محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
وہ مشکل جس کا سامنا فاطمہ جناح، بینظیر اور مریم نواز سمیت پاکستان کی ہر خاتون سیاستدان نے کیا
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES/RADIO PAKISTAN
دو جنوری خاموشی سے گزر گیا۔ کم لوگوں کو یاد ہو گا کہ 56 سال پہلے یعنی سنہ 1965 کو اسی روز جنرل ایوب خان نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب میں شکست دی تھی۔ اکثر مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایک فوجی ڈکٹیٹر نے انتخاب جیتنے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا۔ ان ہتھکنڈوں میں فاطمہ جناح کے خلاف کردار کشی کی مہم بھی شامل تھی۔
پاکستان کی سیاست اور پولیٹکل ڈسکورس (سیاسی بحث) کا معیار خود ایک قابلِ بحث موضوع ہے۔ سیاسی بحث کس طرح ہونی چاہیے، اس کے آداب و ضوابط کا خیال کیسے رکھنا چاہیے اور اس کی حدود کیا ہیں، اس پر اکثر بات ہوتی ہے۔
اکثر ایک دوسرے پر رکیک حملے کیے جاتے ہیں اور ذاتی اور نجی معاملات کو سیاسی بحث میں گھسیٹ کر لایا جاتا ہے لیکن ایک مسئلہ ایسا ہے جو سیاسی بحث اور بیانیے کو باقی خرابیوں سے زیادہ داغدار کرتا ہے۔
اسے انگریزی میں میسوجنی کہتے ہیں یعنی ایسا بیان یا اقدام جو صنفی بنیادوں پر خواتین سے نفرت اور تعصب پر مبنی ہو۔
پاکستان کی سیاست، خاص طور پر انتخابی سیاست میں، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے جب جنرل ایوب خان کے مقابلے میں انتخابات میں حصہ لیا تو ان پر کئی الزامات لگائے گئے، انھیں غدار اور انڈین اور امریکی ایجنٹ تو کہا ہی گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ جنرل ایوب خان نے ان کے بارے میں دو ایسے الفاظ بھی کہے جو پوری طرح خواتین سے نفرت اور تعصب کے زمرے میں آتے ہیں۔
ڈاکٹر روبینہ سہگل کے ریسرچ پیپر ’فیمین ازم اینڈ دا ووِمنز موومنٹ ان پاکستان' اور اس وقت چھپنے والے اخبارات کے مطابق جنرل ایوب خان نے فاطمہ جناح کو ’نسوانیت اور ممتا سے عاری‘ خاتون قرار دیا تھا۔
اس میں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ پاکستانی معاشرے کے کسی حلقے کی جانب سے اس بیان پر مذمت ہوتی دکھائی نہیں دی۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میڈیا آزاد نہیں تھا لہذا اگر کہیں مذمت ہوئی بھی ہو گی تو سامنے نہ آ سکی۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ نصرت بھٹو کے خلاف تو صنفی بنیادوں پر کردار کشی کی پوری مہم اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اب بھی خواتین سیاسی رہنما اور کارکن اس رویے کی زد میں رہتی ہیں۔
مہوش بھٹی ایک سماجی مبصر اور سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا شعبے لیے کام کیا ہے۔
مہوش بتاتی ہیں کہ خواتین سے متعلق نفرت انگیز اور متعصبانہ رویہ صرف ملک کی معروف خواتین سیاسی رہنماؤں تک محدود نہیں۔
’ایک تو یہ کہ سیاسی جماعتوں میں خواتین کارکنوں کی کمی ہے اور دوسرے یہ کہ انھیں شدید قسم کے متعصبانہ رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بہت حصلہ شکن ہوتا ہے۔ پارٹی میں آگے بڑھنے کے لیے مردوں سے مقابلے کے دوران بہت گندے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
مہوش بھٹی کہتی ہیں کہ یہ ان کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ کئی لڑکیاں جنھیں سیاست میں دلچسپی تھی اور وہ باقاعدہ طور پر سیاست میں حصہ لینا چاہتی تھیں صرف مردوں کے رویے کی وجہ سے سیاست سے دور ہو گئیں۔
’مردوں نے بڑی آسانی سے یہ سمجھ لیا ہے کہ سیاست صرف مردوں کا کام ہے۔ میں نے خود یہ دیکھا ہے کہ لڑکیوں کو کہا جاتا ہے کہ آپ کا یہاں کیا کام ہے، آپ کی تو کچھ عرصے میں شادی ہو جانی ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی لڑکی آگے بڑھنے لگتی ہے تو کئی مردوں کی انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔‘
مہوش بتاتی ہیں کہ نوجوان لڑکیوں کے لیے سیاست میں بہت نچلی سطح سے ہی مزاحمت شروع ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ اوپر تک جاتا ہے۔ خواتین کے لیے مردوں کے مقابلے میں کھلا سیاسی میدان نہیں ہے۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
’خواتین کے کردار اور جسمانی خدوخال پر تبصرے ہونا عام سی بات ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی گفتگو بہت نارمل ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر آنے والی اراکین کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ تو وزیراعلی صاحب کی گود میں بیٹھ کر آئی ہیں۔‘
مہوش کہتی ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے دھرنوں میں شرکت کرنے والی خواتین کے بارے میں بھی جو زبان استعمال کی گئی وہ بھی انتہائی نامناسب تھی۔
مہوش بھٹی آج بھی صورتحال سے کوئی زیادہ خوش نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ابھی بھی جب کسی خاتون سیاستدان کے بارے میں ان کی صنف کی بنیاد پر کوئی بری یا متعصبانہ بات کہی جاتی ہے تو معاشرے میں عمومی طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ سیاست میں آئی ہیں تو یہ سننا پڑے گا۔
’میں اپنے رشتے داروں اور زیادہ تر جاننے والوں سے تو یہی سنتی ہوں لیکن سوشل میڈیا پر کچھ لوگ، کچھ ایکٹیوسٹ یا خواتین کے حقوق کی تنظیمیں ضرور اس رویے کی مذمت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔‘
سیاستدانوں کا ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرنا معمول کی بات ہے لیکن خواتین سیاستدانوں کو اپنے خلاف نفرت پر مبنی اور متعصبانہ بیانات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو سیاست کے ذہنی دباؤ کے دوران خواتین سیاستدانوں کے لیے ایک اضافی بوجھ ہے۔
سیاسی اور سماجی تجزیہ کار پروفیسر توصیف احمد کے کہتے ہیں کہ بعض مرد سیاستدانوں کی جانب سے خواتین سیاستدانوں کے بارے میں ان کی جنس کے بنیاد پر جملے کسنے کا مقصد ان کے حوصلے پست اور ذہنی طور پر کمزور کرنا ہوتا ہے۔
پروفیسر توصیف کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی تاریخ میں مزید پیجھے جائیں تو پہلے وزیراعظم کی اہلیہ بیگم رعنا لیاقت علی کو بھی خاتونِ اول ہونے کے باوجود کئی باتیں سہنی پڑیں۔ وہ ساڑھی پہنا کرتی تھیں جس پر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی شخصیت اور فلاحی کاموں کے بجائے ان کے لباس پر بات کی گئی۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو خواتین کو سیاسی میدان میں برابری کی بنیاد پر مقابلے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ انھیں اپنی ذات کے بارے میں ہر وقت ایک پریشانی اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
80 اور 90 کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کو آئے روز ایسے بیانات اور جملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنے آپ کو بے نظیر بھٹو کہلواتی تھیں لیکن ان کے سیاسی مخالفین انھیں بے نظیر زرداری کہتے تھے۔ بے نظیر کو اپنی سیاسی جدوجہد میں ہر وقت ایک اضافی خطرے کا سامنا رہتا تھا اور ایک خاتون ہونے کے ناطے محتاط رہنا پڑتا تھا۔ جبکہ ان کے مدِمقابل مرد سیاستدان ایسی کسی پریشانی کا شکار نہیں تھے۔ اس لیے میدانِ سیاست میں مقابلہ برابر کا نہیں تھا لیکن پھر بھی انھوں نے اپنے مخالفین کو شکست دی۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران وہ بچوں کی پیدائش کے مرحلے سے بھی گزریں اور وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے فرائض بھی انجام دیے۔ لیکن اس پر بھی تعریف کے بجائے بعض لوگوں کی جانب سے تمسخر کا نشانہ بنیں۔
