وہ میری ماں تھی نوکرانی نہیں تھی ۔۔۔!!!

" وہ میری ماں تھی نوکرانی نہیں تھی "​

کبھی یوں ہوتا ہےکہ وقت اور آدمی چلتے چلتےبہت آگے نکل جاتے ہیں مگر زندگی اور احساسِ زندگی بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور عموماً ایسا کسی اپنے کے کھوجانے پر ہوتا ہے۔ ایک دن میں اور زاہد صاحب آفس کینٹین میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ میں نے ہمہ وقت کے بجھے بجھے سے رویے کہ وجہ پوچھی وہ کہنے لگے۔

مجھے آج مرے ہوئے تین سال ہوگئے

میں نے نظریں اٹھا کر اُنکی آنکھوں میں دیکھا جہاں اس جملے کے ساتھ ہی دنیا بھر کی نقاہت اتر آئی تھی ، پھر کہنے گے۔ میں ہمیشہ سے بد تمیز رہا ہوں بچپن میں اسکول جاتے ہوئے ضد ، کھانا کھاتے ہوئے نخرے وہ نہیں یہ کھانا ہے ، یہ نہیں وہ کھانا ہے مجھے نہیں یاد کہ پانچویں کلاس تک میں خود نہایا ، اپنے ہاتھ سے کھانا کھایا، کپڑے پہنے یا جوتوں کے تسمے بند کئے ہوں۔
باپ کا تو مجھے صرف نام ہی ملا نہ کبھی اُسکی صورت دیکھی اور نہ پیار ، بھائی کا سہارا کیا ہوتا ہے اور بہن کی محبت کیا ہوتی ہے کچھ معلوم نہیں۔
پرائمری ، مڈل اور پھر میٹرک تک یہی عادت رہی کہ رات کو سونے سے پہلے کتابیں ، کاپیاں ، بستہ وغیرہ غرض تمام چیزیں اِدھر اُدھر بکھری چھوڑ کر سو جاتا مگر صبح آنکھ کھلتے ہی دیکھتا کہ تمام چیزیں بہت سلیقے سے بستے میں پڑی ہیں اور بستہ بڑی نفاست سے میز پر پڑا ہے مجھے لاکھ بار کہا جاتا کہ دودھ پی کر سونا مگر میں نہیں پیتا تھا لیکن جب صبح اٹھتا تو لب شیریں اور منہ کا ذائقہ بدلا ہوتا پہلے پہل تو پتہ نہیں چلتا تھا مگر آہستہ آہستہ پتہ چل گیا کہ رات کو نیند میں دودھ پلادیا جاتا ہے رات کو کبھی آنکھ کھلتی تو دیکھتا کہ بارش ہورہی ہے اور مجھ پر کمبل ڈال دیاگیا ہے کہ سردی نہ لگے۔
مجھے ہمیشہ گھر میں دو ہی چیزوں سے چڑ رہی ، ایک 11 سے 13 گھنٹے تک ہاتھ سے چلائی جانے والی سلائی مشین اور دوسری روٹی کے کناروں پر اکثر گھی لگنے سے رہ جانا۔
مگر
روٹی کے وہ سوکھے ٹکڑے جو میں اتار دیتا تھا نہ تو کبھی گھر سے باہر فروخت ہوتے دیکھے اور نہ ہی کوڑا دان میں کبھی نظر آئے اور جب بھی مجھے پیسے چاہیے ہوتے تو میں اسی سلائی مشین کا رخ کرتا جس سےمجھے چڑ تھی جب بھی مجھے کبھی معمول سے ہٹ کر پیسوں کی ضرورت ہوتی تو دیکھتا کہ گھر میں سلائی مشین کے چلنے کا دورانیہ 16 گھنٹے تک جا پہنچتا تھا مجھے یاد ہے کالج میں داخلہ کے وقت مجھے 1500 روپے چاہیے تھے میں نے گھر آکر بتادیا اسی رات 2 بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو گھر کے برآمدے میں کچھ کھٹ پٹ ہوئی محسوس ہوئی ذرا مزید غور کرنے پر یہ بھی محسوس ہوا کہ جیسے کوئی گھٹی گھٹی سسکیوں کے ساتھ رو رہا ہو۔
چپکے سے برآمدے میں جاکر دیکھا تو موٹے شیشے کا چشمہ لگائے میری ماں جانے کب سے مشین میں دھاگہ ڈالنے کی مسلسل کوشش کررہی ہے اور ساتھ ساتھ آنسو بھی گررہے ہیں۔

