فرحت کیانی
لائبریرین
نگل گیا سب کی سب سمندر، زمیں بچی اب کہیں نہیں ہے
بچاتے ہم اپنی جان جس میں، وہ کشتی اب تو کہیں نہیں ہے۔
وہ آگ برسی ہے دو پہر کی کہ سارے منظر جھلس گئے ہیں
صبح سویرے جو تازگی تھی، وہ تازگی اب کہیں نہیں ہے۔
تم اپنے قصبوں میں جا کے دیکھو، وہاں بھی اب شہر ہی بسے ہیں
کہ ڈھونڈتے ہو جو زندگی تم ، وہ زندگی اب کہیں نہیں ہے۔
بہت دنوں بعد پائی فرصت تو میں نے خود کو پلٹ کے دیکھا
مگر میں پہچانتا تھا جس کو، وہ آدمی اب کہیں نہیں ہے۔
گزر گیا وقت دل پہ لکھ کے نجانے کیسی عجیب باتیں!!!
ورق پلٹتا ہوں میں جو دل کے، تو سادگی اب کہیں نہیں ہے۔
بچاتے ہم اپنی جان جس میں، وہ کشتی اب تو کہیں نہیں ہے۔
وہ آگ برسی ہے دو پہر کی کہ سارے منظر جھلس گئے ہیں
صبح سویرے جو تازگی تھی، وہ تازگی اب کہیں نہیں ہے۔
تم اپنے قصبوں میں جا کے دیکھو، وہاں بھی اب شہر ہی بسے ہیں
کہ ڈھونڈتے ہو جو زندگی تم ، وہ زندگی اب کہیں نہیں ہے۔
بہت دنوں بعد پائی فرصت تو میں نے خود کو پلٹ کے دیکھا
مگر میں پہچانتا تھا جس کو، وہ آدمی اب کہیں نہیں ہے۔
گزر گیا وقت دل پہ لکھ کے نجانے کیسی عجیب باتیں!!!
ورق پلٹتا ہوں میں جو دل کے، تو سادگی اب کہیں نہیں ہے۔