وہ مخلص تھی۔۔۔۔

تمام کلاس فیلوز میں سے بس وہی آئی تھی میرا پتہ لینے ۔۔۔۔ یہاں تک کہ میرے مسلمان کلاس فیلوز بھی نہ آئے تھے۔
میں نے گرایجوایشن کی تو میرے باپ نے مجھے پڑھنے کیلیے بیرون ملک بھیج دیا۔ وہ بھی وہاں ہی تھی۔۔ اور سب سے الگ تھلگ۔۔۔۔۔
میں ایک بگڑا ہوا رئیس زادہ جو یہاں رہ کر بھی اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ریڈ لائٹ میں گذارا کرتا تھا۔۔۔ جب وہاں ہاسٹل میں گیا تو وہ لڑکی میری روم میٹ تھی۔۔۔ پہلے چند دن تو بس تعارف اور جھجھک ہی رہی۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مگر کچھ دن بعد جب میں نے محسوس کیا کہ وہ سب سے الگ تھلگ ہے تو میں دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔۔۔ مگر اس نے میرا دوستی کی جانب بڑھا ہوا ہاتھ بری طرح سے جھٹک دیا۔۔
میں نے سوچا شاید جھجھکتی ہے۔۔۔
پھر تعلیمی سیشن شروع ہو گیا۔۔۔ اور ہم سب کلاس والے آپس میں مگن ہو گئے۔۔۔
میری کلاس کی تمام ہی لڑکیاں مخلوط پارٹیوں میں جاتیں اور کئی تو حد بھی کراس کر ڈالتیں ۔۔۔۔ مگر وہ نا تو کبھی کسی پارٹی میں گئی اور نا ہی اس نے کسی سے دوستی کی حتیٰ کہ لڑکیوں سے بھی نہیں۔۔۔۔۔
پہلے میں سمجھتا رہا کہ کہ شاید وہ مجھ سے بات اس لیے نہیں کرتی کہ اپنی نسل کے گھمنڈ میں ہے اور مجھے ایک تیسری دنیا سے آیا ہوا فرد سمجھتی ہے۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مگر میں بھی اپنی دھن کا پکا تھا ۔۔۔۔۔ اور اس سے دوستی کرنا چاہتا تھا ۔۔ کیونکہ ہم انسانوں کا مسئلہ پتہ کیا ہے۔۔؟؟
جو چیز ہماری دسترس میں نہ ہو وہ ہماری ضد بن جاتی ہے۔۔۔ ہم اسے ہر حال میں حاصل کرنا چاہتے ہیں چاہے کچھ بھی ہو جائے۔۔
مگر اس کا رویہ دن بدن میرے ساتھ ہتک آمیز ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔ وہ مجھ سے نفرت کرتی تھی اور شاید مجھ سے ہی کیا بلکہ وہ ہر ایک سے نفرت کرتی تھی۔۔ جانے کیوں۔۔۔؟؟؟
رفتہ رفتہ مجھے اس سے نفرت ہو گئی اور میں نے اپنا کمرہ بھی تبدیل کر لیا۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسی اثنا میں نائن الیون کا سانحہ ہو گیا۔۔ اور امریکہ میں مسلمانوں کیلیے زمین تنگ کر دی گئی۔۔۔۔ گو کہ میں ایک یونیورسٹی سٹوڈنٹ تھا مگر امریکیوں کے غصے میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔ اور ہماری یونیورسٹی میں اس غصے اور شدید انتقام کی لہر نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا۔
اور ایک دن چند امریکی لڑکوں نے اکیلا پا کر مجھے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔۔۔ اور مجھے ہسپتال میں چند دن داخل ہونا پڑا۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میری کلاس میں سے تو کیا یونیورسٹی میں سے کوئی میرا حال تک نا پوچھنے آیا۔۔۔ اور میں اپنے دوستوں سے مایوس ہو گیا۔۔۔۔۔۔ اور یہ جان گیا کہ وہ محض دکھاوے کی دوستی تھی۔۔ مجھے ان کے ساتھ گذارے لمحے ایک ایک کر کے یاد آنے لگے۔۔۔
میں انہی سوچوں میں تھا کہ ایک دن وہ آئی۔۔۔۔
ہمیشہ کی طرح سرخ و سفید رنگت میں وہ ایک کھلتا گلاب ہی لگ رہی تھی ۔۔۔ مگر اس کی آنکھیں متورم تھیں اور ایسے لگتا تھا کہ وہ کئی دن سے سوئی نہیں یا روتی رہی ہے۔۔۔
وہ میرے لیے پھولوں کا گلدستہ اور کھانے کی کئی چیزیں لے کر آئی۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جب وہ مجھ سے اتنی نفرت کرتی ہے تو مجھے ملنے کیوں آئی۔۔۔
اور شاید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور شاید اس نے میری آنکھوں میں موجود سوال پڑھ لیا تھا ۔۔۔۔
اس نے کہا میں تم سے نفرت نہیں کرتی اور تم سے تو کیا کسی سے بھی نفرت نہیں کرتی۔۔۔۔
بلکہ کر ہی نئیں سکتی۔۔۔۔ مگر
مگر کیا۔۔۔۔؟؟؟؟
مگر کچھ نہیں ۔۔۔ میں تمہارے ہر سوال کا جواب دوں گی ۔۔۔
پہلے ایک چیز دیکھ لو۔۔۔ اور یہ کہتے ہی اس نے میرے سامنے اپنا پرس کھول کر رکھ دیا۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اسکے پرس سے ایک سرخ کارڈ جھلک رہا تھا۔۔۔۔۔
سرخ کارڈ۔۔۔ اس کی سابقہ زندگی کا ایک پرتو۔۔۔۔۔
اس نے زندگی کیسے گذاری ۔۔۔؟؟ یہ کارڈ اس کی ایک ایک کہانی سنا رہا تھا۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ کارڈ ہولڈر تھی مگر مخلص تھی اس لیے کسی سے تعلق نہیں رکھتی تھی کہ کہیں اس کی بیماری کسی اور کو ٹرانسفر نا ہو جائے۔۔۔
 