خواتین سیاستدانوں کی مشکلات کسی ایک جماعت تک محدود نہیں بلکہ یہ مسئلہ اکثر سیاسی جماعتوں میں موجود ہے۔
حال ہی میں گلگت بلتستان کے انتخابات میں مریم نواز کے بارے میں ایک وفاقی وزیر نے باتیں کیں اور جلسہ گاہ میں حاضرین نے قہقہے لگائے۔
پروفیسر توصیف کا کہنا ہے کہ مجمعے میں بہت سے لوگوں کا ایسے گھٹیا بیان پر خوش ہونا ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان باتوں پر چسکے لیتے ہیں اور سیاسی بحث میں ایسے بیانات کی گنجائش موجود ہے۔
’وہ خود کو مریم نواز کہلوانا پسند کرتی ہیں تو کسی کو یہ حق نہیں کہ انھیں مریم صفدر کہے لیکن ان کے کئی مخالف سیاستدان صرف سیاسی چسکے اور انھیں نیچا دکھانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔‘
شیرین مزاری، شیری رحمان اور فردوس عاشق اعوان سمیت کئی خواتین سیاستدانوں کے خلاف تمسخر آمیز بیانات پاکستان کی سیاسی بحث کو پستی میں دکھیلنے کی واضح مثالیں ہیں۔ جن لوگوں کو یہ بیانات یاد ہوں گے انھیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ ان بیانات کا ان خواتین کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
نوجوان سیاستدان اور گلوگار تیمور رحمان اس مسئلے کو پاکستان کے پدر شاہی معاشرے سے جوڑتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف نفرت اور تعصب کی جڑیں طبقاتی نظام میں بہت گہری ہیں۔
،تصویر کا ذریعہ@MARYAMNSHARIF
’جب کوئی خاتون سیاست میں قدم رکھتی ہے تو بہت سے لوگوں کے لیے وہ اپنے روایتی کردار سے باہر آتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت میں جائے یا کسی بھی سطح پر قیادت کرے۔ بہت سے مردوں کے خیال میں وہ اپنے سماجی کردار سے تجاوز کرتی ہے۔‘
خواتین سیاستدانوں کے خلاف اس رویے کی جڑیں معاشی اور طبقاتی تضادات میں موجود ہیں۔
جاگیر دارانہ نظام نے اپنی معاشی ضروریات کے مطابق عورت کے بارے میں کچھ مخصوص تصورات کو جنم دیا۔ پاکستان میں اب بڑی حد تک سرمایہ دارانہ نظام بھی موجود ہے لیکن جاگیردارانہ تصورات اب بھی مضبوط ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام میں بھی سرایت کیے ہوئے ہیں۔
تیمور رحمان کہتے ہیں کہ ایک زرعی معاشرے کی معاشی ضروریات نے عورت کے بارے میں سماجی تصورات کے ایک مجموعے کو پیدا کیا جس کا اظہار آج بھی پاکستان کی سیاست اور سیاسی بحث میں ہوتا ہے۔
’جب تک یہ ملکیتی نظام نہیں ٹوٹے گا جس میں کچھ لوگ دولت پر قابض ہیں اور ایک انتہائی درجے کی عدم مساوات ہے۔ صنفی عدم مساوات اس معاشی عدم مساوات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یہ پورا طبقاتی نظام عورتوں کے بارے میں رویوں کی جڑ ہے۔‘
تاہم تیمور رحمان مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ صورتحال پہلے کے مقابلے میں بڑی حد تک بہتر ہوئی ہے۔ آج جب کوئی مرد سیاستدان کسی خاتون سیاستدان کے بارے میں کوئی نازیبا بات کہتا ہے تو اس کا ردعمل بھی سامنے آتا ہے۔ لوگ مذمت کرتے ہیں اور ایک بحث چھڑ جاتی ہے۔‘
تیمور رحمان جس ردعمل کی جانب اشارہ کر رہے ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں صنعتی معاشرے کا اثر و رسوخ بڑھا ہے۔ خواتین ہر شعبے میں سامنے آئی ہیں۔ ہر سطح پر کام کر رہی ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیوں میں اعلی عہدوں سے لے کر فیکٹریوں تک میں ایک ورکر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ معاشی طور پر خود مختار ہوئی ہیں۔ اسی لیے معاشرے پر اپنے حقوق کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں۔ ملک کے سیاسی نظام میں بھی اپنا اثر بڑھا رہی ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
حالانکہ بے نظیر بھٹو کے دو مرتبہ وزیراعظم بننے کے واقعے کو تین دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن تیمور رحمان کے مطابق اسے آج بھی پاکستان میں خواتین کی جدوجہد کے سفر میں ایک سنگِ میل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
’بے نظیر کو جن لوگوں نے منتخب کیا ان میں اکثریت غریب لوگوں کی تھی۔ بے نظیر کو ووٹ دینے کی اور بھی کئی وجوہات ہوں گی لیکن عوام کا اتنی بڑی تعداد میں ایک خاتون کو ووٹ دینا ایک سماجی تبدیلی کا بھی اشارہ تھا۔‘
جب بے نظیر کے بارے میں بحیثیت ایک خاتون ان کے سیاسی مخالفین نازیبا الفاظ کہتے تھے تو ان کے لاکھوں ووٹروں کو یہ برا لگتا تھا۔ جس کا مطلب ہے کہ ان کے منتخب ہونے نے خواتین کے بارے میں سماجی رویے میں کسی حد تک بہتری ظاہر کی۔
مصنف اور صحافی ریما عباسی اس معاملے کے ایک مختلف پہلو کو اجاگر کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو اِن سماجی رویوں کے سامنے زیادہ مضبوطی سے کھڑا ہونا چاہیے۔ انھوں نے مہتاب راشدی کی مثال دی جنھوں نے جنرل ضیاہ الحق کے زمانے میں پی ٹی وی پر دوپٹہ پہن کر آنے سے انکار کر دیا تھا اور پابندی برداشت کی۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی بلند ترین آواز عاصمہ جہانگیر نے مقتدر قوتوں کے خلاف کھل کر بولا اور جدوجہد کی لیکن اپنے لباس، اپنی سماجی پسند، ناپسند اور انفرادیت پر کسی کو حاوی نہیں ہونے دیا۔
ریما کہتی ہیں کہ خواتین کو اپنے خلاف سیاسی اور سماجی رویوں کے سامنے سر نہیں جھکانا چاہیے اور اپنی انفرادیت کو قربان نہیں کرنا چاہیے۔
’بے نظیر سنہ 1986 میں جب پاکستان آئیں تو لباس کے معاملے میں وہ جیسی تھیں انھیں ویسے ہی رہنا چاہیے تھا۔ انھوں نے پاکستان کے قدامت پسند حلقوں کے دباؤ میں آ کر اپنا رہن سہن تبدیل کر لیا۔ دوپٹہ اور چادر بے نظیر کا انتخاب نہیں مجبوری تھی۔ ایک خاتون سیاستدان جب ایسا کرتی ہے تو یہ اس کی انفرادیت اور شخصیت کی شکست ہوتی ہے۔ ذرا سوچیے کہ بے نظیر بھٹو اپنے پرانے انداز و لباس کے ساتھ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھی ہوتیں تو ضیاہ الحق والی سوچ اور حلقوں سے کتنا بڑا انتقام ہوتیں۔‘
سوال یہ ہے کہ مہتاب راشدی یا عاصمہ جہانگیر نے انتخابی سیاست میں تو حصہ نہیں لینا تھا۔ سیاست کی اپنی مجبوریاں اور مسائل ہوتے ہیں جن کا بے نظیر کو سامنا تھا۔
تاہم ریما عباسی سمجھتی ہیں کہ سماجی دباؤ کے سامنے خواتین سیاستدان جتنا جھکیں گی انھیں اتنا ہی زیادہ جھکایا جائے گا۔
’بے نظیر کے ووٹر اور حمایتی کو ان کے لباس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اس نے ہر حال میں بے نظیر ہی کو ووٹ دینا تھا۔ جنھیں مسئلہ تھا اور جن کے دباؤ میں آ کر بے نظیر نے اپنے سر پر دوپٹہ یا چادر ڈالی انھوں نے تو ایسا کرنے پر بھی بے نظیر کو کبھی ووٹ نہیں دیا۔‘
ریما نے سوال کیا کہ چادر پہننے کے باوجود کیا بے نظیر بھٹو کو کردار کشی کا سامنا نہیں کرنا پڑا؟
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں اب زیادہ خواتین نظر آ رہی ہیں۔ ایسے علاقوں سے بھی خواتین انتخابات اور سیاسی عمل کے ہر شعبے میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں جو بہت قدامت پسند سمجھے جاتے ہیں۔ ملک کے قوانین بھی میدانِ سیاست میں اترنے میں خواتین کے لیے مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ لیکن خواتین کے خلاف صنفی بنیادوں پر متعصبانہ رویے آج بھی پوری طرح موجود ہیں۔ اس مسئلے کا مقابلہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سیاست میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شمولیت ہی اس کا حل بھی ہے۔
- حسین عسکری
- بی بی سی اردو سروس
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES/RADIO PAKISTAN
دو جنوری خاموشی سے گزر گیا۔ کم لوگوں کو یاد ہو گا کہ 56 سال پہلے یعنی سنہ 1965 کو اسی روز جنرل ایوب خان نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب میں شکست دی تھی۔ اکثر مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایک فوجی ڈکٹیٹر نے انتخاب جیتنے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا۔ ان ہتھکنڈوں میں فاطمہ جناح کے خلاف کردار کشی کی مہم بھی شامل تھی۔
پاکستان کی سیاست اور پولیٹکل ڈسکورس (سیاسی بحث) کا معیار خود ایک قابلِ بحث موضوع ہے۔ سیاسی بحث کس طرح ہونی چاہیے، اس کے آداب و ضوابط کا خیال کیسے رکھنا چاہیے اور اس کی حدود کیا ہیں، اس پر اکثر بات ہوتی ہے۔
اکثر ایک دوسرے پر رکیک حملے کیے جاتے ہیں اور ذاتی اور نجی معاملات کو سیاسی بحث میں گھسیٹ کر لایا جاتا ہے لیکن ایک مسئلہ ایسا ہے جو سیاسی بحث اور بیانیے کو باقی خرابیوں سے زیادہ داغدار کرتا ہے۔
اسے انگریزی میں میسوجنی کہتے ہیں یعنی ایسا بیان یا اقدام جو صنفی بنیادوں پر خواتین سے نفرت اور تعصب پر مبنی ہو۔
پاکستان کی سیاست، خاص طور پر انتخابی سیاست میں، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے جب جنرل ایوب خان کے مقابلے میں انتخابات میں حصہ لیا تو ان پر کئی الزامات لگائے گئے، انھیں غدار اور انڈین اور امریکی ایجنٹ تو کہا ہی گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ جنرل ایوب خان نے ان کے بارے میں دو ایسے الفاظ بھی کہے جو پوری طرح خواتین سے نفرت اور تعصب کے زمرے میں آتے ہیں۔
ڈاکٹر روبینہ سہگل کے ریسرچ پیپر ’فیمین ازم اینڈ دا ووِمنز موومنٹ ان پاکستان' اور اس وقت چھپنے والے اخبارات کے مطابق جنرل ایوب خان نے فاطمہ جناح کو ’نسوانیت اور ممتا سے عاری‘ خاتون قرار دیا تھا۔
اس میں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ پاکستانی معاشرے کے کسی حلقے کی جانب سے اس بیان پر مذمت ہوتی دکھائی نہیں دی۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میڈیا آزاد نہیں تھا لہذا اگر کہیں مذمت ہوئی بھی ہو گی تو سامنے نہ آ سکی۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ نصرت بھٹو کے خلاف تو صنفی بنیادوں پر کردار کشی کی پوری مہم اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اب بھی خواتین سیاسی رہنما اور کارکن اس رویے کی زد میں رہتی ہیں۔
مہوش بھٹی ایک سماجی مبصر اور سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا شعبے لیے کام کیا ہے۔
مہوش بتاتی ہیں کہ خواتین سے متعلق نفرت انگیز اور متعصبانہ رویہ صرف ملک کی معروف خواتین سیاسی رہنماؤں تک محدود نہیں۔
’ایک تو یہ کہ سیاسی جماعتوں میں خواتین کارکنوں کی کمی ہے اور دوسرے یہ کہ انھیں شدید قسم کے متعصبانہ رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بہت حصلہ شکن ہوتا ہے۔ پارٹی میں آگے بڑھنے کے لیے مردوں سے مقابلے کے دوران بہت گندے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
مہوش بھٹی کہتی ہیں کہ یہ ان کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ کئی لڑکیاں جنھیں سیاست میں دلچسپی تھی اور وہ باقاعدہ طور پر سیاست میں حصہ لینا چاہتی تھیں صرف مردوں کے رویے کی وجہ سے سیاست سے دور ہو گئیں۔
’مردوں نے بڑی آسانی سے یہ سمجھ لیا ہے کہ سیاست صرف مردوں کا کام ہے۔ میں نے خود یہ دیکھا ہے کہ لڑکیوں کو کہا جاتا ہے کہ آپ کا یہاں کیا کام ہے، آپ کی تو کچھ عرصے میں شادی ہو جانی ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی لڑکی آگے بڑھنے لگتی ہے تو کئی مردوں کی انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔‘
مہوش بتاتی ہیں کہ نوجوان لڑکیوں کے لیے سیاست میں بہت نچلی سطح سے ہی مزاحمت شروع ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ اوپر تک جاتا ہے۔ خواتین کے لیے مردوں کے مقابلے میں کھلا سیاسی میدان نہیں ہے۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
’خواتین کے کردار اور جسمانی خدوخال پر تبصرے ہونا عام سی بات ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی گفتگو بہت نارمل ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر آنے والی اراکین کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ تو وزیراعلی صاحب کی گود میں بیٹھ کر آئی ہیں۔‘
مہوش کہتی ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے دھرنوں میں شرکت کرنے والی خواتین کے بارے میں بھی جو زبان استعمال کی گئی وہ بھی انتہائی نامناسب تھی۔
مہوش بھٹی آج بھی صورتحال سے کوئی زیادہ خوش نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ابھی بھی جب کسی خاتون سیاستدان کے بارے میں ان کی صنف کی بنیاد پر کوئی بری یا متعصبانہ بات کہی جاتی ہے تو معاشرے میں عمومی طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ سیاست میں آئی ہیں تو یہ سننا پڑے گا۔
’میں اپنے رشتے داروں اور زیادہ تر جاننے والوں سے تو یہی سنتی ہوں لیکن سوشل میڈیا پر کچھ لوگ، کچھ ایکٹیوسٹ یا خواتین کے حقوق کی تنظیمیں ضرور اس رویے کی مذمت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔‘
سیاستدانوں کا ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرنا معمول کی بات ہے لیکن خواتین سیاستدانوں کو اپنے خلاف نفرت پر مبنی اور متعصبانہ بیانات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو سیاست کے ذہنی دباؤ کے دوران خواتین سیاستدانوں کے لیے ایک اضافی بوجھ ہے۔
سیاسی اور سماجی تجزیہ کار پروفیسر توصیف احمد کے کہتے ہیں کہ بعض مرد سیاستدانوں کی جانب سے خواتین سیاستدانوں کے بارے میں ان کی جنس کے بنیاد پر جملے کسنے کا مقصد ان کے حوصلے پست اور ذہنی طور پر کمزور کرنا ہوتا ہے۔
پروفیسر توصیف کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی تاریخ میں مزید پیجھے جائیں تو پہلے وزیراعظم کی اہلیہ بیگم رعنا لیاقت علی کو بھی خاتونِ اول ہونے کے باوجود کئی باتیں سہنی پڑیں۔ وہ ساڑھی پہنا کرتی تھیں جس پر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی شخصیت اور فلاحی کاموں کے بجائے ان کے لباس پر بات کی گئی۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو خواتین کو سیاسی میدان میں برابری کی بنیاد پر مقابلے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ انھیں اپنی ذات کے بارے میں ہر وقت ایک پریشانی اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
80 اور 90 کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کو آئے روز ایسے بیانات اور جملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنے آپ کو بے نظیر بھٹو کہلواتی تھیں لیکن ان کے سیاسی مخالفین انھیں بے نظیر زرداری کہتے تھے۔ بے نظیر کو اپنی سیاسی جدوجہد میں ہر وقت ایک اضافی خطرے کا سامنا رہتا تھا اور ایک خاتون ہونے کے ناطے محتاط رہنا پڑتا تھا۔ جبکہ ان کے مدِمقابل مرد سیاستدان ایسی کسی پریشانی کا شکار نہیں تھے۔ اس لیے میدانِ سیاست میں مقابلہ برابر کا نہیں تھا لیکن پھر بھی انھوں نے اپنے مخالفین کو شکست دی۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران وہ بچوں کی پیدائش کے مرحلے سے بھی گزریں اور وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے فرائض بھی انجام دیے۔ لیکن اس پر بھی تعریف کے بجائے بعض لوگوں کی جانب سے تمسخر کا نشانہ بنیں۔
خواتین سیاستدانوں کی مشکلات کسی ایک جماعت تک محدود نہیں بلکہ یہ مسئلہ اکثر سیاسی جماعتوں میں موجود ہے۔
حال ہی میں گلگت بلتستان کے انتخابات میں مریم نواز کے بارے میں ایک وفاقی وزیر نے باتیں کیں اور جلسہ گاہ میں حاضرین نے قہقہے لگائے۔
پروفیسر توصیف کا کہنا ہے کہ مجمعے میں بہت سے لوگوں کا ایسے گھٹیا بیان پر خوش ہونا ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان باتوں پر چسکے لیتے ہیں اور سیاسی بحث میں ایسے بیانات کی گنجائش موجود ہے۔
’وہ خود کو مریم نواز کہلوانا پسند کرتی ہیں تو کسی کو یہ حق نہیں کہ انھیں مریم صفدر کہے لیکن ان کے کئی مخالف سیاستدان صرف سیاسی چسکے اور انھیں نیچا دکھانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔‘
شیرین مزاری، شیری رحمان اور فردوس عاشق اعوان سمیت کئی خواتین سیاستدانوں کے خلاف تمسخر آمیز بیانات پاکستان کی سیاسی بحث کو پستی میں دکھیلنے کی واضح مثالیں ہیں۔ جن لوگوں کو یہ بیانات یاد ہوں گے انھیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ ان بیانات کا ان خواتین کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
نوجوان سیاستدان اور گلوگار تیمور رحمان اس مسئلے کو پاکستان کے پدر شاہی معاشرے سے جوڑتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف نفرت اور تعصب کی جڑیں طبقاتی نظام میں بہت گہری ہیں۔
،تصویر کا ذریعہ@MARYAMNSHARIF
’جب کوئی خاتون سیاست میں قدم رکھتی ہے تو بہت سے لوگوں کے لیے وہ اپنے روایتی کردار سے باہر آتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت میں جائے یا کسی بھی سطح پر قیادت کرے۔ بہت سے مردوں کے خیال میں وہ اپنے سماجی کردار سے تجاوز کرتی ہے۔‘
خواتین سیاستدانوں کے خلاف اس رویے کی جڑیں معاشی اور طبقاتی تضادات میں موجود ہیں۔
جاگیر دارانہ نظام نے اپنی معاشی ضروریات کے مطابق عورت کے بارے میں کچھ مخصوص تصورات کو جنم دیا۔ پاکستان میں اب بڑی حد تک سرمایہ دارانہ نظام بھی موجود ہے لیکن جاگیردارانہ تصورات اب بھی مضبوط ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام میں بھی سرایت کیے ہوئے ہیں۔
تیمور رحمان کہتے ہیں کہ ایک زرعی معاشرے کی معاشی ضروریات نے عورت کے بارے میں سماجی تصورات کے ایک مجموعے کو پیدا کیا جس کا اظہار آج بھی پاکستان کی سیاست اور سیاسی بحث میں ہوتا ہے۔
’جب تک یہ ملکیتی نظام نہیں ٹوٹے گا جس میں کچھ لوگ دولت پر قابض ہیں اور ایک انتہائی درجے کی عدم مساوات ہے۔ صنفی عدم مساوات اس معاشی عدم مساوات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یہ پورا طبقاتی نظام عورتوں کے بارے میں رویوں کی جڑ ہے۔‘
تاہم تیمور رحمان مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ صورتحال پہلے کے مقابلے میں بڑی حد تک بہتر ہوئی ہے۔ آج جب کوئی مرد سیاستدان کسی خاتون سیاستدان کے بارے میں کوئی نازیبا بات کہتا ہے تو اس کا ردعمل بھی سامنے آتا ہے۔ لوگ مذمت کرتے ہیں اور ایک بحث چھڑ جاتی ہے۔‘
تیمور رحمان جس ردعمل کی جانب اشارہ کر رہے ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں صنعتی معاشرے کا اثر و رسوخ بڑھا ہے۔ خواتین ہر شعبے میں سامنے آئی ہیں۔ ہر سطح پر کام کر رہی ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیوں میں اعلی عہدوں سے لے کر فیکٹریوں تک میں ایک ورکر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ معاشی طور پر خود مختار ہوئی ہیں۔ اسی لیے معاشرے پر اپنے حقوق کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں۔ ملک کے سیاسی نظام میں بھی اپنا اثر بڑھا رہی ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