میں نے پوچھا ، کیا کررہی ہے ماں ؟

ماں نے چونک کر میری طرف دیکھا اور جلدی سے آنسو صاف کرتےہوئے اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے ہوئے بلکل صاف آواز میں کہنے لگی وہ سامنے والی ثریا کے بھائی کی شادی ہے تو اس نے کہا کہ صبح تک دو سوٹ سلائی کردو اسلئے بیٹھی ہوں لیکن دھاگہ سوئی میں نہیں ڈل رہااس دن مجھے ماں کی حالت اور آنسو دیکھ کر احساس ہوا کہ مجھے کوئی چھوٹا موٹا کام کرنا چاہیے میں مناسب کام بھی ڈھونڈتا رہا اور پڑھتا بھی رہا اُدھر ایف - اے مکمل ہوا اور اِدھر آفس میں کام مل گیا میں نے گھر جاکر ماں کو بتایا تو وہ خوشی سے نہال ہوگئی فوری شکر پارے لاکر محلے میں بانٹے ایک دن میں کام سے گھر آکر لیٹ گیا تھوڑی تھکاوٹ ہورہی تھی پاؤں چارپائی سے لٹکائے ہی سوگیا جب اٹھا تو دیکھا کہ خلاف معمول آج نہ جوتے میرے پاؤں سے اترے تھے اور نہ ہی کھانا بنا تھا ماں کو آواز دی
ماں
ماں
اٹھ بھوک لگی ہے
ماں ںںںںں

چیخ چیخ کر رودیا ، ہزار منتیں اور ترلے کئے مگر شاید ماں اب کی بار اٹھنے کےلئے نہیں سوئی تھی ، ماں کے بعد وہ گھر چھوڑدیا ، قبرستان لگتا تھا ادھر دیارِ غیر میں آکر اپنا سارا کام خود کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ مین نے کبھی جس کی خدمت نہ کی اور نہ کبھی آسائش و سکوں دیا

" وہ میری ماں تھی نوکرانی نہیں تھی "
یہ کہتے ہوئے زاہد کے دو موٹے موٹے آنسو رخساروں پر بہہ گئے ۔۔۔

( اللہ تعالیٰ میرے اور جس کے بھی والدین حیات ہیں سب کے والدین کو ایمان و صحت کے ساتھ خوش رکھے اور اللہ رب العزت ہمیں انکی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جن کے والدین وفات پاگئے اللہ تعالی ان کو صبر دے اور انکے والدین کی مغفرت فرمائے )
آمین


حوالہ


یہ کہانی کچھ ماہ قبل نیٹ پر پڑی تھی جسے تھوڑی ترمیم کرکے اپنے فیس بک پروفائل پپر شیئر کیا تھا
‫Waqar Ali - " وہ میری ماں تھی نوکرانی نہیں تھی " ﮐﺒﮭﯽ ﯾﻮﮞ... | Facebook‬
 
کافی سبق آموز ہے۔
( اللہ تعالیٰ میرے اور جس کے بھی والدین حیات ہیں سب کے والدین کو ایمان و صحت کے ساتھ خوش رکھے اور اللہ رب العزت ہمیں انکی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جن کے والدین وفات پاگئے اللہ تعالی ان کو صبر دے اور انکے والدین کی مغفرت فرمائے )
آمین۔۔
 

ابن توقیر

محفلین
والدین کی قدر کیجئے اس سے قبل کے پچھتاوا رہ جائے۔
ماں کی عظمت کو تحریر کرنے کےلیے آج تک الفاظ کی وہ ترتیب ہی نہیں بن سکی جو اِس عظیم ہستی کا حق ادا کرسکیں۔
بہت ہی اثرکن اور آنکھوں میں آنسو لانے والی تحریر شیئر کی آپ نے۔بس دعا ہے کہ اللہ وقتی اثر سے نکلنے والی آنسووں کی جگہ عملاً ہر کسی کو اس کی ماں کی خدمت کا موقع دے۔
اور جن کے والدین حیات نہیں ہیں ان کو اپنے والدین کے صدقہ جاریہ بنائے۔آمین
 
والدین کی قدر کیجئے اس سے قبل کے پچھتاوا رہ جائے۔
ماں کی عظمت کو تحریر کرنے کےلیے آج تک الفاظ کی وہ ترتیب ہی نہیں بن سکی جو اِس عظیم ہستی کا حق ادا کرسکیں۔
بہت ہی اثرکن اور آنکھوں میں آنسو لانے والی تحریر شیئر کی آپ نے۔بس دعا ہے کہ اللہ وقتی اثر سے نکلنے والی آنسووں کی جگہ عملاً ہر کسی کو اس کی ماں کی خدمت کا موقع دے۔
اور جن کے والدین حیات نہیں ہیں ان کو اپنے والدین کے صدقہ جاریہ بنائے۔آمین

آمین ۔۔۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
بچوں کی تربیت کی کمی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ ۔ اس کے لیئے معاشرے میں ہر فرد کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیئے خصوصاً اساتذہ کو ۔ ۔ اور آج کل کے دور میں سوشل میڈیا کوبھی اس اہم کام پر توجہ دینی چاہیئے ۔ ۔ صرف ماں ہی نہیں ہر بڑے کا ادب سب بچوں کی ذمہ داری ہے اور ایک مخصوص عمر تک پہنچنے پر چھوٹے چھوٹے کام ان پر ڈالنے چاہئیں نا کہ لاڈ میں ان کے سب کام کیئے جائیں ۔ ۔
آپ نے ایک اچھی تحریر پیش کی ۔ ۔ شکریہ
 
Top