کاشفی
محفلین
غزل
(جگر مراد آبادی)
وہ مجسّم مری نگاہ میں ہے
اک جھلک جس کی مہروماہ میں ہے
کیا کشش حُسنِ بےپناہ میں ہے
جو قدم ہے اسی کی راہ میں ہے
میکدے میں نہ خانقاہ میں ہے
میری جنّت تری نگاہ میں ہے
ہائے وہ رازِغم کہ جو اب تک
مرے دل میں تری نگاہ میں ہے
ڈگمگانے لگے ہیں پائے طلب
دل ابھی ابتدائے راہ میں ہے
عشق میں کیسی منزلِ مقصود
وہ بھی اک گرد ہے جو راہ میں ہے
میرے پندارِ عشق پر مت جا
یہ ادا نازِ گاہ گاہ میں ہے
نقشِ حیرت ہے آج حُسن بھی خود
کون یہ عشق کی نگاہ میں ہے
مستیء چشمِ یار کیا کہئے
مے تو کیا میکدہ نگاہ میں ہے
اللہ اللہ اتحادِ مذاق
عالمِ دل بھی اب نگاہ میں ہے
حُسن کو بھی کہاں نصیب جگر
وہ جو اک شے مری نگاہ میں ہے
(جگر مراد آبادی)
وہ مجسّم مری نگاہ میں ہے
اک جھلک جس کی مہروماہ میں ہے
کیا کشش حُسنِ بےپناہ میں ہے
جو قدم ہے اسی کی راہ میں ہے
میکدے میں نہ خانقاہ میں ہے
میری جنّت تری نگاہ میں ہے
ہائے وہ رازِغم کہ جو اب تک
مرے دل میں تری نگاہ میں ہے
ڈگمگانے لگے ہیں پائے طلب
دل ابھی ابتدائے راہ میں ہے
عشق میں کیسی منزلِ مقصود
وہ بھی اک گرد ہے جو راہ میں ہے
میرے پندارِ عشق پر مت جا
یہ ادا نازِ گاہ گاہ میں ہے
نقشِ حیرت ہے آج حُسن بھی خود
کون یہ عشق کی نگاہ میں ہے
مستیء چشمِ یار کیا کہئے
مے تو کیا میکدہ نگاہ میں ہے
اللہ اللہ اتحادِ مذاق
عالمِ دل بھی اب نگاہ میں ہے
حُسن کو بھی کہاں نصیب جگر
وہ جو اک شے مری نگاہ میں ہے