یہ کونسا ریڈ کارڈ ہے؟
بھیا یہ ایک ایسا کارڈ ہوتا ہے جو یورپین ملکوں میں ان لیڈیز یا کال گرلز کو دیا جاتا ہے جن سے جسمانی تعلقات پہ پابندی ہوتی ہے کیونکہ وہ ایڈز یا کسی اور موذی بیماری میں مبتلا ہوتی ہیں اور یہ بیماری ان سے کسی اور بھی لگ سکتی ہے اس لیے۔۔۔!
 

عثمان

محفلین
بھیا یہ ایک ایسا کارڈ ہوتا ہے جو یورپین ملکوں میں ان لیڈیز یا کال گرلز کو دیا جاتا ہے جن سے جسمانی تعلقات پہ پابندی ہوتی ہے کیونکہ وہ ایڈز یا کسی اور موذی بیماری میں مبتلا ہوتی ہیں اور یہ بیماری ان سے کسی اور بھی لگ سکتی ہے اس لیے۔۔۔!
شائد آپ کا اشارہ سرخ ربن کی طرف ہے جو عموما ایڈز کی بیماری کے خلاف جدوجہد کی علامت ہے۔ اس کا ایسی کسی تفصیل سے کوئی تعلق نہیں جو آپ بیان کر رہے ہیں۔
 

زیک

مسافر
بھیا یہ ایک ایسا کارڈ ہوتا ہے جو یورپین ملکوں میں ان لیڈیز یا کال گرلز کو دیا جاتا ہے جن سے جسمانی تعلقات پہ پابندی ہوتی ہے کیونکہ وہ ایڈز یا کسی اور موذی بیماری میں مبتلا ہوتی ہیں اور یہ بیماری ان سے کسی اور بھی لگ سکتی ہے اس لیے۔۔۔!
ایڈز یا کسی اور موذی مرض سے متعلق ریڈ کارڈ کا تو کبھی نہیں سنا۔ آپ کی بات سے قریب ترین جو علم ہے وہ نپولین کا طوائف سے متعلق حکم تھا جس کے مطابق عام طور پر ریڈ کارڈ (ورک پرمٹ) دیا جاتا تھا جبکہ ایس ٹی ڈی وغیرہ کی صورت میں وائٹ کارڈ۔ مگر یہ تو دو صدیاں پرانی بات ہے۔
 
آج سے پندرہ بیس سال پہلے اخبار میں ایک خبر آئی تھی۔ دو مغربی خواتین کسی یورپی ملک سے اسلام آباد ائیرپورٹ پر اتریں تو کسٹمز حکام نے ان کے سامان کی تلاشی لی۔ ان دونوں کے ہینڈ بیگز سے ایک ایسا کارڈ برآمد ہوا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ دونوں ایچ آئی وی ایڈز میں مبتلا ہیں۔

