طاہر اقبال
محفلین
پيارے دوستو، احمد فراز صاحب کي يہ نظم مجھے بہت پسند ہے۔ مجھے اميد ہے کہ آپ کو بھي يہ نظم بہت پسند آئے گي۔ نظم ملاحظہ ہو:
وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے۔
تمہاري پوروں کا لمس اب تک
مري کفِ دست پر ہے
اور ميں سوچتا ہوں
وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے
وہ کہہ گئے تھے
کہ اب کے جو ہاتھ تيرے ہاتھوں کو چھو گئے ہيں
تمام ہونٹوں کے سارے لفظوں سے معتبر ہيں
وہ کہہ گئے تھے
تمہاري پوريں
جو ميرے ہاتھوں کو چھو رہي تھيں
وہي تو قسمت تراش ہيں
اور اپني قسمت کو
سارے لوگوں کي قسمتوں سے بلند جانو
ہماري مانو
تو اب کسي اور ہاتھ کو ہاتھ مت لگانا
ميں اُس سمے سے
تمام ہاتھوں
وہ ہاتھ بھي
جن ميں پھول شاخوں سے بڑھ کر لطف نمو اٹھائيں
وہ ہاتھ بھي جو صدا کے محروم تھے
اور ان کي ہتھيلياں زخم زخم تھيں
اور وہ ہاتھ بھي جو چراغ جيسے تھے
اور رستے ميں سنگ فرسنگ کي طرح جا بجا گڑھے تھے۔
وہ ہاتھ بھي جن کے ناخنوں کے نشاں
معصوم گردنوں پرمثال طوق ستم پڑے تھے
تمام نا مہربان اور مہربان ہاتھوں سے
دست کش يوں رہا ہوں جيسے
يہ مٹھياں ميں نے کھول ديں تو
وہ ساري سچائيوں کے موتي
مسرتوں کے تمام جگنو
جو بے يقيني کے جنگلوں ميں
يقيں کا راستہ بناتےہيں
روشني کي لکير کا قافلہ بناتے ہيں
ميرے ہاتھوں سے روٹھ جائيں گے
پھر نہ تازہ ہوا چلے گي
نہ کوئي شمع صدا جلے گي
ميں ضبط اور انتظار کے اس حصار ميں مدتوں رہا ہوں
مگر جب اک شام
اور وہ پت جھڑ کي آخري شام تھي
ہوا اپنا آخري گيت گارہي تھي
مرے بدن ميں مرا لہو خشک ہو رہا تھا
تو مٹھياں ميں نے کھول ديں
اور ميں نے ديکھا
کہ ميرے ہاتھوں ميں
کوئي جگنو
نہ کوئي موتي
ہتھيليوں پر فقط ميري نامراد آنکھيں دھري ہوئي تھيں
اور ان ميں
قسمت کي سب لکيريں مري ہوئي تھيں۔
احمد فراز[fade]
وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے۔
تمہاري پوروں کا لمس اب تک
مري کفِ دست پر ہے
اور ميں سوچتا ہوں
وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے
وہ کہہ گئے تھے
کہ اب کے جو ہاتھ تيرے ہاتھوں کو چھو گئے ہيں
تمام ہونٹوں کے سارے لفظوں سے معتبر ہيں
وہ کہہ گئے تھے
تمہاري پوريں
جو ميرے ہاتھوں کو چھو رہي تھيں
وہي تو قسمت تراش ہيں
اور اپني قسمت کو
سارے لوگوں کي قسمتوں سے بلند جانو
ہماري مانو
تو اب کسي اور ہاتھ کو ہاتھ مت لگانا
ميں اُس سمے سے
تمام ہاتھوں
وہ ہاتھ بھي
جن ميں پھول شاخوں سے بڑھ کر لطف نمو اٹھائيں
وہ ہاتھ بھي جو صدا کے محروم تھے
اور ان کي ہتھيلياں زخم زخم تھيں
اور وہ ہاتھ بھي جو چراغ جيسے تھے
اور رستے ميں سنگ فرسنگ کي طرح جا بجا گڑھے تھے۔
وہ ہاتھ بھي جن کے ناخنوں کے نشاں
معصوم گردنوں پرمثال طوق ستم پڑے تھے
تمام نا مہربان اور مہربان ہاتھوں سے
دست کش يوں رہا ہوں جيسے
يہ مٹھياں ميں نے کھول ديں تو
وہ ساري سچائيوں کے موتي
مسرتوں کے تمام جگنو
جو بے يقيني کے جنگلوں ميں
يقيں کا راستہ بناتےہيں
روشني کي لکير کا قافلہ بناتے ہيں
ميرے ہاتھوں سے روٹھ جائيں گے
پھر نہ تازہ ہوا چلے گي
نہ کوئي شمع صدا جلے گي
ميں ضبط اور انتظار کے اس حصار ميں مدتوں رہا ہوں
مگر جب اک شام
اور وہ پت جھڑ کي آخري شام تھي
ہوا اپنا آخري گيت گارہي تھي
مرے بدن ميں مرا لہو خشک ہو رہا تھا
تو مٹھياں ميں نے کھول ديں
اور ميں نے ديکھا
کہ ميرے ہاتھوں ميں
کوئي جگنو
نہ کوئي موتي
ہتھيليوں پر فقط ميري نامراد آنکھيں دھري ہوئي تھيں
اور ان ميں
قسمت کي سب لکيريں مري ہوئي تھيں۔
احمد فراز[fade]