کاشفی
محفلین
غزل
(اختر شیرانی)
وہ دُور سے نقاب اُٹھا کر چلے گئے
آنکھوں پہ بجلیاں سی گرا کر چلے گئے
دامن بچا کے، ہنس کے،لجا کر چلے گئے
کیا کیا ، لحد پہ پھول چڑھا کر چلے گئے
سینے میں اِک تپش سی بسا کرچلے گئے
کیسے مزے کی آگ لگا کر چلے گئے
شاداب ہو سکا نہ گلستانِ آرزو
کتنے ہی ابر ، باغ پہ چھا کر چلے گئے
بادِ بہار ، آگ لگا کر چلی گئی
ابرِ بہار ہم کو رُلا کر چلے گئے
آنسو نہ تھم سکے مری چشم امید کے
کتنے ہی موسم آئے اور آ کر چلے گئے
اختر بُرا ہو بے خودیء جذبِ شوق کا
کس کو خبر کب آئے، کب آ کر چلے گئے
(اختر شیرانی)
وہ دُور سے نقاب اُٹھا کر چلے گئے
آنکھوں پہ بجلیاں سی گرا کر چلے گئے
دامن بچا کے، ہنس کے،لجا کر چلے گئے
کیا کیا ، لحد پہ پھول چڑھا کر چلے گئے
سینے میں اِک تپش سی بسا کرچلے گئے
کیسے مزے کی آگ لگا کر چلے گئے
شاداب ہو سکا نہ گلستانِ آرزو
کتنے ہی ابر ، باغ پہ چھا کر چلے گئے
بادِ بہار ، آگ لگا کر چلی گئی
ابرِ بہار ہم کو رُلا کر چلے گئے
آنسو نہ تھم سکے مری چشم امید کے
کتنے ہی موسم آئے اور آ کر چلے گئے
اختر بُرا ہو بے خودیء جذبِ شوق کا
کس کو خبر کب آئے، کب آ کر چلے گئے