اس وقت پاکستان میں ایڈز کے بارے میں اتنی جان کاری نہیں ہوتی تھی۔ ایسے میں کسٹمز اور امیگریشن حکام کی دوڑیں لگ گئیں کہ ان کا سامان وغیرہ چیک کیا ہے تو کہیں ہم بھی انفیکٹیڈ نا ہو گئے ہوں اور دونوں خواتین کو ایک کمرے میں بند کر کے سب بھاگ نکلے۔ بعد میں وزارت داخلہ کے کسی سمجھدار افسر نے دونوں خواتین کو کچھ گھنٹوں کے بعد باہر نکالا۔
شاید آج سے پندرہ بیس سال پہلے ایسے کارڈز کچھ ممالک یا کسی خاص ملک میں وجود رکھتے ہوں اور اب متروک ہو چکے ہوں۔
 
ایڈز یا کسی اور موذی مرض سے متعلق ریڈ کارڈ کا تو کبھی نہیں سنا۔ آپ کی بات سے قریب ترین جو علم ہے وہ نپولین کا طوائف سے متعلق حکم تھا جس کے مطابق عام طور پر ریڈ کارڈ (ورک پرمٹ) دیا جاتا تھا جبکہ ایس ٹی ڈی وغیرہ کی صورت میں وائٹ کارڈ۔ مگر یہ تو دو صدیاں پرانی بات ہے۔
ایڈز یا کسی اور موذی مرض سے متعلق ریڈ کارڈ کا تو کبھی نہیں سنا۔ آپ کی بات سے قریب ترین جو علم ہے وہ نپولین کا طوائف سے متعلق حکم تھا جس کے مطابق عام طور پر ریڈ کارڈ (ورک پرمٹ) دیا جاتا تھا جبکہ ایس ٹی ڈی وغیرہ کی صورت میں وائٹ کارڈ۔ مگر یہ تو دو صدیاں پرانی بات ہے۔
آج سے پندرہ بیس سال پہلے اخبار میں ایک خبر آئی تھی۔ دو مغربی خواتین کسی یورپی ملک سے اسلام آباد ائیرپورٹ پر اتریں تو کسٹمز حکام نے ان کے سامان کی تلاشی لی۔ ان دونوں کے ہینڈ بیگز سے ایک ایسا کارڈ برآمد ہوا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ دونوں ایچ آئی وی ایڈز میں مبتلا ہیں۔

اس وقت پاکستان میں ایڈز کے بارے میں اتنی جان کاری نہیں ہوتی تھی۔ ایسے میں کسٹمز اور امیگریشن حکام کی دوڑیں لگ گئیں کہ ان کا سامان وغیرہ چیک کیا ہے تو کہیں ہم بھی انفیکٹیڈ نا ہو گئے ہوں اور دونوں خواتین کو ایک کمرے میں بند کر کے سب بھاگ نکلے۔ بعد میں وزارت داخلہ کے کسی سمجھدار افسر نے دونوں خواتین کو کچھ گھنٹوں کے بعد باہر نکالا۔
شاید آج سے پندرہ بیس سال پہلے ایسے کارڈز کچھ ممالک یا کسی خاص ملک میں وجود رکھتے ہوں اور اب متروک ہو چکے ہوں۔
جی ابھی بھی کئی ملکوں میں یہ کارڈ استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔۔
عثمان بھیا ریڈ ربن ایڈز کے خلاف جدوجہد کو نہیں بلکہ بریسٹ کینسرکے خلاف جدو جہد کو ظاہر کرتا ہے۔
زیک صاحب آپ دو صدیاں پہلے کی بات کر رہے ہیں جبکہ میں موجودہ دور کی بات کر رہا ہوں۔
عبدالقیوم چوہدری صاحب وہ کارڈز ابھی متروک نہیں ہوئے بلکہ ابھی بھی استعمال کیے جاتے ہیں
 
بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
یار، آپ لوگ افسانے کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ :)
ان کہی تشکر بسیار
محمد تابش صدیقی صاحب کوئی بات نہیں۔۔۔۔جس کو کنفیوزن ہو وہ پوچھ ہی لیتا ہے۔
عثمان کیا ہوا سرکار۔۔۔
 
Top