وہ جو رموزِ عشق ہیں' کون سمجھ سکا کہ یوں۔۔۔۔مرتضیٰ برلاس

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
وہ جو رموزِ عشق ہیں کون سمجھ سکا کہ یوں​
ناخنِ عقل سے کبھی عقدہ نہیں کھلا کہ یوں​
مانا کہ مصلحت تھی کچھ تم نے اگر کہا کہ یوں​
وقت کرے گا فیصلہ یوں تھا درست یا کہ یوں​
اپنی خطا ہے بس یہی ہم نے منافقت نہ کی​
جو بھی ہمارے دل میں تھا کہہ دیا برملا کہ یوں​
تو نے لوح فکر سے ماضی کھرچ دیا تمام​
میں بھی تجھے بھلا سکوں کوئی عمل بتا کہ یوں​
میں نے کہا کہ بن ترے کیسے کٹے گی زندگی​
جلتے ہوئے چراغ کو اس نے بجھا دیا کہ یوں​
پرسشِ حال دل پہ جب ہم نہ جواب دے سکے​
چہرہ زبان بن گیا سب نے سمجھ لیا کہ یوں​
تم پہ کیا جو اعتماد اپنا یہی قصور تھا​
اس سے زیادہ اور اب تم سے کہیں تو کیا کہ یوں​
شرحِ نشاطِ وصل پہ دونوں کا کھل گیا بھرم​
میں نے اسے کہا کہ یوں اس نے مجھے کہا کہ یوں​
پہلے نہ ہم سمجھ سکے لوگ بنے تھے دوست کیوں​
وقت وہ جب گزر گیا پھر یہ پتا چلا کہ یوں​
جاننا چاہتے تھے ہم' لوگوں کی وجہِ بے حسی​
خود ہی جواب مل گیا دیکھا کہ آئینہ کہ یوں​
زعمِ خدائی تھا جنہیں ان کو کیا تھا غرقِ آب​
آج کے ظالموں کا بھی حشر ہمیں دکھا کہ یوں​
 
Top