حالانکہ بے نظیر بھٹو کے دو مرتبہ وزیراعظم بننے کے واقعے کو تین دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن تیمور رحمان کے مطابق اسے آج بھی پاکستان میں خواتین کی جدوجہد کے سفر میں ایک سنگِ میل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
’بے نظیر کو جن لوگوں نے منتخب کیا ان میں اکثریت غریب لوگوں کی تھی۔ بے نظیر کو ووٹ دینے کی اور بھی کئی وجوہات ہوں گی لیکن عوام کا اتنی بڑی تعداد میں ایک خاتون کو ووٹ دینا ایک سماجی تبدیلی کا بھی اشارہ تھا۔‘
جب بے نظیر کے بارے میں بحیثیت ایک خاتون ان کے سیاسی مخالفین نازیبا الفاظ کہتے تھے تو ان کے لاکھوں ووٹروں کو یہ برا لگتا تھا۔ جس کا مطلب ہے کہ ان کے منتخب ہونے نے خواتین کے بارے میں سماجی رویے میں کسی حد تک بہتری ظاہر کی۔
مصنف اور صحافی ریما عباسی اس معاملے کے ایک مختلف پہلو کو اجاگر کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو اِن سماجی رویوں کے سامنے زیادہ مضبوطی سے کھڑا ہونا چاہیے۔ انھوں نے مہتاب راشدی کی مثال دی جنھوں نے جنرل ضیاہ الحق کے زمانے میں پی ٹی وی پر دوپٹہ پہن کر آنے سے انکار کر دیا تھا اور پابندی برداشت کی۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی بلند ترین آواز عاصمہ جہانگیر نے مقتدر قوتوں کے خلاف کھل کر بولا اور جدوجہد کی لیکن اپنے لباس، اپنی سماجی پسند، ناپسند اور انفرادیت پر کسی کو حاوی نہیں ہونے دیا۔
ریما کہتی ہیں کہ خواتین کو اپنے خلاف سیاسی اور سماجی رویوں کے سامنے سر نہیں جھکانا چاہیے اور اپنی انفرادیت کو قربان نہیں کرنا چاہیے۔
’بے نظیر سنہ 1986 میں جب پاکستان آئیں تو لباس کے معاملے میں وہ جیسی تھیں انھیں ویسے ہی رہنا چاہیے تھا۔ انھوں نے پاکستان کے قدامت پسند حلقوں کے دباؤ میں آ کر اپنا رہن سہن تبدیل کر لیا۔ دوپٹہ اور چادر بے نظیر کا انتخاب نہیں مجبوری تھی۔ ایک خاتون سیاستدان جب ایسا کرتی ہے تو یہ اس کی انفرادیت اور شخصیت کی شکست ہوتی ہے۔ ذرا سوچیے کہ بے نظیر بھٹو اپنے پرانے انداز و لباس کے ساتھ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھی ہوتیں تو ضیاہ الحق والی سوچ اور حلقوں سے کتنا بڑا انتقام ہوتیں۔‘
سوال یہ ہے کہ مہتاب راشدی یا عاصمہ جہانگیر نے انتخابی سیاست میں تو حصہ نہیں لینا تھا۔ سیاست کی اپنی مجبوریاں اور مسائل ہوتے ہیں جن کا بے نظیر کو سامنا تھا۔
تاہم ریما عباسی سمجھتی ہیں کہ سماجی دباؤ کے سامنے خواتین سیاستدان جتنا جھکیں گی انھیں اتنا ہی زیادہ جھکایا جائے گا۔
’بے نظیر کے ووٹر اور حمایتی کو ان کے لباس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اس نے ہر حال میں بے نظیر ہی کو ووٹ دینا تھا۔ جنھیں مسئلہ تھا اور جن کے دباؤ میں آ کر بے نظیر نے اپنے سر پر دوپٹہ یا چادر ڈالی انھوں نے تو ایسا کرنے پر بھی بے نظیر کو کبھی ووٹ نہیں دیا۔‘
ریما نے سوال کیا کہ چادر پہننے کے باوجود کیا بے نظیر بھٹو کو کردار کشی کا سامنا نہیں کرنا پڑا؟
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں اب زیادہ خواتین نظر آ رہی ہیں۔ ایسے علاقوں سے بھی خواتین انتخابات اور سیاسی عمل کے ہر شعبے میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں جو بہت قدامت پسند سمجھے جاتے ہیں۔ ملک کے قوانین بھی میدانِ سیاست میں اترنے میں خواتین کے لیے مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ لیکن خواتین کے خلاف صنفی بنیادوں پر متعصبانہ رویے آج بھی پوری طرح موجود ہیں۔ اس مسئلے کا مقابلہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سیاست میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شمولیت ہی اس کا حل بھی ہے۔