات ہے، اس وقت میں دسویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ اسکول کے بعد ترجمے کے لئے دیوبندی مسلک کے ایک عالم کے پاس جاتا تھا۔ جبکہ صبح کے ٹائم ایک بریلوی عالم دین سے فقہ پڑھنے کے لئے جاتا، جو کہ والد صاحب کے دوست بھی تھے۔
ایک ساتھ میں دو مختلف آراء والے اساتذہ کی تربیت کا کچھ اثر تو ہونا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اکثر مسائل پر میں کنفیوژن کا شکار ہوگیا۔ اپنی اس الجھن کے حل کی خاطر میں اکثر اپنے اساتذہ سے سوالات پوچھتا تھا۔ یہ سلسلہ اتنا آگے بڑھا، کہ دونوں مکاتب فکر کے درمیان مناظرے کی نوبت آگئی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس کا بنیادی سبب میرے سوالات ہی تھے۔
میں اس وقت نتائج سے بے خبر، ان اساتذہ کے درمیان مناظرے کی تیاریوں کو بڑے شوق سے دیکھتا تھا۔ ان کے آپس کی پیغام رسانی کا کام میرے سپرد تھا۔ معاملہ صرف اس بات پر اٹکا ہوا تھا کہ مناظرے کے دوران اگر کچھ بد امنی کی صورتحال پیدا ہوجائے تو اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ دونوں مکاتب فکر میں سے کوئی بھی یہ ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ میں اور میرا ایک دوست اس صورتحال میں ان اساتذہ اور ان کے مکاتب فکر کے لوگوں کے درمیان عملی طور پر پیغام رسان بن چکے تھے، کیا عجیب پیغام ہوتے تھے۔ یہ علماء کرام ایک دوسرے کو سرخ روشنائی سے منافق لکھنے کے پیغامات ہم سے بھجواتے تھے۔ ایک بار میں نے پوچھا، یہ آپ سرخ روشنائی کیوں کہتے ہیں؟ کہنے لگے، جس طرح اسکول میں استاد سرخ روشنائی سے غلط جواب کے گرد دائرہ کھینچ لیتا ہے، اسی طرح میں نے فلاں کے نام کے گرد منافق ہونے کا دائرہ کھینچا ہے، وہ منافق ہے۔
اس دوران والد صاحب کو اس معاملے کی بھنک پڑگئی۔ انہوں نے سختی سے منع کردیا کہ کسی بھی طرح کے مناظرہ بازی میں حصہ مت لینا، اور میرے درس جانے پر بھی وقتی طور پر پابندی لگادی۔ اس دوران دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کے لوگوں کا بھی آپس میں اتفاق نہیں ہوا، مناظرے کے محفل کی سیکیورٹی پر۔ یوں یہ معاملہ یہیں پر ختم ہوگیا۔
لیکن 3،4 سال کے مشاہدے اور اس مجوزہ مناظرہ کی تیاری کے دوران مشاہدات نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ یہ بات صحیح ہے کہ دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کا آپس میں اصولی اختلاف ہے، لیکن معاملات کو جس طرح سے الجھایا جاتا ہے، اس سے عوام دین کی طرف راغب ہونے کی بجائے متنفر ہوجاتے ہیں۔
ابتداء میں مساجد میں درس دینے والے علماء بڑے جوش و خروش سے درس قرآن شروع کرتے ہیں۔ ہمارے لوگوں میں قرآن سیکھنے کا بہت جذبہ ہے۔ وہ ہر سکھانے والے سے سیکھنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ میرا اپنا مشاہدہ ہے۔ اب یہ عالم دین پر منحصر ہے کہ وہ ان کو کس راستے پر لے کر جاتا ہے۔ عام طور پر کچھ نئے مدرس اس مرحلے پر غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لئے ایک غیر اعلانیہ مناظرہ شروع ہوجاتا ہے۔ مخالف فریق پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے ہوتا ہے۔ اگلے روز دوسرے فریق کی جانب سے ان الزامات کا جواب نئے الزامات کی شکل میں آتا ہے۔
رفتہ رفتہ اصل مسئلہ پس منظر میں چلا جاتا ہے اور ایک دوسرے پر کفر اور منافقت کے فتوے لگنے شروع ہوجاتے ہیں۔ اس بیچ عوام کی کیا حالت ہوتی ہے، وہ کبھی ایک فریق کی حمایت کرتے ہیں، کبھی دوسرے کی۔ لڑائی ہوتی ہے تو اصل مدعی غائب ہوجاتے ہیں، اور عام لوگ بیچ میں مارے جاتے ہیں۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو اندازِ تخاطب کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ آپ اگر ایک جائز بات بھی غلط انداز میں کریں گے تو کوئی بھی آپ کی بات نہیں مانے گا۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں، کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اپنے اختلافی مسائل کے حل کی خاطر مل بیٹھ کر بات کرلیں۔ عوام کی ذہنوں کو الجھانے، ان کو کفر اور نفاق کے فتوؤں کے ذریعے اسلام سے متنفر کرنے کی بجائے ان کو پیار اور محبت سے اسلام کی اصل دعوت سے روشناس کرائیں۔ اس طریقے سے کی جانے والی بات کا اثر زیادہ ہوگا۔
لیکن مجھے پتا ہے ایسا کبھی نہیں ہوگا، کیونکہ پھر مفتی صاحب کے فتوؤں کی قدر کم ہوجائے گی، پیر صاحب کا آستانہ لوگوں کی توجہ کا مرکز نہیں رہے گا، اور خطیب صاحب کی پرجوش تقاریر پر سردھننے والے شاید دوبارہ ان کی محفل کا رخ نہ کریں۔ اب کوئی پاگل ہی ہوگا جو اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارے گا۔
لیکن یہ ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں کہ آپس میں اتفاق و اتحاد سے علماء کی قدر کم ہوجائے گی۔ اللٰہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں و عسیٰ ان تکرھو شیئا و ھو خیر لکم۔ اس لئے بظاہر اس اتحاد میں نقصان نظر آتا ہے لیکن اگر ہم صدق دل سے ارادہ کرلیں تو اللٰہ ہماری مدد کرے گا۔ اس کام کے لئے کسی بڑے تحریک کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم اس فورم پر بھی اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرسکتے ہیں کہ اختلافی مسائل پر بات کریں گے لیکن ایک دوسرے پر الزامات اور ذاتیات کے حملے نہیں کریں گے۔ یقین کریں، بڑی تبدیلی آئے گی۔ انشاءاللٰہ
آج کل مختلف اردو فورمز پر مختلف اختلافی مسائل پر ہونے والی بحث دیکھ کر کچھ پرانے واقعات ذہن میں تازہ ہوگئے۔ یہ 1999ء کی بات ہے، اس وقت میں دسویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ اسکول کے بعد ترجمے کے لئے دیوبندی مسلک کے ایک عالم کے پاس جاتا تھا۔ جبکہ صبح کے ٹائم ایک بریلوی عالم دین سے فقہ پڑھنے کے لئے جاتا، جو کہ والد صاحب کے دوست بھی تھے۔
ایک ساتھ میں دو مختلف آراء والے اساتذہ کی تربیت کا کچھ اثر تو ہونا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اکثر مسائل پر میں کنفیوژن کا شکار ہوگیا۔ اپنی اس الجھن کے حل کی خاطر میں اکثر اپنے اساتذہ سے سوالات پوچھتا تھا۔ یہ سلسلہ اتنا آگے بڑھا، کہ دونوں مکاتب فکر کے درمیان مناظرے کی نوبت آگئی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس کا بنیادی سبب میرے سوالات ہی تھے۔
میں اس وقت نتائج سے بے خبر، ان اساتذہ کے درمیان مناظرے کی تیاریوں کو بڑے شوق سے دیکھتا تھا۔ ان کے آپس کی پیغام رسانی کا کام میرے سپرد تھا۔ معاملہ صرف اس بات پر اٹکا ہوا تھا کہ مناظرے کے دوران اگر کچھ بد امنی کی صورتحال پیدا ہوجائے تو اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ دونوں مکاتب فکر میں سے کوئی بھی یہ ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ میں اور میرا ایک دوست اس صورتحال میں ان اساتذہ اور ان کے مکاتب فکر کے لوگوں کے درمیان عملی طور پر پیغام رسان بن چکے تھے، کیا عجیب پیغام ہوتے تھے۔ یہ علماء کرام ایک دوسرے کو سرخ روشنائی سے منافق لکھنے کے پیغامات ہم سے بھجواتے تھے۔ ایک بار میں نے پوچھا، یہ آپ سرخ روشنائی کیوں کہتے ہیں؟ کہنے لگے، جس طرح اسکول میں استاد سرخ روشنائی سے غلط جواب کے گرد دائرہ کھینچ لیتا ہے، اسی طرح میں نے فلاں کے نام کے گرد منافق ہونے کا دائرہ کھینچا ہے، وہ منافق ہے۔
