مہ جبین
محفلین
وہ منتظر ہیں چمن میں بکھیر کر سائے
فضا سے صبحِ شفق رنگ نور برسائے
سمندروں سے ہَوا کو ملا نہیں پانی
تو اس کا یہ نہیں مطلب کہ آگ برسائے
مرے جہاں کا مقدر سنوارنے کے لئے
اجالے مانگتے پھرتے ہیں دربدر سائے
یہ کاروبارِ مشیت ہے کس طرح مانوں
کسی کے گھر میں چراغاں کسی کے گھر سائے
مسافروں کو گِلہ دھوپ ہے قیامت کی
رہِ طلب کی یہ صورت شجر شجر سائے
جو مانگتا ہوں ستاروں سے نور، کہتے ہیں
زمین پر ہیں اجالوں سے معتبر سائے
نگار خانہء فنکارِ نو کا سرمایہ
لہو ، شکستہ لکیریں ، خلا ، سفر ، سائے
حزیں صدیقی