فلک شیر
محفلین
وہ پھول کاڑھتی رہی
خزاں کی زرد شال پر وہ پھول کاڑھتی رہی
اُجڑتے ماہ و سال پر وہ پھول کاڑھتی رہی
دِلوں کے مرغزار میں
عجب اُداس شام تھی
گزرتے پل کے ہونٹ پر
وہ منتشر سا نام تھی
دکھوں کی تند دھار پر
لہولہان انگلیاں
مگر وہ سانس سانس اپنی عمر کے لباس پر
لہو کشیدتی رہی
گلاب سینچتی رہی
خزاں کی زرد شال پر اُجڑتے ماہ و سال پر
وہ پھول کاڑھتی رہی وہ پھول کاڑھتی رہی
سرمد صہبائی
خزاں کی زرد شال پر وہ پھول کاڑھتی رہی
اُجڑتے ماہ و سال پر وہ پھول کاڑھتی رہی
دِلوں کے مرغزار میں
عجب اُداس شام تھی
گزرتے پل کے ہونٹ پر
وہ منتشر سا نام تھی
دکھوں کی تند دھار پر
لہولہان انگلیاں
مگر وہ سانس سانس اپنی عمر کے لباس پر
لہو کشیدتی رہی
گلاب سینچتی رہی
خزاں کی زرد شال پر اُجڑتے ماہ و سال پر
وہ پھول کاڑھتی رہی وہ پھول کاڑھتی رہی
سرمد صہبائی
آخری تدوین: