نایاب
لائبریرین
خیال بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تجدید و تشبیب کی راہ پر چل نکلی اگر بات ۔نایاب بھائی کبھی ہوجائے تجدید تشبیب بھی۔۔۔ ۔ کیا کہتے ہیں احباب اس بارے میں۔۔۔ ۔
تو پھرپہنچے گی ایوب رومانی کی اس غزل تک
" جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا صحنِ گُل چھوڑ گیا، دل میرا پاگل نکلا"
پھر کیا بتائیں گے کہ
ہم جوکہ ٹھہرے چاند کے تمنائی ۔۔۔۔ نادان و نا سمجھ ۔۔۔۔ یہ جان ہی نہ پائے کہ چاند میں داغ ہے ۔
چاند کی قربت چاندنی سے محروم کر دیتی ہے ۔ اور چاند کا سب سحر اس کی چاندنی میں ہی ہے ۔ جو کہ دور رہ کر نصیب ہو سکتی ہے ۔
سو " وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا " اس کا قصہ سناؤں تو میرے لفظوں سے معطون ٹھہرے گی وہ ۔۔۔۔۔۔
جس کے عشق میں مسحور رہتے اپنی مرضی سے برباد کیا خود کو ۔
سو میرے لفظوں سے وہ بدنام و معطون ہو مجھے یہ برداشت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تو سدا دعاگوہ کہ وہ جہاں بھی آباد ہے سدا آباد رہے ۔ اسے کبھی کوئی غم نہ آئے ۔۔۔۔آمین
عشق مجازی میں لگی ٹھوکر در حقیقی تک پہنچنے کا سبب بنی ۔
اس سے بچھڑ کر میں نے جانا کہ اب زندگی بے رنگ و بے مزہ ہے ۔
دکھی و افسردہ دل اپنے آپ میں گلہ و شکوہ کناں رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر یکدم رت بدلی اور رب حقیقی نے مجھے "صبر و رضا " کا پیکر " رضوانہ " کی سنگت نصیب کر دی ۔
جس نے مجھے میرے تمام عیوب سمیت دل و جاں سے کچھ ایسے قبول کیا ۔
کہ میں جو کہ "زبان خلق " میں ناقابل اصلاح مشہور و معروف تھا ۔
جانے کب اور کیسے اس کی چاہت و محبت سے بدلتا چلا گیا ۔
کبھی کبھی اس سے کہتا ہوں کہ تمہارا شکریہ تم نے مجھے بدل دیا ۔
تو وہ کہتی ہے کہ اس کا شکریہ جس نے آپ کو ٹھکرا دیا ۔ مجھے آپ تک پہنچا دیا ۔۔۔۔۔۔۔