اس دوران والد صاحب کو اس معاملے کی بھنک پڑگئی۔ انہوں نے سختی سے منع کردیا کہ کسی بھی طرح کے مناظرہ بازی میں حصہ مت لینا، اور میرے درس جانے پر بھی وقتی طور پر پابندی لگادی۔ اس دوران دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کے لوگوں کا بھی آپس میں اتفاق نہیں ہوا، مناظرے کے محفل کی سیکیورٹی پر۔ یوں یہ معاملہ یہیں پر ختم ہوگیا۔
لیکن 3،4 سال کے مشاہدے اور اس مجوزہ مناظرہ کی تیاری کے دوران مشاہدات نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ یہ بات صحیح ہے کہ دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کا آپس میں اصولی اختلاف ہے، لیکن معاملات کو جس طرح سے الجھایا جاتا ہے، اس سے عوام دین کی طرف راغب ہونے کی بجائے متنفر ہوجاتے ہیں۔
ابتداء میں مساجد میں درس دینے والے علماء بڑے جوش و خروش سے درس قرآن شروع کرتے ہیں۔ ہمارے لوگوں میں قرآن سیکھنے کا بہت جذبہ ہے۔ وہ ہر سکھانے والے سے سیکھنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ میرا اپنا مشاہدہ ہے۔ اب یہ عالم دین پر منحصر ہے کہ وہ ان کو کس راستے پر لے کر جاتا ہے۔ عام طور پر کچھ نئے مدرس اس مرحلے پر غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لئے ایک غیر اعلانیہ مناظرہ شروع ہوجاتا ہے۔ مخالف فریق پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے ہوتا ہے۔ اگلے روز دوسرے فریق کی جانب سے ان الزامات کا جواب نئے الزامات کی شکل میں آتا ہے۔
رفتہ رفتہ اصل مسئلہ پس منظر میں چلا جاتا ہے اور ایک دوسرے پر کفر اور منافقت کے فتوے لگنے شروع ہوجاتے ہیں۔ اس بیچ عوام کی کیا حالت ہوتی ہے، وہ کبھی ایک فریق کی حمایت کرتے ہیں، کبھی دوسرے کی۔ لڑائی ہوتی ہے تو اصل مدعی غائب ہوجاتے ہیں، اور عام لوگ بیچ میں مارے جاتے ہیں۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو اندازِ تخاطب کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ آپ اگر ایک جائز بات بھی غلط انداز میں کریں گے تو کوئی بھی آپ کی بات نہیں مانے گا۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں، کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اپنے اختلافی مسائل کے حل کی خاطر مل بیٹھ کر بات کرلیں۔ عوام کی ذہنوں کو الجھانے، ان کو کفر اور نفاق کے فتوؤں کے ذریعے اسلام سے متنفر کرنے کی بجائے ان کو پیار اور محبت سے اسلام کی اصل دعوت سے روشناس کرائیں۔ اس طریقے سے کی جانے والی بات کا اثر زیادہ ہوگا۔
لیکن مجھے پتا ہے ایسا کبھی نہیں ہوگا، کیونکہ پھر مفتی صاحب کے فتوؤں کی قدر کم ہوجائے گی، پیر صاحب کا آستانہ لوگوں کی توجہ کا مرکز نہیں رہے گا، اور خطیب صاحب کی پرجوش تقاریر پر سردھننے والے شاید دوبارہ ان کی محفل کا رخ نہ کریں۔ اب کوئی پاگل ہی ہوگا جو اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارے گا۔
لیکن یہ ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں کہ آپس میں اتفاق و اتحاد سے علماء کی قدر کم ہوجائے گی۔ اللٰہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں و عسیٰ ان تکرھو شیئا و ھو خیر لکم۔ اس لئے بظاہر اس اتحاد میں نقصان نظر آتا ہے لیکن اگر ہم صدق دل سے ارادہ کرلیں تو اللٰہ ہماری مدد کرے گا۔ اس کام کے لئے کسی بڑے تحریک کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم اس فورم پر بھی اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرسکتے ہیں کہ اختلافی مسائل پر بات کریں گے لیکن ایک دوسرے پر الزامات اور ذاتیات کے حملے نہیں کریں گے۔ یقین کریں، بڑی تبدیلی آئے گی۔ انشاءاللٰہ