وہ دریچے سے جھانکتی وہ لڑکی عجیب دکھ سے بھری ہوئی ہے

فخرنوید

محفلین
وہ دریچے سے جھانکتی وہ لڑکی عجیب دکھ سے بھری ہوئی ہے
کہ اس کے آنگن میں پھول پر ایک نیلی تتلی مری ہوئی ہے

کبھی اذانوں میں کھوئی کھوئی کبھی نمازوں میں روئی روئی
وہ ایسے دنیا کو دیکھتی ہے کہ جیسے اس سے ڈری ہوئی ہے

درود سے مہکی مہکی سانسیں وظیفہ پڑھتی ہوئی وہ آنکھیں
کہ ایک شمع امید ان میں کئی برس سے دھری ہوئی ہے

بڑے زمانوں کے بعد برسی ہیں میری آنکھیں کسی کی خاطر
بڑے زمانوں کے بعد دل کی زمین پھر سے ہری ہوئی ہے۔۔۔

میری دوست رخسانہ نے لکھی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب لکھی ہے۔

ٹائٹل میں ٹائپو ہے "اجیب" کو "عجیب " کر لیجے گا۔ مزید یہ کہ مطلع کا پہلا مصرع خارج از بحر لگ رہا ہے اگر اس پر نظرِ ثانی کر لی جائے تو بہت عمدہ کلام ہے یہ۔
 
Top