وہ ملا مگر وہ ملا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ برائے اصلاح

loneliness4ever

محفلین
السلام علیکم
فقیر ایک مرتبہ پھر حاضر ہوا ہے
امید ہے عنایتوں کا سلسلہ جاری رہے گا


وہ ملا مگر وہ ملا نہیں
مرا تھا مگر یہ ہوا نہیں

یہ عجب ہوا مرا ہمسفر
مرے ساتھ ساتھ چلا نہیں

وہ شجر ہے کس کی دعا تلے
جو کہ آندھیوں میں گرا نہیں

وہ گمان تھا کہ یقین تھا
تھا وہ جو بھی دل سے گیا نہیں

میں محبتوں کا چراغ ہوں
کبھی آندھیوں سے بجھا نہیں

مری نسبتیں ہیں حسین سے
میں یزیدیوں سے ڈرا نہیں


س ن مخمور​
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ مطلع البتہ واضح بھی نہیں اور رواں بھی نہیں، دوسرے مصرع میں ’مرَتا‘ تقطیع ہونا روانی کو مجروح کر رہا ہے
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
بہت عمدہ مخمور بھائی! استاد محترم سے اتفاق کرتے ہوئے مطلع کو پھر سے لکھنے کی گزارش کروں گا۔

؎
وہ گمان تھا کہ یقین تھا
تھا وہ جو بھی دل سے گیا نہیں

یہ بیت تو کیا ہی عمدہ ہے صاحب!
 
بہت اعلیٰ مخمور بھائی کیا کہنے ۔
یہ دو اشعار مجھے خاص طور پر پسند آئے ہیں بہت بہت داد قبول کیجیئے۔
وہ شجر ہے کس کی دعا تلے
جو کہ آندھیوں میں گرا نہیں

میں محبتوں کا چراغ ہوں
کبھی آندھیوں سے بجھا نہیں
 
Top